115
1 ا تھا۔وہ بے چین جا رہل کر باہرے گھر سے نکے کوئی شخص سوہنی ک کو لگا جیسندیٹھی ن صحن میں بی طرف چل دی۔ٹھائے سوہنی کے گھر کیٹھی اور لا ہو گئی ا اواز سے۔ پھر اونچی آ سے کہاستہ اہی نے مسکراتے ہوئے آھ کر سوہنو دیکندی ک دور سے ن ہے غلیظ" ا رہیؤں چھوتی ہوں۔ امبوا" "تیرے پا بولی،جنے مان ہ برتن دوبارہ کر سے بیٹھنے کا کہندیس رکھی اور نپنے پا کر اڑھی لاک پی نے ای چھوڑ کر سوہنی برتن شروع کیے۔ہی۔پھر استی رں دیسے دعائیندی ا پر بیٹھتے ہوئے نڑھی جئیں" پیرے بھائی بچے جئیں، تی سہاگن تیرے "سدایا ہے؟ " اہمان آ اج کوئی متہ سے پوچھا" آ اہسنی کے پاس منہ لے جا کر آ کھ کر سوہ ف ر ایک طر نے لاٹھی کا بیٹا ہے، کھانیو"ری بواز میں کہا۔"می اوای نے اونچی آ "ہاں ۔۔۔۔"سوہنیا ہے ناں؟" ار سے ہی آ "خیموش ہو گئی۔ اس کیندی خا ہو گئی ہے" ن خیر سے جوان لڑکیا ہے۔ بڑی ایا دیکھنے آ "ہاں گھدے کا لڑکدھم پڑ گئیں۔وں کی طرح م بجھتے ستار پھر چمکیں اورھیں لمحے بھر کو انک چھوٹی چھوٹی آ لوگوں کے۔"تم نے خیر سے دو دو رہی ہوے سوہنی کی منت کر جیسوں بولی یندییر بعد ن تھوڑی دٹی" "بیتی" کچھ سنوار دیور کا بھیں۔ اپنے دی گھر بسائے ہیھونگھٹے کے بہانے گچھنہ پونے پسیننے کے لیے اس نندی سے چھپا ن لیکن ا گئیار ہنسی آ کوبے اختی سوہنیحاطے کی کسی عورتدی نے ان ائی تھی۔ ن" سن کر آ اسے لفظ "دیور ہنسیا۔زیادہ کھینچ کر منہ صاف کر لیس کا تھیں کہ اں جانتیا سب عورتی بیاہت پرانی نئی اورہا تھا لیکنے جگسیر کو "تیرا جیٹھ" نہیں کس اپن کے پا عمر تھا۔سروں کا ہمیر کئیوں کے س جگسیں ہوتا۔ی نہ کوئی چندر راضی ہی بہن بھائی کا گھر بس جائے پروں کہ اپنے کسش کرتی ہو بہت کوش "میں توئے کہا۔ جواب دیتے ہیای نے گھڑا گھڑا "سوہن

MARI KA DIYA URDU NOVEL

Embed Size (px)

Citation preview

1

صحن میں بیٹھی نندی کو لگا جیسے کوئی شخص سوہنی کے گھر سے نکل کر باہر جا رہا تھا۔وہ بے چین

ہو گئی اور لاٹھی اٹھائے سوہنی کے گھر کی طرف چل دی۔

آاواز سے آاہستہ سے کہا۔ پھر اونچی آا رہی ہے غلیظ" دور سے نندی کو دیکھ کر سوہنی نے مسکراتے ہوئے "

بولی، "تیرے پاؤں چھوتی ہوں۔ امبوا"

برتن چھوڑ کر سوہنی نے ایک پیڑھی لا کر اپنے پاس رکھی اور نندی سے بیٹھنے کا کہہ کر دوبارہ برتن مانجنے

شروع کیے۔

"سدا سہاگن تیرے بچے جئیں، تیرے بھائی جئیں" پیڑھی پر بیٹھتے ہوئے نندی اسے دعائیں دیتی رہی۔پھر اس

آایا ہے؟ " آاج کوئی مہمان آاہستہ سے پوچھا" نے لاٹھی ایک طرف رکھ کر سوہنی کے پاس منہ لے جا کر

آاواز میں کہا۔"میری بوا کا بیٹا ہے، کھانیو" "ہاں ۔۔۔۔"سوہنی نے اونچی

آایا ہے ناں؟" "خیر سے ہی

آایا ہے۔ بڑی لڑکی خیر سے جوان ہو گئی ہے" نندی خاموش ہو گئی۔ اس کی "ہاں گھدے کا لڑکا دیکھنے

آانکھیں لمحے بھر کو چمکیں اور پھر بجھتے ستاروں کی طرح مدھم پڑ گئیں۔ چھوٹی چھوٹی

"بیٹی" تھوڑی دیر بعد نندی یوں بولی جیسے سوہنی کی منت کر رہی ہو۔"تم نے خیر سے دو دو لوگوں کے

گھر بسائے ہیں۔ اپنے دیور کا بھی کچھ سنوار دیتی"

آا گئی لیکن نندی سے چھپانے کے لیے اس نے پسینہ پونچھنے کے بہانے گھونگھٹ سوہنی کوبے اختیار ہنسی

آائی تھی۔ نندی نے احاطے کی کسی عورت کھینچ کر منہ صاف کر لیا۔زیادہ ہنسی اسے لفظ "دیور" سن کر

کے پاس اپنے جگسیر کو "تیرا جیٹھ" نہیں کہا تھا لیکن نئی اور پرانی بیاہتا سب عورتیں جانتی تھیں کہ اس کا

