21
از ی ت م ں ا می ب ح م ر ی غ اوز ب ح م لاد ، ی م د ی ع لہ ال ر ھ# پ و ت ے( ہ ب س ا دز ی ی راز د ق د ی ع و ک م سل ہ و ی عل لہ ی ال صل ی ب لتد ا لا ی م د ی ع ر گ ے کہ ا( ہ ا ات ا ج( ہ ک ہ ں ی می ب ف ل ا خ م ی ک لاد ی م د ی عI وان ض ر ل وا مہ ح ر ل ہ ا ی عل لام سلا ا خ یT س رت حض ا رمات ق ں ی( ہ ن ون ی ک ب ج وا و ک س رح ا ط ی ک ی ح ضلا د ا ی ع ر و ط ف ل د ا ی ع ے ن ل ج و ر ع ں ۔h ی( ہj ے یت د وات جزا ا یq ی اr ڑ ب کا راض غی اس ا’’ ے( ہ ہ ی وات جسکا ی ۔ اz ئ و( ہ ں ی( ہ نر ز مق و ن ی ک د ی ع ی کاول ع ال ی ی ں ز می لا م س ے ا ک ہ ج ح ل ی ا د د ی ع ےz ن ا خ ب ے کہz ن ا ا ج( ہ ک ر گ ا دم اً لاT ی م و( ہ ر ت س مT ب ع ا و گا کہ ت( ہ ر وز ضسا ی عہ ا ی واقz ئ و ک ی کا ب ی ک ر ای( ہ ں اوزh ی( ہ ا دہ ت ے ز س ھ ک لا ک م ای لا س ل م ا( ہ علی اء ی ت ی کہ ا و( ہ ر د س ر ود م نT ش ی ڑ ا# ب لام س ل ہ ا ی عل م ی( ہڑا ب، ا ا ا ت# ت ا ت خ ب ے س ھ پ ا( ے ہ کI ون ع ر ق م کا لا س ل ہ ا ی علٰ ی س و مT شz ی د ا یq ی ی ک لا م س ل ہ ا ی عل ے س اس ا ی گ ا ا ت ی ی د ی ع عہ واق کا ے ان ھ پ د ے ج ک م سل ہ و ی عل لہ ی ال صل ی ب ی لام س ل ہ ا ی عل ل ی عٰ م س ا رف ض ے سا م م نI رہ ان ی غ ا و ات ج و د ج و ت ں ی را د( ہr ن د ی ع و ک ے زو ز ک ی ولا دت ک ی ب ی ے یت ر ا گکہ ا ا ے۔ تz ن ا ج ھ ا پ ا( ر ہ ی ظ ن و ک و ن ی مت ے کہ ا( ہ ا و ت( ہ و م ل ع م ی( ہ ن و د ص ف م ا ی ی ہ صاف کہ ی و ت ی ک و ۔( ہ و د ص ف م ے س ی اس ھ پ ہ ی واز م کاI ما ن ن ے ا ک ون ی مت ں کہ ا ی( ہ ن ب ح ع ت اوز و( ہ ن دz ڑ عات# بI ام ان ر ل ا ری کا س کا ب ب ح م ر ھ# پ ں ۔ ی( ہ ن ی( ہI ما ن ن و ا ک س و ا( ہ ن ب ب ح م ا دہ ت ے ز س و مالI ا ن ی ج ب# ی ھ ا پ ے سا ک ر ت حض و ک ش ج ے کہ( ہ ا ی گ ا ر دت کI ن ں ۔ ی( ہ ن ق ل ع ت یz ئ و ک ے س ب ب ح م و ک س ا ا و ت( ہ ں ی( ہ نT و س ج و ج اوز و( ہ یT س و ج ے س لz ی ا ض ف د اوز و ج ے و ک و ت ی ح م ے یت کہ ا ی( ہ ہ مہ ی لاز ے س خا ظ ل ے ک ر ض ق ےz ن ص ادا خT ش ر( ہ و ت ا ا ت اج ی کر ز مق د ی ع ر وہ زوز گ ے کہ ا( ہ ا و ت( ہ و م ل ع م ر س ہ ں ی می ے ن ر ک ہ ر ز ی مق لا د ی م د ی ع یz ئ و ک ر گ ا ے ات( ہ ا و ت( ہ ل کT ش م ا ر ت ک رق ق ں می ب ح م ر ی غ ب ح م ے اوز( ہ ا ا ت ا ج ی کً ا( رہ ک وً وعا طI خ ح ر ح ط ش ج ا لا ت ا خ ب د ی ع م س را مI ںّ عی ت ے کہ( کہ ر وہ گ ے ۔ ا( ہ ع ن ما ر ی# چ ی سI ون ک ں می ے ن ر ک ر( ہ ا ے ظ ک ے کہ اس گ ں ی( ہ ک م( ہ و تj ے( متیہ ر ے دل می ب ب ح م ے کہ( کہ ر( ہ ن ان رت ق د ی عj ے عت ت ے( ہ و د ج و م ر ی ظ ن ا ن( ہ ن ے اوز مل ہ ی ت ی م رعT س ر ی ظ ن ی سک ج ے( ہ وہ ب ع د ے کہ ت گ ں ی( ہ ک م( ہ و ت ے( ہ ب ع د ت ب ق و ہ ی ع رT س و ل ض ا رف ض ں ی د و ات ج کا ا ت ر ت( ہ ں کہ ی( ہ ن روزی ض ں می( ہ ے اوز( ہT شz ی ا خØ ن گ یr ڑ ب ں می س و ا ت ںh ی( ہ ا# ا ج ا ت ی ی ر گ ل ا جا و۔( ہ ن ع نوز ما ل اz ی ر جا م ی اz ئ و ک ےz لت ے ک صا دقI ںّ h ی ی ح م ا کہ ی ت ھ پ روزت ض ی کj ے یت ر د کT شh یq ی و ت یT ی ے س ف ی رT س ا زی خ ب ے( ہI ی کا دنT س و ج لا د ی م زوز راہ م گ ڑ ک( ہ ک ہ و ی ک اس ی ل وام ا ع ے، ل ے وا ن ر ک کاز ان کا رت س م ھاز ظڑ ا# ب عادت س ا ت ی ولادت ک لام س ل وا لاہ ض ل ہ ا ی عل اک# وز ت حص

عید میلاد

  • Upload
    other

  • View
    607

  • Download
    2

Embed Size (px)

DESCRIPTION

Khawariji=wahabi=deobandi=ahle hadees=najdi=ghair muqaled=salafi=maududi=qadyani=tableeghi ,etcRawafiz=shia=asna ashari=zaidi=imamia=ismaeeli=jafari= ,etc

Citation preview

Page 1: عید میلاد

عید میالد ، محب اور غیر محب میں امتیازوعید الفطر عید نے عزوجل اللہ پھر تو ہے درست دینا قرار عید کو وسلم علیہ اللہ صلی النبی میلاد عید اگر کہ ہے جاتا کہا یہ میں مخالفت کی میلاد عید۔ ہیں دیتے جواب پیارا بڑا کا اعتراض اس ضوان والر الرحمۃ علیہ الاسلام شیخ حضرت فرمایا نہیں کیوں واجب اسکو طرح کی الاضحی

السلام ’’ علیہم انبیاء کہ ہے یہ جواب اسکا ۔ ئی ہو نہیں ر مقر ں کیو عید کی الاول ربیع میں م اسلا کے الحجہ ذی عید ئے بجا کہ ئے جا کہا اگرم ‘ السلا علیہ یی س مو ائش پید کی م السلا علیہ آادم اا مثل ہو ت مسر عث با کہ گا ہو ور ضر ایسا واقعہ کوئی کا نبی ایک ہر اور ہیں دہ زیا سے کھ لا ایکو علیہ اللہ صلی نبی السلام علیہ یمعیل اس صرف سے م تما ان وغیرہ جانا ہو د سر ود نمر تش آا پر السلام علیہ ابراہیم نا، پا ت نجا سے تھ ہا کے عون فر کا

کے دت ولا کی نبی اپنے اگر تاکہ ئے۔ جا آا تھ ہا نظیر کو ں امتیو کہ ہے تا ہو م معلو یہی د مقصو سے اس گیا یا بنا عید واقعہ انکا تھے جد کے سلمصاف یہ نکہ کیو ۔ ہو د مقصو سے اس بھی موازنہ کا ن ایما کے امتیوں کہ نہیں تعجب اور نہو عائد پر ان ام الز کا سری د خو تو دیں ٹہرا عید کو ز رواپنے ہیکہ یہ لازمہ کا محبت ۔پھر نہیں ہی ن ایما اسکو نہو محبت دہ زیا سے مال و ن جا اپنی تھ سا کے ت حضر کو جس کہ ہے گیا دیا کر ن بیا

معلو سر یہ میں نے کر نہ ر مقر د میلا ۔عید نہیں تعلق ئی کو سے محبت اسکو تا ہو نہیں ش خو جو اور ہو خوشی سے ئل فضا اور د وجو کے ب محبواور ہے تا جا کیا اا وکرہ اا طوع حج ح طر جس تا لا بجا عید سم مرا سے ظ لحا کے ض فر ادائے شخص ہر تو تا کیاجا ر مقر عید روز وہ اگر کہ ہے تا ہو مکون‘ میں نے کر ہر ظا کے اس کہ گے کہیں ہم تو میںہے دل ے میر محبت کہ کہے کوئی اگر اب ہے تا ہو مشکل نا کر فرق میں محب غیر محبہے د جو مو نظیر ں یہا اور ملے میںنہ شرع نظیر جسکی ہے وہ بدعت کہ گے کہیں ہم تو ہے عت بد وقت یین تع کہ کہے وہ اگر ۔ ہے نع ما چیز سیکر پیش شرعیہ ل اصو صرف دیں اب جو کا ت با ہر کہ نہیں ضروری ہمیں اور ہے ئش گنجا بڑی اسمیں تو چاہیں نا بنا اگر ل حا بہر قرباں عید یعنے