جگسیر کئیوں کے سسروں کا ہم عمر تھا۔

"میں تو بہت کوشش کرتی ہوں کہ اپنے کسی بہن بھائی کا گھر بس جائے پر کوئی چندر راضی ہی نہیں ہوتا۔

"سوہنی نے گھڑا گھڑایا جواب دیتے ہوئے کہا۔

2

"جس کسی سے بات کرو وہ عم__ر ک__ا اع__تراض اٹھ__ا دیت__ا ہے۔ نہیں معل__وم ل__وگ کیس__ے چھ__وٹی عم__ر کے ل__ڑکے

ڈھونڈتے ہیں۔ وہ کیا نوے کا ہو گیا ہے؟ وہ کیا کاتک کی بیماری کے وقت کا پیدائشی ہے؟ جو ستر بہ__تر کی

عمر میں شادیاں کرتے ہیں کیا وہ زیادہ خوبصورت ہوتےہیں؟نندی نے کہا

"یہ تو رشتہ کرنے والے جانیں۔ اپنا کیا اختیار ہے امبو!" سوہنی نے جواب دیا۔

آائی اور پھ__ر آانکھ__وں میں لحظہ بھ__ر چم__ک نندی پھر خاموش ہو گ__ئی۔ پہلے کی ط__رح اس کی چھ__وٹی چھ__وٹی

دھندلا گئیں۔

سوہنی دھلے ہوئے برتن اکٹھے کر کے دال پکانے کے لیے اپلے توڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ نندی کے

پاس جا بیٹھی تو دن ڈھلے تک اس کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔ جب س__ے نن__دی بی_وہ ہ__وئی تھی اس کی ح__الت

قابل رحم ہو گئی تھی ۔ جس کسی کے پاس بیٹھتی، اپنی ہی باتیں چھ__یڑ دی__تی۔ اح__اطے کی تم__ام ع__ورتیں اس

س__ے اکت__ائی ہ__وئی لگ__تی تھیں۔ س__اتھ ہی اونچ__ا س__ننے کی وجہ س__ے وہ اس س__ے پیچھ__ا چھ__ڑاتیں۔ اگ__رچہ نن__دی

دوسروں کے اس وطیرے کو سمجھنے لگ گئی تھی تاہم اس سے گھر میں ٹ_ک ک_ر بیٹھ_ا نہیں جات_ا تھ_ا۔ س_ارا

دن سونے گھر میں بیٹھنے سے اسے وحشت ہوتی۔ تھک ہ__ار ک__ر وہ منہ اٹھ__ا ک_ر چ__ل پ__ڑتی لیکن پھ__ر لوگ__وں کی

چبھتی باتیں اور مسخریاں سن کر اس کا دل خراب ہوت__ا۔ گھ__ڑی جھٹ بیٹھ ک__ر اپ__نے قبرس__تان جیس__ے گھ__ر ک__و

آاتی۔ اب بھی وہ سوہنی کا رخ دیکھ کر کچھ دیر بیٹھ کر خود ہی اٹھ کھڑی ہ__وئی اور لاٹھی کے س__ہارے لوٹ

چلتے اس نے لمبا سانس لی_ا۔"رام ت_و ہی"۔ جب وہ س_وہنی کی دہل__یز پ_ا ر ک_رنے لگی ت_و اس_ے لگ_ا کہ ک_ئی ب_ار

پہلے سنے وہ الفاظ جب اس کی سماعت ٹھیک تھی، سوہنی نے دہرائے۔

"یہاں سے رشتہ ڈھونڈھتی ہے تو ڈولی کے لیے جانور بھی تگڑا لانا پڑے گا۔"

نندی کی نظر او ر دھندلا گئی۔ اس کی کبڑی پیٹھ میں درد ہونے لگا۔ بائیں ہاتھ سے دی__وار اور دائیں ہ__اتھ س__ے

آاہس_تہ چل__نے لگی اور گھ_ر پہنچ ک_ر چ__ار پ_ائی پ__ر آاہستہ آاپ کو سنبھالتے ہوئے وہ لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے

اس طرح گر پڑی جیسے اس میں سے جان نکل گئی ہو۔

3

"ہے۔را۔م" اس نے ایک اور ٹھنڈی سانس لی اور خود بخود ی__وں بول__نے لگی جیس__ے کس__ی کے س__اتھ ب__اتیں ک__ر

رہی ہو

"جاؤ۔۔)کلیجہ ( کھانیو۔ ک_وئی دھن دولت ت_و نہیں م__انگی ۔ کس_ی ان__دھی ک_انی ک_ا ڈھ_وا س_اتھ ہی بن جات_ا۔

آای__ا نہ کس__ی دی__وی دیوت__ا نے بیس برس ہو گئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کتنی مشقتیں اٹھائیں نہ کوئی ٹونہ ک__ام

مدد کی۔ نہ کسی پیر فقیر نے سنی۔ نہ ج_انے کی_ا قص_ور ہ__وا؟ ب_ارہ ب__رس کے بع__د ت__و ک_وڑے کے ڈھ__یر کی بھی

سنی جاتی ہے ۔ پھر ہماری تو کسی نے بیس برسوں میں بھی نہ سنی۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ بیاہے گ__ئے پ__ر م__یرا

ایک نہیں۔ اندھیرہے اوپر والے۔ اندھیر!"

کتنی منتوں کے بعد چار برس بعد اسے ایک بیٹا ملا تھا۔ یہ جان کر کہ وہ جگ میں حصہ دار ہ__و گ__ئی اس نے

اس کا نام جگسیر رکھا۔ کتنی چاہتوں اور مشکلوں س__ے اس نے بی__ٹے ک__و پ__الا پوس__ا لیکن جب اس کے پھل__نے

آایا تو قدرت نے جیسے نندی سے کہا" نن__دی ت__و اپ__نے اس بے پھ__ل کے پ__ودے ک_و س__نبھال ک__ر پھولنے کا وقت

آانے دوں گی۔" پر قدرت کے فیصلے کے ب__رخلاف نن__دی نے اپ__نے رکھ۔ میں اس کے برگ و بار کی عمر نہیں

آاباد ک__رنے کے ل__یے کی_ا کی__ا پ__اپڑ نہیں بیلے وہ جس کی پیٹھ دیکھ__نے کی روادار نہیں تھی اس جگسیر کا گھر

نے اس کے پاؤں پکڑے پھر بھی اس کی پیش نہیں گئی۔ اب جگسیر کی عمر بیالیس سال ہ__و چلی تھی لیکن

نندی کا ہاتھ کہیں نہیں پڑتا تھا۔

جگسیر کے باپ کو مرے پندرہ برس ہو گئے تھے۔ جب وہ زندہ تھا تو نندی نے اس کی بہت منت س__ماجت

کی تھی کہ وہ کس__ی ک__و چ__ار پیس__ے دے ک__ر ک__وئی وس__یلہ بن__ا لے لیکن اس اص__ولوں کے پکے نے اس کی نہ

سنی۔ ایسے موقعوں پر وہ بڑے دکھ سے کہتا " جب میں نے اپنی چار بیٹیاں بغیر لالچ کے بیاہ دیں تو اب میں

آاخر دم تک اپنی ضد پر قائم رہا۔ یہ لعنت کا ٹیکہ اپنے بیٹے کے لیے لگا لوں۔ "اور وہ

یوں اگ_رچہ نن_دی یہ س_اری ب_اتیں پ__وری ک__ر لی_تی لیکن ج__و داغ وہ نہیں دھ_و س__کتی تھی وہ اس کے میکے کی

انہونی تھی۔ یہ ایک ایسا نشان تھا کہ اس بات پر بنا بنایا کھیل بگ__ڑ جات__ا۔ جب بھی ک__وئی رش__تہ دیکھ__نے والا

آاتا وہ سب سے پہلے یہ بات پوچھتا کہ "لڑکے کے ننھیال کہاں ہیں؟"

4

نندی کیا بتاتی؟ اس نے کئی بار جھوٹ بھی بولا مگر رخنہ ڈالنے والے اگر ایس_ے جھ_وٹ چل__نے دی_تے ت__و ش_ائد

کسی کا لڑک__ا کن_وارا نہ رہت__ا۔ نن__دی میکے س_ے دھتک_اری ہ__وئی تھی ۔ اگ__رچہ جگس_یر کے ب__اپ نے کبھی اس

بات کا ذکر نہیں کیا تھا لیکن وہ لوگوں کی زبانیں کیسے روکتا۔ انسان مارنے والے کا ہاتھ تو پکڑ لیتا ہے لیکن

بولنے والے کی زبان کون روکے؟ نندی ساہنس__یوں کی ل__ڑکی تھی۔ نہ ج__انے اس کے م__اں ب__ا پ کہ__اں م__ر کھپ

آاتیں ت__و وہ گئے تھے۔ ان کے ب__ارےاس نے بع__د میں کچھ نہیں س__نا تھ__ا۔ نن__دی ک__و اب بھی جب یہ ب__اتیں ی__اد

آا کے آاتا ، جنہ__وں نے کبھی ساری ساری رات روتی رہتی۔ پھر جب اسے اپنے ایسے پتھر دل ماں باپ کا خیال

اس کی صورت نہیں دیکھی تھی تو وہ صبر کا گھونٹ پی کر چپ ہو جاتی۔

نندی اور جگسیر کے باپ کی اپنی ہی عشق کی کہانی تھی۔ جب اس کے خانہ بدوش ماں باپ دیس پ_ردیس

آاتے تو نندی کا جگسیر کے باپ کے ساتھ ملاپ ہوا۔ وہ اپنے قبیلے سے الگ ہو کر جگس__یر پھرتے پھراتے ادھر

آا گ__ئی۔ بزرگ__وں کے باپ کے ساتھ بھاگ نکلی۔ جب ساہنسی اسے ڈھونڈنے نکلے تو وہ خ__ود ہی ان کے پ__اس

آاج بھی یہ بات نہیں بھولی تھی کہ تب وہ کس طرح گھاگھرے کا لنگوٹا کسے ، گنڈاسا کندھے پر رکھے کو

شیرنی کی طرح سب کے س_امنے کھ__ڑی ہ__و گ_ئی تھی۔ اس کی سرکش_ی دیکھ ک__ر اس کے ب__اپ نے س_ب ک_و

آاواز میں اس س__ے ن__اطہ ت__وڑتے ہ__وئے کہ__ا تھ__ا روک دیا تھا اور دور ہی سے رشتوں کی حدیں پھلانگ کر روہانسی

آاج کے بع_د ہم تمہ_ارا آاج سے تو ہمارےلیے اور ہم تمہارے لیے م_ر گ_ئے۔ اب جہ_اں جان_ا ہے ج__ا۔ "لو نندئیے

آاج تک نہ نندی نے اپنے م__اں ب__اپ کی خ__بر لی اور نہ انہ__وں نے اس گ__اؤں آائیں گے۔" اور پھر منہ دیکھنے نہیں

کا رخ کیا تھا۔

نندی کو جیسے یہ سب باتیں بھول گ_ئی تھیں لیکن پ_رانے زخم_وں کے نش_انوں کی ط_رح ان ب__اتوں کے نش_ان

صاف دکھائی دیتے تھے۔

اس کے میکے کے اچھ__وت ہ__ونے کی ب__دولت اس کی چ__اروں بیٹی__اں اچھے گھ__روں میں نہیں بی__اہی گ__ئی تھیں۔