نہو۔ نع ما اور ئل حا امر ئی کو لئے کے دق صا یین محب کہ تا تھی ضرورت کی دینےت ثبو سے یف شر ری بخا ہے دن کا شی خو د  روزمیلا

ہیں تے کر کوشش کی کرنے گمراہ کہکر یہ کو الناس عوام والے، نے کر انکار کا مسرت اظھار پر باسعادت ولادت کی والسلام الصلاۃ علیہ پاک حضورکا جانے میں دوزخ کرنا اہتمام کا چیزوں دیگر اور کھلانا کھانا پر موقع کے میلاد اور ہے خلاف کے شریفہ احادیث کرنا اظھار کا خوشی پر میلاد کہ

رقمطرازہیں۔ سرہ قدس نظامیہ جامعہ بانی الاسلام شیخ حضرت الرحمہ علیہ دکن یدث مح حضرت استاذ پر اس ہے۔ بنانا  راستہ’’ بھائی رے تمہا کہ نچی پہو خبر تمہیں کیا کہا سے لہب ابو تھی نڈی لو کی ابولہب جو نے عنہا اللہ رضی یبہ ثو کے ہے لکھا میں اہب مو نچہ چنامیں ہ وغیر یف شر ری بخا دیا۔ کر آازاد اسے سے مسرت ل کما ہی سنتے یہ ہوا۔ ا پید لڑکا سے بطن کے عنہا اللہ رضی آامنہ کو عنہ اللہ رضی اللہ عبدجب ہو چھتے پو کیا کہا ہے لت حا کیا کہ پوچھا اور دیکھا میں اب خو اسے نے دار بت قرا کسی کے اس بعد کے مرنے کے لہب ابو کہ ہے روایت ( کی شہادت بہ سبا اور ٹھے انگو اور ہے تی جا ہو تخفیف میں عذاب رات کی پیر ف صر ں ہو رہا جل میں آاگ ہوا ہ یلحد ع سے گوں لو تم سےرضی( یبہ ثو کہ ہے سے جہ اسو ف صر یہ ہوں ستا چو میں جسکو ہے تا ہو ری جا نی پا سے م مقا اس رات اس کہ کہا کرکے اشارہ میں بیچ کے انگلی

تھا۔ کہا کو نے پلا دودھ اور دیا کر آازاد اسے نے میں ئی سنا ی شخبر خو کی وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت مجھے جب نے عنہا  اللہضمانت کی امن کیلئے بھر سال پڑھنا شریف مولود

’’ کر خوشی رات کی شریف د میلا ہے۔ ہوئی زل نا کی آان سورۃقر ایک میں مذمت کی جس فرکو کا جب کہ کہا نے علیہ اللہ رحمتہ زی جو ابن فظ حامیں محبت کی ت ورحضر مقد حسب کے کر شی خو رات کی د میلا اور ہو موحد اور امتی کاجو حضرت تو ہے تا جا دیا میں دوزخ لہ بد ایسا کا نےاسی ۔ یگا کر خل دا میں جنت ااسے سے کرم و فضل اپنے یی ل تعا ا خد کہ گی ہو یہ جزا اسکی ہے قسم گی۔ ملے جزا کیسی اسکو کرے خرچ کچھہیں اتے پڑھو شریف لود مو اور ہیں تے کر مسرت ر اوراظہا ہیں کھلاتے نے کھا ہیں، تے کر م اہتما یت نہا میں یف شر د میلا ہ ما اسلام اہل سے وجہہو صل حا مرادات اور رہتاہے امن سال اس کہ ہے چکا ہو بہ تجر اسکا کے ں صیتو اورخا منجملہ ہے، تا ہو ہر ظا یہی ال فض۔ل پر ان سے وجہ کی جس

سمجھتے برا کو م کا اس لوگ جو سے سبب کے جس دے قرار عید کو راتوں کی رک مبا د میلا جو ے کر رحم پر شخص اس یی ل تعا خدائے ۔ ہیں تے‘‘ ۔ اا ملخص انتہی جلیں۔ خوب وہ ہیںہے ضرورت کی منانے میلاد کو شنبہ دو  ہر

بانی حضرت میں جواب اسکے نہیں، درست کرنا اہتمام خصوصی میں اس اور کرنا خاص دن ایک کیلئے خوشی اظہار کہ ہے جاتا کہا یہ پر طور عام : میں عذاب کے لہب ابو روز کے شنبہ ہردو صلہ کے میلاد ت مسر اظہار کہ ہے بت ثا سے روایت کی شریف ری بخا ہیں فرماتے علیہ اللہ رحمۃ جامعہالحا ہیں۔ مفید اور قدر قابل بھی دت روزولا ل امثا نزدیک کے یی ل تعا خدائے کہ ا ہو معلوم تو ہے ملتا نی پا ٹھنڈا میں دوزخ عین اور ہے تی ہو تخفیفدرجا رفع و ت آافا دفع تب مرا حسب علی میں عالم دوسرے نا کر مسرت ر اظہا اسمیں ہے نہیں ہ ئد فا بے بحث کی دت ولا م یو ل امثا فضیلت صلتو کواتنا امتیوں ہم مگر تھے تے کر ادا یہ شکر کر رکھ زہ رو حضرت کہ جیسا ہے ورت ۔ضر کی نے کر کوادا شنبہ ہردو تو یوں ۔ ہے عث با کا ت

ہہ۔ لل ہبا ایا ہال انا اق ہفی اتو اا اوم کریں۔ کیا ت مسر ر اظہا مرتبہ ایک میں سال کہ ہے ضروریشرط نیت وحسن دل صدق لئے کے منانے  میلاد

میں ’’ دنیا آاثار کرنیکے مسرت اظہار پر یف شر د میلا تو ہے۔ تا جا دیا بھی میں دنیا لہ بد کچھ نہ کچھ اسکا جائے کیا رخیر کا جو سے دل ق صدکی تقیہ اا مثل بی وہا کوئی میں۔اگر آاخرت نہ ہے تا ہو میں دنیا نہ ہ ئد فا کا کارخیر کسی کے ق صد بغیر کہ رہے د یا یہ ۔مگر ہیں سکتے ہو ہر ظا بھی ) ( کما کو اپنے لوگ کہ سے ل خیا اس کوئی یا کرے تب مر میلاد محفل پر نہ پیما اعلی کیلئے جانے سمجھا اچھا میں نظر کی حق اہل یعنی سے راہہے۔ پر ت کیفیا کی دل کا ب عقا و ثواب مدار کہ ہے یہ سر کا اس گا ہو نہ ہ فائد کچھ کرے مسرت ر اظہا یں کر ل خیا اعتقاد ش خو کا درجہ لح اصلا ۔جیسے ہے تا جا ہو اچھا تو جائے کیا سے نیتی نیک کام برا ۔اور دت عبا کی ریا جیسے ہے تا جا ہو برا تو جائے کیا سے نیتی بد م کا اچھا

Page 2: عید میلاد

سا کے صدق اور ص خلو چاہیئے۔اگر سمجھنا ر قصو اپنا ںتو ہو نہ ہر ظا اگر ر آاثا کے شریف مولود کہ ض ۔غر کہنا ٹ جھو سے ل خیا کے س النا بینعلیہ اللہ صلی آانحضرت کہ ہے مسلم امر یہ نکہ کیو گا ہو یت عنا ور ضر بدلہ اسکا میں رین دا سے ف طر کی یی تعال حق تو جائے کیا مسرت اظہار تھیی تعال ائے خد سے جس اور گی ہو حبیب دی خوشنو عث با ئے جا کی شی خو قدر جس پر وجود کے محبوب ۔اور ہیں ب محبو کے یی تعال حق وسلم‘‘ ۔ ہے کمی کی چیز کس سے ہوا ش خوتو یادہے کی زندگی رہ دوبا کی السلام علیہ اللہ ذبیح الاضحی  عیدہے عید میلاد، یوم سبب کے ولادت کی وسلم علیہ اللہ صلی اللہ حبیببانی حضرت میں جواب اسکے ہیں۔ ہوتے پیدا سال ہر وسلم علیہ اللہ اکرمصلی حضور کیا ہے۔ جاتا منایا میلاد سال ہر کہ ہیں کہتے بھی یہ حضرات بعضہیں۔ فرماتے ارشاد ہوئے کرتے ذکر کا تبدیلی میں طبیعت انسانی وقت کے ہونے نشین ذہن احوال کے وقت کس علیہ اللہ رحمۃ جامعہ

و ’’ متعلق سے ذات کی حضرت جو فع منا و ائد فو سب وہ انکے اور تی ہو وقت کے یف شر دت ولا کی حضرت امت کی حضرت ۔ض بالفر اگرتو رہتے نشین ذہن سب ہیں والے نے کر ز ممتا کو آاپ میں السلام علیہم انبیاء صف جو ذاتی ئل فضا کے حضرت اور تے ہو نظر پیش سب ہیں وابستہ

خو جو سے دت ولا کی حضرت کو ئکہ ملا و ت انا حیو کہ نہیں شک بھی ذرا اسمیں ۔ تا ہو ل حا کیا انکا کے شی خو رے ما وقت اس کہ کہےئےحضرت تک دم مرتے اگرہم نہیں تھ سا انکے وہ ہے صیت خصو تھ سا کے امت جو کو حضرت نکہ کیو تی ہو دہ زیا جہ بدر سے اس تھی ئی ہو شینہ میں عالم شرف ۔یہ ہونگے ضر حا روز کے قیامت میں م عا دربار کے یی ل تعا ائے خد ساتھ کے حضرت تو رہیں کہ کرے خدا اور رہیں میں امت کیجسکا ہے، فطرت متقضائے اور ضروری ایک نا ہو شی خو کی شریف میلاد کے ت حضر کو امتیوں کہ ض ۔غر کو حیوانات نہ گا ہو صل حا کو ملائکہاس وقت ہر کہ تھا یہ یضی مقت کا اس لئے اس سکتی ہو نہیں خوشی کوئی زیادہ سے خوشی اس نکہ ۔چو سکتا کر نہیں ر انکا امتی مزاج منصف کوئیکہ لیجئے کودیکھ اسی ہے جاتی ہو عادت کی اس روزمیں چند ملے نعمت ہی کیسی کہ ہے طبیعت ئے مقتضا مگر رہتا لگا میں دل اثر کا خوشیایسی ‘ ہے۔ واجب پر ہم شکر کا والے دینے اور دیگئیں ہمیں نعمتیں ایسی کہ آاتا نہیں بھی خیال کبھی مگر ہیں نعمتیں کیسی وغیرہ بصارت سماعتکے ح اصطلا عام کیونکہ ہے۔ ودت معا کی زمانے چیز والی دلانے یاد وہ اور ہے ورت ضر کی چیز دلانیوالی یاد کسی کیلئے مسرت تجدید کی نعمت

: السلام علیہ ابراھیم حضرت میں قربانی عید دیکھئے فرمایا اعتبار اسکا بھی نے یی تعال حق اور ہے آاتا کر لوٹ مہینہ ہر میں ہرسال اور دن ہر میں ہفتہ ہر موافقعید کی نے ہو زندگی دوبارہ کی السلام علیہ یمعیل اس ت ح۔ضر اور کردیا فرض کو کرنے حکایت کی اس بلکہ رکھنے نظر پیش کو واقعات کل کےاور کے یت حکا کی واقعہ ایک اس سوائے بظاہر حقیقت کی الحجہ ذی عید اور حج کہ ہے ہوسکتا معلوم سے تامل یی گئی۔ادن دی قرار میں نوں مسلماورسل، انبیاء فخر لم، العا ابو حضرت تو ہوا حکم کا منانے عید ل سا ہر نوںکو مسلما پر زندگی دوبارہ کی السلام علیہ یمعیل اس جب نہیں۔ بھی کچھ ‘‘ ۔ ہئے چا ہونی خوشی قدر کس کو ں امتیو پر دت باسعا ولادت کی وسلم علیہ اللہ صلی خلائق مسجودتھا غم کا درجہ کمال کو شیطان میلاد ہز  رو

تھا ’’ رحمت میں حق کے عالم تمام اجلال نزول کا جن ہوئے حاضر روزمیلاد لئے کے سلام کے خلیفۃاللہ اس ملائک کے آاسمانوں تمام سے وجہ اسینزول کہ گا ہو شقی ایسا کون تو لائے تشریف میں عالم اس کر ہو مجسم رحمت آاپ جب الارحمۃللعالمین اارسلنک اما و فرماتاہے یی تعال حق کہ جیسا۔ تھا روتا زار زار سے جس تھا غم کا درجہ کمال کو شیطان مگر تھی خوشی طرف ہر روز اس میں عالم تمام کہ ہے ۔روایت ہو نہ خوش سے رحمت

غم کا شریف میلاد جسطرح کہ ۔غرض پڑا جا میں عدن کہ ماری اسکو ٹھوکر ایسی ایک اور سکے نہ رہ کر دیکھ حالت یہ اسکی السلام علیہ جبرئیلگی۔ ہو دلیل کی سعادت ہل کما مسرت اسکی ہے دلیل کی شقاوت ہل کما

ہے تا ہو نزول کا رحمتوں پر مسرت کی شریف  میلادئی ’’ بھا تمہارے کہ دی خبر تھی لونڈی اسکی جو نے ثویبہ کوجب لہب ابو کہ ہے مذکور میں وغیرہ کنزالعمال جو ہے ظاہر سے روایت ہاس کہ جیساکے لہب ۔ابو کردیا آازاد اسکو میں صلہ کے بشارت اس اور ہوئی خوشی نہایت اثرسے فرحت خبر اسکواس ہوا پیدا لڑکا گھر کے عنہ اللہ رضی اللہ عبد

خوشی اس رات کی شنبہ ہردو کہ کہا کرکے بیان حال کا نے ہو معذب اپنے اسنے تو کیا دریافت حال دیکھااور میں خواب اسکو نے کسی بعد کے مرنےہے نکلتا پانی سے انگلیوں میری اور ہے جاتی ہو تخفیف کی عذاب سے مجھ تھی ہوئی میں نے ہو ا پید کے وسلم علیہ اللہ محمدصلی جو میں صلہ کے

( ج شریف بخاری ہے تی ہو تسکین سے چوسنے ( 2جسکو یداابی تبت سورہ کامل ایک میں مذمت جسکی شقی ازلی ایسا جب دیکھئے ۔ النکاح کتابخیال تو ۔ میں دوزخ ں،عین کہا بھی وہ اور ہوا مستحق کا رحمت کی قسم خاص ایک سے وجہ کی کرنے ظاہر مسرت کی شریف میلاد ہے نازل لھبشمس حافظ کو مضمون اسی نگی ہو فرازیاں سر کیسی کیسی میں صلہ کے مسرت اظہار اس کو امتیوں کے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کہ جائے کیا

ہے۔ لکھا میں نظم نے علیہ اللہ رحمۃ دمشقی الدین ناصر بن محمدذمہ ااجاء کافر ہذا کان اذا

مخلدا الجحیم فی ہ یدا وتبتاا دائم الاثنین یوم انہ اتیحمدا با للسرور منہ یخففعمرہ کان الذی بالعبد الظن فماموحدا مات و اا ور مسر باحمد

ہیں ہوتی مقبول دعائیں گھڑی کی مبارک  ولادت’’ ہر اگر سے ظ لحا اس ہے مستمر میں شنبہ دو ہر اثر اسکا مگر ہوی روز کے دوشنبہ معین ایک شریف ولادت ہرچند کہ ا ہو معلوم بھی یہ سے روایت اس

Page 3: عید میلاد

ہوگا۔ نہ موقع بے تو جائے کیا خاص لئے کے مسرت اظہار دوشنبہکی وسلم علیہ اللہ صلی المرسلین سید کہ کرو ل خیا تو ہے تی ہو قبول جائے کی اسمیں دعاء جو کہ ہے ایسی میں جمعہ ساعت ایک سے وجہ اس

‘‘ ۔۔ یی انتہ ہوگی بات کی تعجب کونسی تو ہو قبول دعاء اگر میں ولادت  ساعتافضل سے قدر ہب ش میلاد ہب  ش

یہ ’’ دلائل انکے ہے کہا افضل کو رات کی شریف میلاد نے حضرات جن قدر۔ شب یا ہے افضل رات کی شریف میلاد کہ ہے کیا اختلاف نے علماءوح والر الملائکۃ تنزل شھر الف من خیر القدر لیلۃ ہے فرماتا یی تعال خدا کہ جیسا ہیں اترتے اسمیں ملائکہ کہ ہے سے اسوجہ فضیلت کی القدر لیلۃ کہ ہیںنہیں میں قدر شب ف۔ضیلت یہ کہ ہے ظاہر تو ہے ہوا میں عالم اس اجلال نزول کا وسلم علیہ اللہ صلی والمرسلین الملائکہ سید میں میلاد شب فیھااور۔ آاسکتی

ف۔ کو قدر شب سے وجہ جنکی ہوا ظہور کا حضرت خود میں میلاد شب اور گئی دی کو وسلم علیہ اللہ صلی حضرت قدر شب کہ ہے یہ دلیل دوسری۔ گی ہو افضل گئی کی عطاء جو کے چیز اس نسبت بہ ہو متعلق سے ذات چیز جو کہ ہے ظاہر اور ہوئی صل حا ضیلت

میلاد شب ۔اور نہیں تعلق کوئی سے اس کو اوروں ہے تعلق سے امت کی وسلم علیہ اللہ ح۔ضرتصلی صرف فضیلت کی قدر شب کہ ہے یہ وجہ تیسری‘‘ ۔ ہے یی عظم نعمت میں حق کے موجودات کل جو ہے ظہور کا للعالمین رحمۃ اسمیں کہ اسلئے ہے نعمت میں حق کے ات موجود تمام

میں ومسلم بخاری جواز کا منانے دن خاص میلادفی ہیکہ بھی یہ حربہ ایک سے میں ان ہے جاتی کی کوشش مذموم کی کرنے محروم سے میلاد برکات کو نوں مسلما واقف نا ذریعہ کے حربوں مختلفہے جاتا کیا یی دعو یہ اور ہے۔ ناجائز کرنا اہتمام خصوصی دن اس کرنااور اظہار کا خوشی دن کے الاول ربیع بارہ خاص لیکن ہے جائز تو منانا میلاد نفسہکی اعتراض اس نے الرحمۃ علیہ نظامیہ جامعہ بانی الاسلام شیخ حضرت ہے۔ خلاف کے شریف حدیث کرنا معین لیئے کے کسی کو دن کسی کہ۔ ہیں لکھتے الرحمہ علیہ آاپ ہے فرمایا واضح سے حدیث کی شریف ومسلم بخاری کو حقیقت