تین کی شادیاں تو ایسی جگہ کرنی پڑیں جہاں لڑکوں کے رشتے بڑی دیر س__ے رکے ہ__وئے تھے۔ نن__دی، جگس__یر

کے باپ کے سامنے کئی دفعہ جھگڑا کر چکی تھی کہ جب لڑکیوں کو ایسے جہنم میں دھکیلنا ہے تو پیس__ے

کیوں نہ لیے جائیں۔ جب لوگ خود منہ پھاڑ کے مانگتے ہیں تو ان کے دھرم اور نن__دی کے میکے کی کم ذات

5

ہونے کی بات کہاں جاتی تھی؟ جب لوگوں ک_ا ک_وئی دین دھ_رم نہیں ت__و ہم نے ہی کی__وں یہ ٹھیکہ لی_ا ہ__وا ہے؟

لیکن وہ کبھی نہیں مانا۔ بلکہ وہ جواب میں دھرم کا پرچار کرنے لگتا: " جس نے دنیا کے لیے دھرم چھوڑ دی__ا

وہ بھی کوئی انسان ہے؟"

آاج گھر میں بھاگ لگے ہ__وتے"لی__ٹے لی__ٹے نن__دی نے جیس__ے جگس__یر کے "چندریا تو نے میری بات مانی ہوتی تو

آاگ میں باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "کوئی پوتا تیری سیڑھی کو لے کر چلتا تو عزت ہ__وتی۔ اب دوزخ کی

جل رہے ہو گے۔ بتاؤ تمہارے دھرم نے تیرا کیا سنوارا؟ "لیکن دوزخ کا ذک__ر ک__ر کے نن__دی ک__و لگ__ا جیس__ے اس

آاتے ہی اس کے چہرے کی جھری_وں میں ٹیس_یں اٹھ_نے لگیں نے جگسیر کے باپ کو دکھ پہنچایاہو ۔ یہ خیال

چچنی س__ے منہ آانے لگ__ا تھ__ا۔ اس نے پہل__و ب__دلا اور آاگ جیسا لگا۔ ایسی سوچ سے اب اس__ے ڈر آاسمان اور اسے

آایا نندی چارپائی پر پڑی تھی۔ ڈھانپ کر خاموش ہو گئی۔ جب تک جگسیر گھر

آاج برت رکھنا ہے۔" جگسیر نے ٹھنڈے چولہے کی طرف دیکھ کر کہا۔ "بے بے کیا بات ہے؟

آاگے کھان__ا نہیں رکھن__ا۔ "جب تمہاری م__اں قبرس__تان چلی گ__ئی۔ تب ب__رت رکھ کے روک لین__ا۔ کس__ی نے ت__یرے

اا کہا۔ "نندی نے جواب

پہلے تو جگسیر بے س_اختہ ہنس دی__ا لیکن پھ_ر وہ اداس ہ__و گی_ا۔ نن_دی کی ایس_ی دکھ بھ__ری ب__اتوں س__ے اب وہ

آازردہ خاطر ہو جاتا۔ ہر دن کے س__اتھ نن__دی کی یہ ع__ادت ب__ڑھ رہی تھی۔ جب ت__ک جگس__یر گھ__ر رہت__ا وہ بہ__انے

بہانے ٹیڑھے میڑھے سے انداز میں یہ بات چھیڑ دیتی۔ اس لیے کئی دفعہ جگسیر پورا پ_ورا دن اور کبھی رات ک_و

آات__ا آاتا۔ پھر بھی اس سے نندی کی یہ ح__الت نہیں دیکھی ج_اتی تھی۔ وہ جب بھی دی__ر س_ے گھ__ر بھی گھر نہ

آاخ__ر وہ س_وچتا 'نہ چچڑ جات__ا تھ_ا۔ نندی اس سے بار بار پوچھتی کہ وہ کہاں گی_ا تھ__ا؟ اس ب__ات س_ے ہی جگس_یر

جانے اس نے ایک دو برس اور جینا بھی ہے یا نہیں۔اسے کس لیے دکھی کرتے ہو؟ اور وہ نندی کی ب__اتیں س__ن

چبرا نہیں تھ__ا۔ "بے بے میں نے ص__بح ک__ر ہنس__ی میں ٹ__ال دیت__ا۔ نن__دی ک__و بھی بھروس__ہ تھ__ا کہ اس ک__ا جگس__یر

سویرے "اپنے کھیت " میں ہل جوتنا ہے" جگسیر نے نندی کا دھیان ہٹانے کے لیے کہا۔

6

"اپنے کھیت " کا سن کر نندی پہلے تو چپ رہی پھر خود ہی اٹھ کر ڈنگ__وری پک__ڑے بڑب__ڑائی"خ__یر ہ__و!" یہ دن

آائی تھی۔ اس ل__یے وہ خاموش__ی س__ے نندی کے لیے ایک خاص دن تھ__ا اور وہ اس__ے ای__ک تہ__وار کی ط__رح من__اتی

چھک_و س_ے کوٹھڑی کے اندر چلی گئی اور اپنے لکڑی کے صندوق کے پاس جا کھ__ڑی ہ__وئی۔ ط_اق میں رکھے چ

آالود تالہ کھولنے لگی۔ ٹٹول کر چابی نکالی اور زنگ

اا کہا لیکن نندی خاموشی سے تالے میں چ__ابی آاؤں" جگسیر نے باہر سے مذاق "بے بے تالہ نہیں کھل رہا تو میں

گھم__اتی رہی۔ جگس__یر ک__و معل__وم تھ__ا کہ وہ ا س ت__الے ک__و ہ__اڑی س__اونی س__ال میں دو دفعہ کھول__تی تھی اور وہ