’’ ! کا علیہ اللہ رحمۃ عسقلانی حجر ابن الاسلام شیخ نے علیہ اللہ رحمۃ غیطی الدین نجم سنئے دلیلیں کی استحباب اور از جو کے شریف د مولو ابعلیہ اللہ صلی حضرت جب کہ ہے یہ وہ ہے ثابت سے روایت کی مسلم اور بخاری اصل کی کرنے میں روز معین شریف مولود سال ہر کہ ہے کیا نقل قولکہ ہے وہ روز یہ کہ کہا نے انہوں کی دریافت سے ان وجہ اسکی ہیں رکھاکرتے روزروزہ کے عاشورہ یہود کہ دیکھا گئے لے تشریف منورہ مدینہ وسلم

آاپصلی ہیں۔ کرتے رکھا روزہ روز کے عاشورہ میںہم یہ شکر اسکے اسلئے دی، نجات کو السلام علیہ یی موس اور کیا غرق کو فرعون نے تعالی خداے اسمیںج ) شریف علیہ،بخاری رحمۃاللہ البخاری اسماعیل محمد امام ہیں مستحق اسکے ہم زیادہ سے تم منکمیعنے یسی بمو احق نحن فرمایا نے وسلم علیہ اللہ

ص 1 الصیام کی( 268کتاب درجہ یی اعل کوئی جب کہ ہے ظاہر سے اس یا فرما حکم اسکا بھی کو بہ صحا اور رکھا روزہ روز اس بھی نے آاپ نچہ چنا ۔ اللہ صلی للعالمین رحمۃ نعمت کوئی چونکہ اور ہے مسنون کرنا میں وں نظیر کے ز رو اس شکر ادائی اسکی ہو ئی ہو صل حا میں روز معین کسی نعمت

میلاد روز وغیرہ طعام اطعام اور صدقات مثل عبادتیں کی اقسام میں شکریہ اس کہ ہے بہتر اسلئے سکتی نہیںہو افضل سے دت باسعا ولادت کی وسلم علیہنے علیہ اللہ رحمۃ حنبلی رجب ابن فظ حا پیشتر سے علیہ اللہ رحمۃ عسقلانی کہ ہے لکھا نے علیہ اللہ رحمۃ مکی حجر ابن ۔ انتہی جائے کی ادا شریف‘‘ ۔ ہے کیا لال استد پر لود مو جواز قریب یب قر اسکے بھی

دلائل کے ہونے مسنون منانا  میلادفرمایا ’’ عقیقہ اپنا نفیس بنفس د خو نے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت کہ ہے یہ کی شریف مولود اصل دوسری کہ ہے لکھا نے علیہ اللہ رحمۃ سیوطی امام

کہ ہے ثابت بھی یہ اور ۔ تھا کیا عقیقہ کا آاپ روز ساتویں نے المطلب عبد امجد جد کے وسلم علیہ اللہ صلی آاپ کہ ہے ثابت سے روایات کہ یہ وجود باکیا شکر اعادہ اگر پر نعمت کی درجہ یی اعل کہ تھا منظور نا کر معلوم سے عقیقہ اعادہ اس کو ح۔ضرت کہ ہوا معلوم سے ۔اس جاتا کیا نہیں دوبارہ عقیقہ

‘‘ ۔ انتہی ہے مستحب کرنا مسرت کھلانا کھانا میں شکر ر اظہا روز کے شریف میلاد لئے اس گا۔ ہو بہتر تو جائےمولود کہ ہے کیا نقل قول کا ری جز ابن نے علیہ اللہ رحمۃ مکی حجر بن ا فظ حا میں وسلم علیہ اللہ صلی المصطفی بمولد العالم علی یی الکبر اتمام رسالہ

ہراہل سرو اور شیطان ہم ارغا میں اس کہ ہے فی کا ہی اتنا لئے کے فضیلت کی مولود ہے۔ ماثور سے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت خود اصل کی یف شر۔ انتہی ہے ایمان

رحمۃاللہ عسقلانی الاسلام شیخ ۔ ہے تا ہو ثابت ہونا مستحب اور مسنون کا اس سے جس کہ ہے ظاہر سے تصریحات کی علماء ان کہ لیا دیکھ نے آاپ۔مگر تھی ہوئی میں عاشورہ معین ایک کامیابی کی السلام علیہ یی موس یکہ باوجود کہ کیجیئے ر غو اسمیں ہے کیا استدلال جو سے عاشورہ م صو نے علیہ

گو کہ ہے ثابت سے جس جائے کیا ادا سال ہر مکرر روز اسی شکریہ کا نعمت اس کہ ہے صل حا فضیلت کو روز اسی صرف میں ایام کے سال تمام‘‘ ۔ ہے تا ہو دہ اعا کا برکت اسکی لئے کے ابولہب میں دوشنبہ ہر کہ ہے یہ دلیل پر جس ہے تا ہو ضرور دہ اعا کا برکت اسکی مگر نہیں مکرر  واقعہ

دلاناہے توجہ طرف کی منانے میلاد مقصد کا عاشورہ  صومشریف ’’ رمضان کہ ہے یہ جواب اسکا رہی۔ نہیں باقی فضیلت اسکی اسلئے ہے ہوگیا خ منسو عاشورہ م صو کہ ہے کیا م کلا پر یہاں نے علماء بعضتھی نظر پیش کے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت جو علت کی عاشورہ صوم سے اس رہی۔ نہ فرضیت کی روزہ کسی اب بعد کے فرضیت کی روزوں کےمنکم یی بموس احق لسنا نحن کے مایا فر نہیں یہ نے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت وقت کے کرنے منسوخ اسکے کہ اسلئے یا آا نہیں، فرق کوئی اسمیںاسکا سال ۔ہر گیا ہو زمانہ ایک کر گزر واقعہ کا السلام علیہ یی موس کہ فرمایا یہ نہ اور تھا فرمایا منکم یی بموس احق نحن وقت کے رکھنے روزہ طرح جسسے ہیںجس وارد فضائل اسکے میں احادیث کے ہونے منسوخ کے روزے اس باوجود ۔پھر ہے آاتا نظر معدوم اعادہ اسمیں کیونکہ نہیں جائز رکھنا لحاظاسلئے ہوسکتے نہیں منسوخ فضائل ہیکہ ایلم اس م بات یہ اور ہے ملحوظ بھی اب وہ تھی ملحوظ فضیلت جو وقت کے فرمانے حکم کا روزے کہ ہے ثابت

Page 4: عید میلاد

بھی فضیلت کی روزہ اس کہ جائے لیا کر تسلیم اگر ۔اور پڑسکتا نہیں اثر کوئی کا نے ہو منسوخ اسکے پر لال استد کے علیہ اللہ رحمۃ الاسلام شیخکا نے ہو امتی کے ان جنکو ہوگی کو لوگوں توان ہو اگر خوشی بیحد کی نجات کی السلام علیہ یی موس کہ ۔اسلئے نہیں ہرج کوئی بھی تو گئی ہو منسوخ

خوشیوں انہی ایام تمام کے ہفتہ تو ہو لازم پر ہم خوشی کی واقعات کے قسم اس کے سابق اگرانبیائے ضرورت کیا اسکی ہمیں کو، یہود یعنے تھا یی دعونجات کی نبی ایک ہم جب کہ ہے تا ہو معلوم مقصود دلانا توجہ کو امت صرف سے روزہ اس کو وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت گے جائیں ہو صرف میں

۔ چاہئے کرنی خوشی بیحد کی ولادت ہماری تمکو تو ہیں کرتے ادا شکریہ پرتھا مقصود دینا تعلیم کی منانے میلاد روزہ، کو پیر ہر کا وسلم علیہ اللہ صلی حضور

روزہ ’’ ہمیشہ شنبہ دو روز میں شکریہ اس ہی خود بلکہ و کر رکھا روزہ لوگ تم روز کے میلاد ہمارے کہ تھا نہ ارا گو فرمانا یہ اا کوصراحت غیور طبع مگرمناسب کے غیور طبع بھی کرنا ن بیا کے استفسار بغیر کہ اسلئے پوچھا نہیں نے کسی کہ بتائی نہیں تک وقت اس وجہ کی اس ۔اور تھے کرتے رکھاشنبہ دو وسلم علیہ اللہ صلی آاپ کہ گیا کیا دریافت سے وسلم علیہ اللہ حضرتصلی جب کہ ہے ظاہر سے روایت اس کی شریف مسلم بات تھا۔یہ نہ حال ( علیہ،مسلم رحمۃاللہ الحجاج بن مسلم امام ۔ ۔انتہی ا ہو نازل آان قر پر مجھ روز اس اور روزہے کا ولادت میری وہ کہ فرمایا ہیں، تے کر رکھا ں کیو روزہ کا

ج ص 1شریف الصیام کسقدر( 328کتاب کو لوگوں ہم تو تھے تے کر رکھا روزہ کا یہ شکر میں میلاد روز ہمیشہ بدولت خود جب کہ کیجئے غور اب ۔ولادت تااپنی ہو لحاظ یہی اگر اور ہے۔ یی عظم میںنعمت حق کے ں لوگو ہم وجود کا وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کہ لئے اس ہے ضرورت کی شکریہ اسہے ظاہر سے ۔اس ہوا نہیں وارد یہ میں روایت کسی حالانکہ کرے رکھا روزہ کا یہ شکر روز کے ولادت اپنی شخص ہر کہ فرمادیتے تو تھا ضرور شکریہ کاشرح مرقاۃ جائے کیا ادا میں ہفتہ ہر شکریہ کا یی عظم نعمت اس کہ تھی مقصود امت تعلیم صرف سے اس اور تھا لحاظ کا نعمت عمومی اسمیں کہاور ہوا میں عالم اس وجود کا وسلم علیہ اللہ صلی نبی روز جس کہ ہے کیا نقل قول علیہکا رحمۃاللہ طیبی علیہنے رحمۃاللہ قاری علی ملا میں مشکوۃادا میں ہفتہ ہر شکریہ کا مبارک د میلا کہ ہے تا ہو ثابت سے اس ۔غرضکہ ہے سکتا ہو روز سا کون بہتر سے روز اس لئے کے روزہ تو ہوئی عنایت کتاب

میں زمانے تکرار کہ غرض ہے۔ قدری بے اور نصیبی بد قدر کس تو جائے کیا نہ ادا یہ شکر کا یی عظم نعمت اس بار ایک بھی میں سال اگر پھر جائے کیا ‘‘ ۔ ہے تی ہو ملحوظ ضرور میں اس فضیلت ابتدائی مگر نہیں معدوم اعادہ  گو

جواب کا الزام ایکدرود وقت پڑھتے شریف مولود ہیکہ جاتا کہا یہ پر نے کر منعقد میلاد فل محا اور نے کر خوشی اظہار پر موقع وسلمکے علیہ اللہ صلی مصطفی میلاداس ‘ ہیں قائل کے نے ہو پیدا بار بار وسلمکے علیہ اللہ صلی آاپ گویا تو ہیں مناتے میلاد سال ہر اور ہے جاتا کیا شرک کر ہو کھڑے پر موقع کے وسلام۔ ہیں فرماتے دفع اسطرح سے صحیح حدیث الرحمہ علیہ الاسلام شیخ حضرت کو الزام

اس ’’ سال ہر ئی ہو خوشی کو السلام علیہ ابراہیم حضرت سے سبب جسکے گئے بچائے سے نے ہو مذبوح جب السلام علیہ اسماعیل حضرت دیکھئےان وحرکات افعال کے قسم جس کیلئے جانے ہو نظر پیش کے واقعہ اس اور ہے تی ہو عید دن اس کہ ہو کیا کر بڑھ سے ۔اس ہے تا ہواکر اعادہ کا خوشی

نے عنہا اللہ رضی ہ ہاجر چنانچہ ہیں۔ مامور میں حج لوگ ہم کے حرکات کے قسم اسی ہوئے صادر سے عنہا اللہ رضی ہاجرہ بی بی حضرت اور حضراتمقام کے اخضرین میلین ۔ کریں کیا چکر سات میں میدان وسیع اس کہ ہے حکم بھی کو ہم تھے کئے چکر سات میں ومروہ صفا میں تلاش کی پانید مولو اگر اب ہے۔ جاتا ہو نظر پیش واقعہ اصلی وہ سے جن ہیں افعال سے بہت اور طرح اسی ہے، حکم کا دوڑنے وہاں بھی ہمیں تھیں دوڑی وہ میںبے کونسی ایسی تو ں ہو کھڑے اٹھ کیلئے رتعظیم ہواو نظر پیش کے مسلمانوں فرمائی تشریف کی وسلم علیہ اللہ صلی سلین المر سید وقت کے شریفنے ہو پیدا بار ر با کے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت لوگ یہ کہ ہیں جاتے لگائے الزام کے اقسام اور ہے تا جا کیا وطعن لعن سے جس گی ہو حرکت موقع

گویا یہ حالانکہ ۔ ہیں تے کر خیال کا نے کر ذبح بار بار کے السلام علیہ اسمعیل وقت کے نے کر ذبح کو دنبہ حجاج کیا ہیں پوچھتے ہم ہیں، قائل کے۔ ہے کی اسی حکایت

نہیں مکروہ یا شرک نا کر قیام وقت کے شریف میلادہوا پر حجر مقام گزر کا وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت جب میں تبوک غزوہ سفر کہ ہے یہ ملخص جسکا ہے روایت میں الانبیاء کتاب کی شریف بخاری۔ تھی کرتی پیا پانی کا کوئیں اونٹنی کی السلام علیہ صالح کہ فرمایا اور ئی ہو اطلاع پر حالات کے وہاں وحی بذریعہ کو وسلم علیہ اللہ صلی حضرت تو

پر اس مانا نہ نے انہوں مگر کیا منع بیحد نے السلام علیہ صالح حضرت تھی۔ تی جا پی پانی سب روز ایک وہ کہ ڈالا کر قتل سے اسیوجہ اسکو نے قومکرو۔ احتراز سے پانی کے کوئیں دوسرے ۔اور تھا خاص لئے کے اونٹنی جو اترو پر کوئیں اس لوگ تم ۔اب گئے کئے ہلاک سب روہ او ا ہو نازل عذابجو لو پانی کا کوئیں اس اور پھینکدو سب پانی ا ہو بچا اور خمیر وہ فرمایا ہے۔ لیا گوندھ آاٹا سے پانی کے کوئیں اس تو نے ہم کہ کیا عرض نے صحابہبتکلف تو آائے نہ رونا اگر ۔اور جاؤ گزر جلد سے وہاں ہوئے روتے پہونچوتو جب میں گاہ سکونت کی قوم اس کہ فرمایا ۔پھر تھا خاص لئے کے اونٹنیسے چادر نے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت تو پہونچے پر مکانات کے قوم اس جب چنانچہ جائے۔ نہو عذاب پرانکا تم کہیں کہ سے خوف ۔اس روؤجریر ) ابن نیز اور الباری فتح اور بخاری جو ہے کا روایتوں ان خلاصہ یہ گئے نکل سے وادی اس کہ یہاںتک دوڑایا کو اونٹنی اور لیا ڈھانک مبارک سر اپناگزر ( جلد سے ں وہا تھے ئے ہو ہلاک فیل ہب اصحا جہاں یر محس وادی میں حج کہ ہے ثابت سے روایتوں کی وغیرہ مسلم اسیطرح ہیں مذکور میں وغیرہ۔ ہے مسنون  جانا

بھی وسلم علیہ اللہ صلی آاپ اور فرمایا حکم کا رونے کو سب اور ہوا طاری خوف جو میں مقام اس پر وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کہ کیجئے ر غو ابحق برگزیدگان ان کہ ہے سکتا ہو خیال یہ کیا گئے نکل سے مقام اس سے جلدی نہایت ئے ہو نکے ڈھا سر سے مبارک چادر میں حالت کی تواضعہیںاورتنہا جارہے چلے کو دینے جان میں خدا راہ سے غرض کی رسول اور خدا خوشنودی صرف کہ میں حالت ایسی بھی وہ اترتا عذاب مچ سچ پراسوقتپر لوگوں ان یی تعال خدائے فیھمیعنے وانت بھم لیعذ اللہ وماکان ہے میںوارد شان جنکی تھے ہمرکاب کے وسلم علیہ اللہ صلی کریم نبی خود بلکہ نہیں بھی

Page 5: عید میلاد

بھی یمان الا ضعیف کوئی کیا گزرگئے۔ سے وہاں سے جلدی بھی خود جو تعلق کیا سے خوف اس کو حضرت پھر ہیں۔ آاپ میں جن کرتا نہیں عذابظہور کیوں اسوقت ہیں لائق کے نے ہو مرتب وقت کے وجود کے واقعہ اصلی جو یاثار تمام یہ پر نہیں۔ گز ہر ہے سکتا کر خیال ناشائستہ میں موقعہ اساندیشہ تو جائے چلا میں مقام اس باکانا بے شخص کوئی اگر کہ ہوا پیدا خیال یہ سے دیکھنے جسکے تھا رہا اتر عذاب پر قوم اس اسوقت کیا ئے آا میںکا سوال اس بچالے سے عذاب اس یی تعال خدائے تاکہ ہوئی ضرورت کی جانے ہوئے روتے سے خضوع کمال سلئے ا جائے۔ ہو عذاب مبتلائے کہ ہے

نے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت یہ ۔پھر ہوئے تب مر خوف یاثار پر جس تھا، گیا ہو نظر پیش اسوقت واقعہ اصلی صرف کہ نہیں کچھ اسکے سوائے جوابلینے پانی سے جن ہیں کونسے کوئیں کے قوم اور کونسا کواں کا اونٹنی کہ ہو معلوم کیونکر میں مقام ویران اس کہ اسلئے فرمایا نہیں بھی سے راے اپنیاصل صرف جو اسوقت کہ فرمائیے اب تھی۔ الہی تعلیم سب یہ کہ ہے ثابت سے اس ہیں، باتیں نیکی ہو معلوم سے وحی سب یہ بلکہ ہوئی ممانعت کیکئے ظاہر وتعظیم فرحت آاثار وقت کے نے ہو نظر پیش کے شریف میلاد طرح اسی کریں ظاہر خضوع و خوف کہ تھا حکم سے نے ہو نظر پیش کے واقعہ

فرمایا نے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت سے صحابہ کہ ہے نہیں صحیح حدیث یہ کیا وجہ کیا کی نے ہو مخالف کے مرضی کی رسول اور خدا تو جائیں ( ج شریف بخاری اسماعیل، محمد امام سیدکم۔ الی قوموا ص 2تھا المغازی کے( 926کتاب شریف میلاد کہ سکتا ہو نہیں ثابت گز ہر یہ کہ غرض ۔

‘‘ ۔ ہے مکروہ یا شرک وہ ہے جاتا کیا قیام جو وقتثبوت کا نے ہو جائز کے میلاد قیام سے یبیک ل ییلھم ال یبیک ل