آانے دیتی۔ اگرچہ جگسیر کو معلوم تھا کہ صندوق میں چار پ__رانے ک__پڑوں اور جگسیر کو بھی اس کے نزدیک نہ

ایک دو چاندی کے زیوروں کے علاوہ کچھ نہیں تھا پھر بھی اس ک__ا دل چاہت__ا کہ اس__ے کھ__ول ک__ر دیکھے کہ

آا جاتی جو اس نے اسے کئی سال پہلے نندی نے اس میں کیا چھپایا ہوا تھا۔ پھر اس کو نندی کی وہ بات یاد

ہاڑی کی بیجائی کے وقت کہی تھی، جب جگس_یر اس کے ص_ندوق کے پ__اس ج__ا کھ__ڑا ہ__وا تھ__ا "م__یرے م__رنے

کے بعد جو کرنا ہے کر لین_ا لیکن م_یری زن_دگی میں اس ص_ندوق ک_و ہ_اتھ نہ لگان_ا۔ "اس دن کے بع_د جگس_یر

آائی اور کبھی اس صندوق کے پاس نہیں گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد نندی چاندی والا روپیہ ہ__اتھ میں ل__یے ب__اہر

جگسیر کو دیکھ کر بولی۔

آاؤ۔ مگ__ر اب دو ہی رہ گ__ئے ہیں۔ س__اونی ت__ک ت__و میں م__روں گی آانے کی ش__کر لے آاٹھ آانے کے چ__اول اور آاٹھ "

نہیں۔ اس کے بعد ایک روپیہ بچے گا۔ اس کا مجھے کھپن )کفن( ڈال دینا"

"بے بے میں تجھے ایک روپےوالے کھپن میں روانہ کروں گا؟ جگسیر نے مسکرا کر کہا "تو دیکھنا تو س__ہی

۔ ایسے دو شالے میں تیرا جنازہ نکالوں گا کہ دنیا دیکھے گی"

"چاہے ڈالنا یا نہ ڈالنا۔ دو شالوں میں کون سی عزت ہو جاتی ہے" نندی نے جواب دیا

نندی کا بدلتا مزاج دیکھ کے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دکان کی طرف چل دیا۔

دو

7

آادھی رات کی نوویں ک__ا چان__د بھی ابھی صبح جگسیر جب سو کر اٹھا تو ابھی مرغ نے پہلی بانگ دی تھی۔

آاواز دی۔ وہ جاگ ہی رہی تھی۔ جگسیر بکری کا دودھ دوہنے لگ__ا اور نن__دی چڑھا تھا ۔ جگسیر نے نندی کو

نے چائے کا پانی رکھ دیا ۔ چائے پی کر جگسیر جلدی جلدی دھرم سنگھ کے گھر سے بیل لی__نے چلا۔ وہ__اں

پہنچ کر اس نے دیکھا کہ اپنے اندازے کے مطابق ، دھرم سنگھ نے جگس__یر کے پہنچ__نے س__ے پہلے ہی بیل__وں

کو گھاس ڈال دیا تھا۔

"بھائی بیلوں نے گھاس کھا لیا؟ " جگسیر نے پہنچتے ہی پوچھا۔

"ہاں کافی دیر ہو گئی" دھرم سنگھ نے چرنی میں ہاتھ مار کر بیل__وں ک__و تھپتھپ__اتے ہ__وئے کہ__ا ۔ "اب ت__و ان کے

پیٹ بھر گئے۔ لے جا"

جگسیر نے ہمیشہ کی طرح دھرم سنگھ کے پیروں کوچھوا تو دھ__رم س__نگھ نے دع__ا دی "ت__یرا ن__ام ق__ائم رہے ۔ ت__و

صحت سے رہے۔ بڑھے پھولے!" جگسیر بیل__وں کے پیچھے ہ__ل ڈال ک__ر چ__ل پ__ڑا۔ چل__تے ہ__وئے کبھی اس__ے دھ__رم

آات_ا ت_و کبھی دھ_رم س__نگھ کے اب ت__ک دھ_رم نبھ__انے ک_ا۔ سنگھ کے بڑے بیٹےبھنتے کے کڑوے رویے کا خیال

دھرم سنگھ پچھلے تیس برسوں سے جب س_ے جگس_یر ک_ام کے قاب_ل ہ_وا تھ__ا، س_ال میں دو دفعہ جب جگس_یر

کواپنے کھیت میں ہل چلانا ہوتا، وہ صبح سویرے بیلوں کو گھاس ڈالتا تھا۔ بھنتا بھی اسی دھرم سنگھ کا بیٹا

آادمی ک__و کھ__ا ج__انے والا تھا جس نے رات جگسیر کو بیل دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اس کا ج__واب بھی

تھا۔ "تجھے اتنی جلدی کیا پڑی ہے ۔ چار دن ٹھہر جا۔ ابھی ت__و کھیت س__ے م__وٹھ بھی نک__النے ہیں اور اس__ے

اپنی پڑی ہوئی ہے۔ پنڈ اجڑ رہا ہے اور کملی کو بال سنوارنے کی پڑی ہے!"

یہ کڑوی بات جگسیر کو بری لگی تھی لیکن بھنتے کے مزید کچھ کہنے سے پہلے دھرم سنگھ نے اس__ے کہہ

دیا تھا کہ وہ صبح بیل لے جا سکتا ہے۔ اگرچہ بھنتا دن بدن ب__د م__زاج ہوت__ا ج__ا رہ__ا تھ__ا لیکن وہ ابھی بھی ب__اپ

کی بات نہیں ٹالتا تھا۔ جیسے جیسے دھرم سنگھ کی عم_ر بڑھ__تی ج__ا رہی تھی اگ__رچہ وہ گھ__ر کی س_اری ذمہ

داریاں بھنتے کو سونپتا جا رہا تھا لیکن اس کی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں ک__ا خی__ال ک__ر کے وہ دکھی ہ__و جات__ا

8

تھا۔وقت کے ساتھ چلنے کی اس کی سوچ نے اگرچہ ابھی تک گھر میں کوئی الجھن پیدا نہیں ہونے دی تھی

لیکن اسے معلوم تھا کہ ایسی الجھنوں کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔

جگسیر جب "اپنے کھیت" کے نزدیگ پہنچا تو اس کی برب__ادی دیکھ ک__ر وہ دم بخ_ود ہ__و گی_ا۔ ک_ئی دن پہلے

اس نے بھنتے کی زد سےبچا کھچا پانی کھیت کو لگایا تھا۔ لیکن بھنتا اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہ__ا تھ__ا۔

جس کے نتیجے میں کتنا کھبل اگ رہا تھا ۔ جگسیر کو لگا جیس__ے کھب__ل کی ن__وکیں مس__کرا مس__کرا ک__ر اس

کی طرف جھانکتے ہوئے ہنس رہی تھیں۔ جگس_یر ک__ا اس کھیت س__ے جنم__وں ک__ا ن__اطہ تھ__ا۔ جب س__ے اس نے

ہوش سنبھالا تھا اس نے اپنے باپ کو اسے اپنی سمجھ کے کاشت ک_رتے دیکھ__ا تھ__ا۔ اس کے م__رنے کے بع__د

بھی وہ اسے اپنی سمجھتا تھا لیکن یہ تھی دھرم سنگھ کی ملکیت ۔جگسیر کے باپ کو دھرم سنگھ کا باپ

اس کے جدی گاؤں سے پگ دے کے لایا تھا۔ بٹائی کا حصہ مقرر کیے بغیر دھرم سنگھ کے باپ نے جگسیر

آاپس کے تعلق___ات کی ب___دولت دھ__رم س__نگھ نے یہ چ___ار بیگھے کے ب___اپ ک__و چ__ار بیگھے زمین دی ۔ ان کے

یی ملکیت کے جھگ__ڑے یی اور ادن جگس__یر کے ب__اپ کی ملکیت ک__رانے کی پکی ٹھ__انی تھی لیکن یہ ب__ات اعل

آا کر کہت_ا "ٹھولی_ا اگ_ر ت__و م__یرا م__اں جای_ا ہوت_ا ت_و میں کی نذر ہو گئی۔ کئی دفعہ دھرم سنگھ کا باپ ترنگ میں

آادھی زمین تیرے نام کر دیتا۔ جگسیر کو یاد تھا کہ جب دھرم سنگھ ک__ا ب__اپ اور اس ک__ا ب__اپ اکٹھے ہ__ر س__ال

میلے میں جاتے تو دونوں کی ایک ہی رنگ کی پگڑی__اں، ای__ک جیس__ے ک__رتے اور ای__ک جیس__ے دہ__ری کھ__ال کے

سچے تلے والے جوتے ہوتے تھے۔ گ__اؤں کے ل__وگ انہیں' ہنس__وں کی ج__وڑی' کہ__تے تھے۔ زم__انے کے دس__تور کے

مارا دھرم سنگھ کا باپ اگ__رچہ جگس__یر کے ب__اپ کے س__اتھ لوگ__وں کے س__امنے کھات__ا پیت__ا نہیں تھ__ا لیکن جب

جگسیر پانچ سال کا ہوا تو اس نے ایک دن کھیت والی جھگی میں دونوں کو اکٹھا دارو پیتے دیکھا تھا۔

دھرم سنگھ کے ب__اپ ک__و وراثت میں زی__ادہ زمین نہیں ملی تھی لیکن اس نے اور جگس__یر کے ب__اپ نے دن رات

اتنی محنت کی کہ جب دھرم سنگھ کا باپ مرا تو اس نے اپنی جدی زمین سے دگنی اور زمین خرید لی تھی۔

جگسیر کو وہ موقع کبھی نہیں بھول سکتا تھا جب دھرم سنگھ کے باپ نے مرنے سے ایک دن پہلے جگس__یر

کے باپ کو اپنے پاس بلا کر اپنے بیٹے دھرم سنگھ سے کہا تھ__ا "دھرمی__ا، ٹھ__ولے ک__و م__یرا ہی روپ س__مجھنا ۔

اگ__ر اس کے س__اتھ ک__وئی اونچ نیچ کی ت__و مجھے ش__انتی نہیں ملے گی۔ م__یری روح دوزخ میں تڑپ__تی رہے گی۔

9

تمہاری ساری جائداد اسی ٹھ__ولے نے س_انپوں کی س_ریاں کچ_ل کچ_ل کے بن_ائی ہے۔ ورنہ میں کہ_اں ک_ا پالنہ_ار

تھ__ا۔ اگ__رچہ ہم نے ای__ک م__اں س__ے جنم نہیں لی__ا لیکن ہم پچھلے جنم س__ے س__گے بھ__ائی ہیں۔ یہ ت__و تق__دیر میں

ک__وئی گ__ڑ ب__ڑ ہ__و گ__ئی کہ یہ کس_ی اور گھ__ر میں پی__دا ہ__وا۔" تب جگس_یر ک__ا ب__اپ چیخیں م__ار ک__ر روی__ا۔ اس نے

آانسوؤں نے دھرم سنگھ کے پاؤں دھو دئیے۔ اس نے بھی اپنے سارے خاندان کے س_امنے جگس_یر کے ب__اپ ک__و