’’ ابراہیم حضرت ہیکہ وارد میں احادیث وجہ اسکی ہے جاتا کہا لبیک یعنے تلبیہ جو میں حج کہ ہے لکھا نے علیہ اللہ رحمۃ الاسلام شیخ میں الباری فتحاسی ہے جاتا کہا لبیک جو اب ۔ دیا پکار نے انہوں چنانچہ آائیں۔ کیلئے حج کہ دو پکار میں لوگوں یعنے بالحج الناس فی واذن ا ہو حکم کو السلام علیہ

اس تو جاتا دیا جواب یہ بھی روبرو کے السلام علیہ ابراہیم ۔اگر ہے جاتا کہا سے خشوع اور خضوع کس میں احرام حالت لبیک یہ دیکھئے ہے جواب کانبی ہمارے پھر ہے رہی گونج کانوں ہمارے آاواز روہی او گئے گزر سال ہزار اسکو تھا بلایا جو نے السلام علیہ ابراہیم ۔حالانکہ نہوتی اضع تو زیادہ سےہے بات کی تعجب سی کون تو جائے میںکھینچ آانکھوں ہماری نقشہ کا خاص وقت اس اگر ہے بعد بہت اسکے تو ولادت زمانہ کا وسلم علیہ اللہ صلی

گی ہو بات بری نسی کو تو ئیں جا ہو کھڑے کر کہہ اللہ یارسول وامی ابی فداک میں معین وقت ہم جسطرح ‘اورسنت کی صحابہ پڑھنا شریف مولود

‘ کے طرح اس ہی آاتے کے الاول ربیع ماہ ؟ تھے تے ہو منعقد میلاد محافل طرح میںاس زمانہ کے صحابہ کیا تو تھا یا منا اگر تھا منایا میلاد نے صحابہ کیامیلاد ‘ اور ہیں پڑجاتے میں شک متعلق سے منانے میلاد مسلمان بھالے بھولے اوقات بسا سے جس ہیں جاتے پھیلائے سے طرح ااہر یر تقر و اا تحریر اعتراضاتوکافی شافی کا اعتراض اس نے والرضوان الرحمۃ علیہ الاسلام شیخ ۔حضرت ہیں جاتے ہو محروم سے برکتوں والی ہونے حاصل سال سارے طفیل کے منانے

ہیں۔ لکھتے حضرت ہے بچایا سے محرومی اس کو مسلمہ امت دیکر جوابوہ ’’ ہیں جاتے پڑھے میں شریف مولود روایتیں جتنی کہ لئے اس نہیں۔ تسلیم قابل بھی یہ تھا،تو نہیں میں ثلثہ ہن قرو شریف مولود کہ بات یہ رہی ابوہ ہے جاتی پڑھی میں کتاب کی مولود روایتیں جتنی کہ ہے ثابت سے جس ہیں منقول سے صحابہ اور موجود سب میں احادیث کتب بلکہ نہیں موضوع

اعتراض قابل بھی یہ مگر گئیں دی کر جمع جگہ اگر حدیثیں متعلق سے شریف میلاد کہ ہے یہ بات نئی البتہ تھے جاتے پڑھے میں زمانہ کے صحابہ سبتھا دستور کا وغیرہم صحابہ پھر تھا، کیا نہیں نے صحابہ جو ہے دیا کر علیحدہ علیحدہ کو ں حدیثو کی قسم ہر آاخر بھی نے ثین محد کہ اسلئے نہیں

پڑھی روایتیں سب وہ سے نے ہو نظر پیش واقعہ کا مبارک میلاد اسیطرح دیتے، پڑھ ہوتی حدیثیں جتنی متعلق سے اس تو ہوتا نظر پیش واقعہ ئی کو جب کہ‘‘ ۔ ہے سنت کی صحابہ پڑھنا کا شریف مولود کہ ہے ہوتا ثابت سے اس ہیں جاتی

مصلحت کی کرنے منعقد میلاد محافلسے ’’ مبارک محفل اس کہ ہے یہ جواب اسکا سو تھی۔ نہ پر ہےئت اس میں ثلثہ قرون محفل کی شریف میلاد کہ ہے یہی تو ہے اعتراض اگرمحل ابدیتے ثبوت کا محبت اپنی مناکر خوشیاں روز کے ائش پید کی نبیوں اپنے اپنے اقوام دوسرے اور یی ر نصا و یہود کہ ہے یہ وہ ہے متعلق مصلحت بڑی ایکنماز کہ یہاںتک ہے گئی اہو پید باکی بے میں ں طبیعتو کی مسلمانوں سے وسلم علیہ اللہ صلی نبوی زمانہ ابعد کہ کیا خیال یہ نے علماء اندیش دور ہیں۔جو داب و رعب وہ ر او ہے گئی رہ نام برائے مسلمانی اب کہ لگا نے ہو ا پید خیال یہ میں اقوام دوسرے سے جس لگے نے کر قصور لوگ بھی میں روزہ

ترقی انکا خیال یہی ۔اگر لگا جانے ہیں مستعد کو دینے جان پر حکم کے وسلم علیہ اللہ صلی نبی اپنے لوگ یہ کہ تھا میں دل انکے کا مسلمانوں جانبازہو میں تلف معرض اور جائنگے دیکھے وہ سے ں نگاہو کی وقعتی بے بالکل میں روز توچند رہے نہ باقی اسلامی جوش کوئی میں مسلمانوں اور ا ہو پذیر

اا عموم میں وعظ لس مجا چنانچہ جائے۔ کردیا پیدا میں دلوں انکے جوش کا محبت کی وسلم علیہ اللہ صلی نبی اپنے کہ نکالی بیر تد یہ اسلئے جائینگے۔فضا اور اورمعجزات حکایات اور فضائل کے اللہ اولیاء اور صحابہ اور مسئلہ کا شفاعت اا مثل ں ہو محبت ازدیاد باعث جو لگے نے کر بیان مضامین ایسے‘‘ ۔ ہو محبت ترقی باعث اور نشین ذہن عظمت کی وسلم علیہ اللہ صلی نبی اپنے سے سننے جنکے لگے نے کر بیان زیادہ وسلم علیہ اللہ صلی نبی ئل

سکتی ہو نہیں گز ہر کو مخالفین خوشی کی  ولادتخوشی ’’ کی پیدائش کی وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کو مخالفین کیونکہ جائے ہو امتیاز کا مخالفین اور موافقین سے اس بنیادڈالی کی میلاد محفل پھرامیر ہر ہواکہ یہ اثر اسکا کہ غرض اتھا۔ ہو پر شیطان روز کے میلاد خاص طرح جس تاہے۔ ہو پر دلوں انکے مہ صد سخت اسکا بلکہ سکتی ہو نہیں ہرگز

صلی آاپ اور گو دعا سچے کے وسلم علیہ اللہ صلی نبی اپنے ہم کہ ہے دیتا ثبوت عملی اسکا کرکے صرف روپیہ میں مبارک محفل اس حیثیت بقدر وفقیرصلی نبی اپنے بھی میں حالت بگڑی اس مسلمان کہ گیا ہو ثابت یہ پر مخالفین سے جس ہیں۔ میں ں نیوالو ہو خوش سے باجود وجود کے وسلم علیہ اللہ

مخالفوں جوش یہی بلکہ نہیں بات معمولی کوئی اسلامی محبت جوش کہ ہیں جانتے خوب زمانہ شناسان نبض ہیں۔ دادہ دل اور شیفتہ کے وسلم علیہ اللہسے دینیہ احکام نہ انکو کہ گی دے گواہی حالت کی مسلمانوں اکثر تو رہے جاتا بھی محبت جوش یہ اگر ہے۔ والا نے کر علیحدہ ر او ممتاز انکو سے

Page 6: عید میلاد

کے استحباب اور فضیلت نظر قطع غرض گا۔ پڑے اثر برا کیسا کا تعلقی بے اس کہ ہے ظاہر اور محبت۔ سے وسلم علیہ اللہ صلی نبی اپنے نہ ہے تعلق ‘‘ ۔ ہے مطلوب محمود میں ودنیا دین جو گئی رکھی ملحوظ مصلحت ایسی ایک میں شریف مولود

کون؟ شناس ر ناقد کر بڑھ سے اس تو دے نہ قرار عید کو روز کے رحمت ہل نزوف۔ضل ’’ مگر رکھتا، نہیں دوست تعالی حق کو والوں فرحت الفرحینیعنے یحب لا اللہ ان فرماتاہے تعالی حق یکہ د باوجو کہ سنئے حال کا سرور اظہارکے اللہ صرف کہ کہدو سے لوگوں فلیفرحوایعنے فبذلک وبرحمتہ ییلہ ال بفضل قل ہے میں شریف آان قر کہ جیسا ہے حکم کا کرنے فرحت پر یلہی ا رحمت اور ‘‘ ۔ کریں کیا خوشی کی رحمت اور فضل

اللہ صلی آانحضرت کہ کیجئے غور اب ۔ کرے خوشی کی رحمت اور فضل کے یی۔ تعال اللہ صرف تو کرے خوشی کوئی اگر کہ ہوا یہ کا آایتوں ان مطلبرحمت اور فضل تن ہمہ آاپ کہ ہو کیا کر بڑھ سے اس ۔ ہے الہی رحمت اور بڑافضل کیا بخشا عزت کو عالم اس سے لزوم میمنت قدوم کے وسلم علیہ

یی تعال حق کہ ہے کیا استدلال یہ نے وجیہ ابن پر جس ہے۔ بھی اللہ فضل نام کا وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت کہ ہے لکھا میں السویۃ النہجۃ چنانچہ ہیں،۔ تے کر وی پیر کی شیطان تم تو تی نہو پر تم رحمت راسکی او فضل کا اللہ اگر یعنے اا قلیل الا الشیطان تبعتم لا ورحمتہ علیکم اللہ لافضل ولو ہے تا فرما

ہیں۔ بھی یہ اسماء کے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کہ ہے کیا ذکر میں اسی ۔اور انتہی ہیں وسلم علیہ اللہ صلی محمد اللہ فضل کہ ہے ظاہر سے اسقول کا عنہما اللہ رضی عباس ابن کے کر ذکر للعالمینکو رحمۃ الا ارسلنک وما شریفہ آایئہ ور ا مہداۃ رحمۃ رحمۃللعالمین۔ الرحمۃ۔ الامۃ۔نبی رحمۃ رحمۃ۔نقل سے حاکم اور طبرانی حدیث یہ اور تھے رحمت بھی میں حق کے کفار بلکہ تھے رحمت میں حق کے مسلمانوں صرف نہ حضرت کہ ہے کیا نقل

( ج الدارمی سنن ہے گئی بھیجی ہدیہ لئے تمہارے جو ہوں رحمت کی اللہ میں یعنے مھداۃ رحمۃ انا وسلم علیہ اللہ صلی اللہ رسول ل قا ہے کتاب 1کی ) کہ ہو کون رشناس ناقد زیادہ سے ہم تو دیں قرار نہ عید ہم کو روز کے نزول کے رحمت اور فضل تن ہمہ ایسے کہ کہئے ۔اب وسلم علیہ اللہ صلی النبیسے فلیفرحوا فبذلک صوفہ مو آایۃ جو ہے فرض ہمارا کرنا خوشی پر یلہی ا رحمت اور فضل حالانکہ کی نہ قدر کچہ ہمنے بھی کی ہدیہ کے یی تعال خدائے۔ ہے  ظاہر

وقت  تعینمعین کو دن کسی کیلئے یاد کی واقعہ ہوئے گذرے ایک لحذا لھذا ہوئی پہلے سال سو چودہ تو مبارک ولادت وسلمکی علیہ اللہ صلی اللہ رسول حضرتسنت و کتاب نے الرحمہ علیہ الاسلام شیخ حضرت کا اعتراض اس ہے؟ سکتا ہو درست کیسے منانا خوشی کر سمجھ دن کا عید کو دن اس اور کرنا

ہیں فرماتے ہے۔ دیا جواب سے گی عمد ہی بڑی میں روشنی  کیظاہر ’’ بھی سے روایت اس اور فرمائے بیان فضائل اسکے اور رکھا بھی خود عاشورہ صوم نے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت اکہ ہو معلوم ابھی حال اسکاآایت ایک میں شریف آان قر یعنی کتاب آاپکی کہ کہا سے عنہ اللہ عمررضی حضرت نے یہودی کسی کہ ہے میں الایمان کتاب کی شریف بخاری جو ہےواتممت دینکم لکم اکملت الیوم کہا ہے آایت کونسی فرمایا نے آاپ مناتے عید کو دن کے نزول اسکے لوگ ہم تو تی ہو میں کتاب ہماری وہ اگر کہ ہےکیا تمام پر تم کو نعمت اپنی اور کیا کامل کو دین تمہارے نے میں روز کے آاج کہ ہے یہ جمہ تر جسکا دینا سلام الا لکم ورضیت نعمتی علیکماللہ صلی حضرت کہ ہوئی نازل روز کس اور پر مقام کس آایت وہ کہ ہے معلوم ہمیں کہ فرمایا نے عنہ اللہ رضی ۔عمر ہوا راضی سے اسلام دین اورتمہارے

‘‘ ۔انتہی تھا دن کا جمعہ اور روز کے حج یعنے تھے کھڑے پر ت عرفا وسلم علیہکی آایت اس کہ تھا یہ تو تھا سوال کا یہودی کہ تاہے ہو شبہ یہ یہاں کہ ہے لکھا نے علیہ اللہ رحمۃ عسقلانی الاسلام شیخ میں شریف بخاری شرححالانکہ نہیں تعلق کوئی سے سوال جسکو گیا کیا بیان نزول وقت اور مقام میں جواب اور جاتا بنایا عید روز کا نزول اسکے ہے مقتضی شان جلالتترمذی اور ہیں عید روز یہاں ہمارے روز دونوں وہ کہ دیا جواب اۃ اشار نے عنہ اللہ رضی عمر کہ ہے یہ جواب ۔اسکا چاہئے مطابقت کی سوال میں جواب

ہیں عید روز دونوں وہ یہاں ہمارے اللہ بحمد کہ ہے موجود بتصریح یہ میں روایتوں کی وغیرہ طبرانی اورعید کہ لئے اس ہے اکرتی ہو خوشی ہمیشہ میں جس جاتا دیا قرار عید کہ تھا قابل اس دن کا یمی عظ نعمت اس کہ تھا مقصود کا یہودی کہ یہ حاصلاسکو نے عنہ اللہ رضی عمر گیا۔ رکھا عید نام اسکا لئے اس اکرتاہے ہو مکرر عید روز چونکہ ہیں۔ کے نے ہو مکرر معنے جسکے ہے ماخوذ سے عودکی لوگوں تم یہ کہ کہدیتے صاف ورنہ ہے مقرر اللہ منجانب عید دوہری کی نعمت اس یہاں ہمارے کہ کہا میں جواب اسکے چنانچہ لیا کر تسلیمہو کرتے منایا خوشیاں سال ہر پر واقعہ شتہ گز ایک کہ ہے  - حماقتہے ااعیاد ال اد عی میلاد  عید

’’ کہ بتائے تو جائے کی عید اور خوشی سمیں ا ہمیشہ کہ ہے قابل اس دن کا حصول کے یم۔ی عظ نعمت کسی کہ ہے یلم مس یہ جب کہ کیجئے غور ابنہ خوشی روز اس اگر پھر ہے۔ سکتی ہو نعمت نسی کو بڑھکر سے اجلال نزول اور آاوری تشریف کی وسلم علیہ اللہ صلی حضرت نزدیک کے مسلمانوںسید اجلال ۔تونزول ہے عید دوہری روز کے نزول کے شریفہ آایۃ اس ۔اگر گی جائے کی خوشی سے طریقہ ایمانی میں جس آائیگا دن کونسا تو جائے کی‘‘ ۔ چاہئے نی ہو عید اور خوشی زیادہ چند دہ سے اس روز کے مبارک میلاد یعنے روز کے وسلم علیہ اللہ صلی المرسلینہے مسنون جلانا اعود اخور ب میں مقامات  متبرک

’’ عمر کہ ہے لکھا اور کرو۔ دیا بخور روز کے جمعہ کو مسجدوں کہ فرمایا وسلمنے علیہ اللہ صلی نبی کہ ہے مذکور روایت کی ماجہ ابن میں خلاصۃالوفانبوی مسجد میں رمضان اور جمعہ ہر جلاکر بخور اسمیں کہ کیا حوالہ کے عنہ اللہ رضی سعد نے آاپ کو اس آایا ان بخورد ایک پاس کے عنہ اللہ رضیکومعطر سب اور لیجائیں پاس کے شخص ہر جلاکر بخور دن کے جمعہ کہ تھا مامور پر کام اسی شخص ایک اور کریں دیا بخور وسلمکو علیہ اللہ صلی

ہے مسنون نا کر معطر کو جلسہ اہل سے خوشبو کی بخور میں متبرک اوقات اور اماکن کہ ۔غرض ‘‘کریںہیں ہوتے مرتب آاثار بھی پر تخیل کے واقعہ  اصل

Page 7: عید میلاد

کو کرنے پیش سلام ہوکر کھڑے اور شریف مولود میں خوشی کی ولادت وسلمکی علیہ اللہ صلی آاپ اور واحترام ادب کے والسلام ۃ الصلو علیہ حضورسرہ قدس چشتی فاروقی اللہ انوار محمد فظ حا الاسلام شیخ حضرت متعلق کے باطل زعم اس کے معترضین ہیں۔ تے جا دئیے نام وغیرہ شرک بدعت

ہیں  -لکھتے’’ کے واقعہ اصل پر تخیل کہ ہے ثابت سے بالا مذکورئہ یث ۔احاد نہوگا موقع بے تو جائے لکھا بھی یہاں اۃ تکمل لیکن ہے چکا جا لکھا اوپر حال کا اسجب نے عنہ اللہ رضی عمر اکہ ہو معلوم ابھی کہ جیسا ہیں، د موجو نظائر اسکے بھی میں ۔شریعت ہے طبعی امر کہ سکے ا نظر قطع نا ہو مرتب ثار آااور ابراہیم اور کیا۔ وخشیت خوف اظہار میں تبوک مقام نے وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت ہوگئے۔اور بیخود روتے روتے تو پڑھی عیناہ وابیضت شریفہ آایتوسلمنے علیہ اللہ صلی آانحضرت روز کے نجات کی السلام علیہ یی موس ۔اور ہوا مقرر عید روز لئے کے ہمیشہ دن کا خوشی کی السلام علیہما اسمعیل

وسلم علیہ اللہ صلی حضرت شنبہ دو ر۔وز یعنی روز کے باسعادت ولادت اپنی ۔اور فرمائے بیان فضائل کے اس لئے کے امت ترغیب اور رکھا روزہ کا شکریہمرتب پر تخیل کی قسم خاص کی ان آاثار کے واقعات خاص خاص تاہے۔ ملاکر کو پینے پانی میں دوزخ کو ابولہب ۔اور تھے کرتے رکھا روزہ ہمیشہمذموم ااوہ شرع نہ ہوتو پیدا فرحت میں دل کے پرمسلمانوں تخیل کے باسعادت ولادت کی وسلم علیہ اللہ صلی آانحضرت اگر میں صورت ۔اس ہیں ہواکرتے