اشارے سے اپنی چارپائی کی پٹی پر بٹھا کر اپنے کمزور بازو اس کے گلے کی طرف اٹھا دئیے تھے۔

باپ کی موت کے بعد دھرم سنگھ نے جگسیر کے باپ کے ساتھ اپ__نے ب__اپ کے س__اتھ ک__یے ق__ول نبھ__ا دئ__یے۔

اس کی بیٹیوں کی شادیاں کیں۔ اس کے گھر کا سارا خرچ اپنے ذمے لے لیا۔بڑھ__اپے کی وجہ س__ے جگس__یر ک__ا

باپ زیادہ کام کاج نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نے کوئی اونچ نیچ نہ ہونے دی۔

آا گئی۔ اس نے دھرم سنگھ ک__و بلا ک__ر جگس_یر ک__ا ب__ازو اس کے ہ__اتھ میں دے پھر جگسیر کے باپ کی باری

آاج س__ے کر کہا "دھرم سیاں تیرا باپ میری بانہہ تجھے پکڑا کے گیا تھا اور میں اس کی تجھے پکڑا چلا ہوں۔

اس کا سب کچھ تیرے ذمے۔ اپنا بھائی بنا کے رکھنا۔"

آاج تک نبھائے جا رہا تھا۔ اور دھرم سنگھ جگسیر کے باپ کی بات کو

اس نے جگسیر کو کبھی مزاراع نہیں سمجھا تھا۔ اگرچہ جیسے جیسے اس کا بڑا بیٹ_ا بھنت_ا ک_ام س__نبھالتا ج__ا

رہا تھا اور وہ پیچھے ہٹتا جا رہا تھا لیکن اس نے جگسیر کو کبھی م__ایوس نہیں کی_ا تھ__ا۔ اس س_ے چ__ار بیگھے

زمین چھیننے کے لیے کئی بار بھنتا اس سے جھگڑا کر چکا تھا لیکن وہ اسے نرمی سے کہتا "کاکا کی__ا پتہ ہم

کس بدولت کھا رہے ہیں۔ طیش سے گھر نہیں چلتے۔ تم جیسے س__مجھدار لوگ__وں ک__و رب دیکھ رہ__ا ہے۔ کی__ا

جانے اسے کیا پسند ہے؟ ایسا غرور اچھا نہیں ہوتا۔ ہر شخص اپنا نصیب کھات__ا ہے۔ ک__وئی کس__ی ک__و کی__ا دے

سکتا ہے؟"

آاج ک_ل ت__و ل__وگ ای__ک دوس__رے لیکن بھنتے کو ایسی صاف اور خ__الص ب__اتیں اچھی نہیں لگ__تی تھیں۔

کے پیس__ے پیس__ے کی خ__اطر خ__ون کے پیاس__ے ہ__و رہے تھے لیکن اس کے ب__اپ نے ای__ک م__زارع ک__و چ__ار بیگھے

10

چھوڑ رکھے تھے۔ پانچویں حصے پر کام کرنے پر تی__ار ج__وان گھ__برو دھکے کھ__اتے پھ__رتے تھے لیکن اس نے یہ

فالتو کا مرا ہوا سانپ چوتھے حصے کے لیے گلے میں ڈالا ہوا تھا۔

انہی سوچوں میں الجھا جگسیر کھیت کے نزدیک جا پہنچا۔ بیلوں کو کھیت کی ادھر والی مینڈھ پر کھڑا ک__ر

کے وہ سیدھا ٹاہلی کے پاس گی_ا۔ جیپ ٹٹ_ول ک__ر اس نے چ__اولوں کے کچھ دانے اور گ_ڑ کی ڈھیلی نک_الی اور

ٹاہلی کے نیچے مڑھی پر ماتھا ٹیک دیا۔ جب اس کے م__اتھے نے م__ڑھی کی اینٹ ک__و چھ__وا ت__و اس__ے ب__اپ کی

آائی۔ "میری مڑھی ٹاہلی کے نیچے بنانا اور اس کی رکھوالی کرنا اگر تو میرا بیٹا ہے۔" آاواز

آال اولاد والا زمین_دار اپ__نی زمین میں اس مڑھی اور ٹاہلی کی خ__اطر جگس__یر ک_و بھن_تے کے س_اتھ لڑن__ا پ__ڑا۔ ک__وئی

ایک مزارع کی مڑھی کیسے برداشت کر س__کتا ہے۔ ویس__ے بھی یہ انہ__ونی ب__ات تھی۔ لیکن دھ__رم س__نگھ اس پ__ر

بھی اڑا رہا تھا۔

جگسیر نے ماتھا ٹیکنے کے بعد سر اٹھایا تو اسے ٹاہلی ک__ا پھیلاؤ پچھلے س__ال کی نس__بت دوگن__ا لگ__ا۔ اس نے

اٹھ کر ایک جھکی ہوئی ٹہنی سے پتے لے کر ہاتھ میں ملے تو ان کی نرمی سے اس ک__ا جس__م س__بک ہ__و گی__ا۔

اس نے ٹاہلی کی تمام شاخوں پر اچٹتی نگاہ ڈالی ۔ چاند کی مدھم روشنی میں اسے ان میں سے اپنے باپ کا

آایا۔ وہ کچھ دیر ٹاہلی کے تنے سے چ__وٹی ت__ک غ__ور س__ے دیکھت__ا رہ__ا۔ پھ__ر اچان__ک وقت گ__ذرنے ک__ا عکس نظر

آای_ا اور ان کی پنجابی_اں کس لیں۔ بیل__وں ک_و تھپکی دی اور انہیں خیال ک_ر کے وہ جل__دی س_ے بیل__وں کے پ__اس