کہ ہیں وارد میں باب اس حدیثیں جتنی پر بناء ۔اس نہیں درست کرنا مرتب پر تخیل ہیں تے ہو مرتب ثار آا پر واقعہ اصلی جو کہ گا ہو درست کہنا یہ نہ ہےکو ان تو ہیں سنتے حالات کے شریف میلاد مسلمان جب کیونکہ مدعاہوگئیں مفید ہمارے سب ہے مسنون بلکہ درست جانا ہو کھڑے وقت کے فرحتابدی ومسرت ابدی فرحت اور نجات لئے انکے نا ہو فرما تشریف میں عالم اس کا وسلم علیہ اللہ صلی حضرت کہ سے سوجہ ا ہے تی ہو خوشی بیحدکی درجہ کم جب پھر نہیں، گز ہر نعمت کوئی زیادہ سے ابدی ومسرت نجات کہ ہے سکتا کہہ یہ سے راہ کی ایمان مسلمان کوئی کیا ، ہوا کاباعث

وقت کے فرحت سے جن سنئے کو روایتوں ان ۔اب گی ہو ضرورت قدر کس کی قیام میں فرحت کی درجہ اعلی اس ہوتو مسنون اور جائز قیام میں فرحتوں۔ ‘‘ ہے ثابت ہونا مسنون کے قیام

کرکے مسلمان انہیں نے بی بی انکی تھے گئے بھاگ طرف کی یمن عکرمہ روز کے مکہ فتح کہ ہے لکھا نے علیہ اللہ رحمۃ الاسلام شیخ میں الباری فتحذکر بھی روایتیں اور کی قسم اسی گئے ہو کھڑے سے خوشی ل کما ہی دیکھتے انکو تو کیا حاضر میں خدمت وسلمکی علیہ اللہ صلی آانحضرت جبکرنا قیام کر دیکھ عنہاکو اللہ رضی طمہ فا حضرت اور وقت کے قدوم کے عنہما اللہ رضی حارثہ بن رزید او السلام علیہ جعفر ح۔ضرت جنہیں کیں۔ ہے مذکور وسلمکا علیہ اللہ صلی آانحضرت

یعنی یی ال الناس احب من انتم للھم ا فقال اا ممتن فقام عرس من مقبلین اا ن صبیا و ا� نسا وسلم علیہ اللہ صلی النبی ابصر ہے روایت یہ میں شریف بخاریتم ہے جانتا خدا فرمایا اور گئے ہو کھڑے اا فور ہیں آارہے چلے سے نکاح کے کسی کہ دیکھا کو لڑکوں اور عورتوں چند وسلمنے علیہ اللہ صلی آانحضرت

( ج شریف ،بخاری اسماعیل محمد امام ہو۔ محبوب میرے زیادہ سے سب ص 2لوگ النکاح شرح( 778کتاب کی ممتنا قام نے اللہ رحمہ الاسلام شیخ ۔ کہ ہے ظاہر سے روایت اس گئے ہو کھڑے سے جلدی نہایت سے وجہ کی فرحت کمال یعنے بھم فرحا ذلک فی ا مشتد اا مسرع اللھم قام کہ لکھاہے میںبھی یہ سے اس تھا۔ فرحت اظہار صرف سے اس مقصود بلکہ نہیں درست معانقہ سے لڑکوں اور عورتوں کہ اسلئے تھا نہیں لئے کے وغیرہ معانقہ قیام یہاب تو تھی۔ کرتی ہوا ہی فرحت اظہار بھی وجہ اسکی تھے تے کر فرمایا وسلمقیام علیہ اللہ صلی آانحضرت جو وقت کے احباب قدوم کہ گیا ہو ثابتجو جائے ہو نظر پیش فرمانا تشریف میں عالم اس وسلمکا علیہ اللہ صلی کونین سردار میں اس اور سنیں شریف میلاد وقت جس کہ چاہئے کو مسلمانوںالعبادات فی شبہ اور اوربدعت کریں جایا ہو کھڑے سے خوشی بناکر مقتدا اور پیشوا اپنا کو احادیث ان اسوقت تو ہے باعث کا فرحت کی درجہ اعلیضرور تو مستحب یا مسنون یی فراد وہ کہ لیا دیکھ نے آاپ اور ہیں ذاتیات کے میلاد محفل گویا امور یہی کریں دیا کر دفع سے روایات ان کو شبہات وغیرہ۔‘‘ ہیںہے واقع میں الاول ربیع میلادبارہ  عیدہو ’ مشکوک میں ذہنوں عظمت کی بارہویں کہ ہیں دیتے زور سے مقصد پراس اس اور ہیں تے کر بات کی ہونے دن کے الاول ربیع نو میلاد عید لوگ بعض

ولادت وسلمکی علیہ اللہ صلی حضور کہ ہیں متفق پر بات اس علماء جمہور کہ پڑجائیںجب سرد ہے وابستہ جذبات جو سے الاول ربیع بارہ اور جائےاللہ صلی النبی میلاد یوم کو دن کے شنبہ دو شریف بارہویں بھی نے والرضوان الرحمۃ علیہ الاسلام شیخ حضرت ہوئی، دن کے ہی الاول ربیع بارہ باسعادت

ہیں۔ لکھتے الرحمہ علیہ آاپ ہے۔ ملتا ثبوت کا بات اس سے یرات تحر کی آاپ چنانچہ ہے دیا وسلمقرار علیہعلیہ ’’ اللہ صلی آانحضرت کہ ہے کی نقل روایت سے عنہما تعالی اللہ رضی عباس ابن میں شریف مولود رسالہ نے علیہ اللہ رحمۃ غیطی الدین نجم شیخکے حضرت ئے ہو واقع دن کے شنبہ دو امور سب یہ شریف وفات اور ہونا داخل میں شریف مدینہ اور ہجرت اور نبوت ابتداے اور ولادت کی وسلمکے جمعہ سب وفات اور نا ہو قبول بہ تو ۔ اترنا پر زمین ائش، پید انکی کہ تھا جمعہ میں حق کے السلام علیہ آادم جیسے ہے روز ایسا یہ میں معاملاتعلیہ اللہ صلی سلین المر سید کہ کرو ل خیا تو ہے تی ہو قبول جائے کی اسمیں دعاء جو کہ ہے ایسی میں جمعہ ساعت ایک سے وجہ اس ہوے۔ دن‘‘ ۔ گی ہو بات کی تعجب نسی کو تو ہو قبول دعاء اگر میں ولادت ساعت وسلمکی

بارہویں ) شریف دوازدہم جب کہ کیجئے غور اب تھی گئی ہو جان وبال زندگی پر ان کہ تھی حالت یہ کی صحابہ کل سے جانکاہ حادثہ اس کہ غرضمیں( حالت ایسی ۔کیا گی ہو تی ہو حالت کیا انکی تو گا ہو آاتا پر فراق آاتش ختگان سو اور وسلم علیہ اللہ صلی نبوی جمال شیفتگان ان روز کا شریفاب کہ دیکھا نے متاخرین رہی حالت کی قسم اااسی تقریب کی مسلمانوں تک مدت ایک نہیں۔ گز ہر ہے سکتی پا راہ میں دل خوشی کی قسم کسیصرف تو معنے کے ت وفا کی وسلم علیہ اللہ صلی حضرت ور ا ہو وفات غم مقتضی جو نہیں ہی رہا تو محبت جوش وہ اا عموم پر دلوں کے مسلمانوںکے کر لعدم کا تھا عارضی جو کو غم اس اسلئے شک کیا میں زندگی کی حضرت ورنہ گئے لے تشریف کو عالم دوسرے سے عالم اس کہ ہیں اسیقدراپنی بالاتفاق اسلام اہل کل میں جس دیا قرار عید روز خالص کو روز راس رکھااو نظر پیش ہے باقی تک قیامت اثر جسکا کو رخوشی او مسرت اصلی

Page 8: عید میلاد

اجماعی صورت اور لیا بھی مان نے اسلام اہل کل یبا تقر کو علماء داد قرار اس چنانچہ دیں ثبوت کا محبت اپنی کے کر ظاہر شیاں جو رگرم او محبتگئی۔ ہو منعقدجواب اسکا اور الزام کا نے ہو بدعت میلاد  عید

’’ قاعدے چند نے وجہہ اللہ کرم علی حضرت گو میں، زمانہ کے صحابہ نہ تھا میں زمانہ کے وسلم علیہ اللہ صلی حضرت یہ علم کا ونحو صرف دیکھئےچونکہ مگر ہے۔ سکتی ہو قائم دلیل شرعی ئی کو پر نے ہو قول اصل کی قال نہ اور ئی ہو میں مدت ایک اسکے تدوین مگر ڈالی بنیاد اسکی کر فرما بیان

کو علوم ان سے دین ہمارے اگر دیگئی، قرار واجب تعلیم انکی مگر ہیں بدعت وہ گو اسلئے ہے متعلق سے علوم ان سمجھانا سمجھنا کا حدیث و آان قرلغیرہ وجوب جسکو ہے تا آاجا ب وجو کبھی سے لحاظ کے صحیحہ اغراض کہ ہے ظاہر سے اس جاتا دیا فتوی۔ ضرور پر حرمت کی ان تو نہوتا تعلقجہات اور مصالح اغراض کہ ہیں جانتے علماء کہ غرض عجب، کیا تو آاجائے استحباب کے نے ہو بدعت وجود با میں شریف مولود اگر ۔پھر ہیں کہتے

ہیں جاتے بدل احکام سے بدلنے  ‘‘کےنظامیہ فتاوی

المرفوع الکلام

احمدی انوار