ہانک دیا۔ کھیت سخت ہونے کی وجہ سے اس نے ہل کی ہتھی پر زیادہ دب__اؤ نہ دی__ا لیکن جب اس__ے یہ خدش__ہ

ہوا کہ شائد بھنتا دو ہرن نہ دینے دے تو اس نے پورے دباؤ سے ہ__ل کی پھ__الی ک__و زمین میں دھنس__ا دی__ا۔ اس__ے

اپنے بیلوں پر ہمیشہ فخر رہا تھا۔ ایسے موقعوں پ__ر جگس__یر پیٹھ پ__ر تھپکی دے ک__ر کہت__ا "یہ ت__و م__ٹی ہے۔ م__یرے

شیر تو پتھر پھاڑ دیں" ان دونوں بیلوں کو اس نے دودھ پلا پلا کر ج__وان کی__ا تھ__ا۔ جب وہ دھ__رم س__نگھ ک__و کہہ

کر گھی کے لیے مخصوص دو تھن ان کے لیے زبردستی چھڑا لیتا تو دھ__رم س__نگھ کی بی__وی دھن__و کی ن__اگواری

آاری کی ط__رح کے باوجود کسی بہانے وہ اسے نہ روک سکتا۔ بیل چلے تو کھب__ل میں دھنس__ے ہ__ل کے پھ__ل نے

آانے لگا۔ آاواز سن کر جگسیر کو مزا زمین کو چیرنا شروع کر دیا۔ کھل کے اکھڑنے کی

11

"شاباش میرے شیرو" اس نے بیلوں کا حوصلہ بڑھایا اور ان کی رفتار اور تیز ہو گئی۔

اس کا باپ تیس برس تک اس کھیت میں ہل چلاتا رہا تھا ۔ اس کے ب__اپ ک__ا تیس ب__رس ک__ا پس__ینہ اس کھیت

آانے لگی تھی۔ میں جذب ہو چکا تھا اور اب جب جگسیر اس میں ہل چلاتا تو اسے م__ٹی س__ے پس_ینے کی ب__و

آاتی تھی۔ نہ جانے کیوں دھرم سنگھ کے دوسرے کھیتوں میں ہل چلاتے وقت اسے ایسی بو نہیں

آاتیں۔ اس کھیت ک_ا ان__اج اس نے کبھی اس کھیت میں ہ__ل چلاتے جگس_یر ک__و اپ__نے ب__اپ کی ک_ئی ب_اتیں ی__اد

منڈی میں نہیں بیچا تھا۔ وہ اسے اپنے کھانے اور بیج کی ضرورتیں پ__وری ک__رنے کے ل__یے اس__تعمال کرت__ا۔ کت__نی

بھی ض__رورت ہ__و وہ ای__ک دان__ا نہ بیچت__ا۔ اگ__ر نن__دی اس س__ے اس پاگ__ل پن پ__ر جھگ__ڑتی ت__و وہ دکھی ہ__و ک__ر

آا کر کہ__تی۔"غری__بی کے م__ارے چپت بھی بیچتا ہے؟ "نندی مزید غصے میں کہتا"میری بھولی !کبھی کوئی دودھ

کہاں دودھ پت کی بات اور کہاں دانے؟ یہ کیا بات ہوئی؟ "

چپت سے کم ہوتا ہے کیا میری بھولی کچھ سوچو۔ "وہ اور دکھی ہو ک__ر کہت__ا۔ لیکن ایس__ی "گھر کا اناج دودھ

سوچ صرف جگسیر کے باپ کی تھی۔ نندی کئی دفعہ اس سے چ__وری دان__وں کے ع__وض دک__ان س__ے س__ودا لے

آاتی لیکن باپ کی یہ بھ__ولی بھ__الی ب__اتیں آاتی۔ جگسیر کو بچپن میں اگرچہ باپ کی ایسی باتوں کی سمجھ نہ

چش ق__دم پ__ر چل__تے آاج تک اس نے باپ کے نق آاتیں۔ بڑا ہو کے اس نے باپ کی یہ ریت ٹوٹنے نہ دی۔ اسے پسند

ہوئے اس کھیت کا ایک دانہ بھی نہ بیچا تھا۔

آادھے کھیت میں ہل چلا لیا تھا لیکن ابھی تک س__اتھ کے کس__ی کھیت س__ے کس__ی ہ__الی جگسیر نے

آاواز سنائی نہیں دی تھی۔ اس نے بیلوں کو روکا۔ ان کے نرم جسموں پ__ر ہ__اتھ پھ__یرا اور پھ_ر ٹ_اہلی کی ش__اخ کی

آایا۔ گڑ کی ایک ایک ٹکڑی اس نے دونوں بیلوں ک__و ک__افی دی__ر ت__ک چٹ__ائی بیل__وں سے بندھے رومال سے گڑ لے

کو ہاتھ سے گڑ چٹاتے ہوئےاسے اپنے جسم کے ایک ایک انگ میں گرم__اہٹ محس__وس ہ__وئی پھ__ر اس نے دون__وں

بیلوں کو دوبارہ تھپتھپایا اور ہل کی ہتھی تھامتے ہوئے ان کی ہمت بندھائی "چلو میرے شیرو! سورج نکلنے سے

آادھے سے زیادہ کام نبیڑ لیں گے" پہلے ہم

12

سورج طلوع ہونے تک اس نے مغربی طرف کے دونوں کھیت پورے کر لیے۔ جیسے ہی چڑھتے سورج

کی شعائیں سفید بیل پر پڑیں جگسیر کو اس کا جسم سنہری گوٹے کی طرح چمکت__ا ہ__وا لگ__ا۔ اتن__ا خوبص__ورت

جسم اس نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

اس نے بیل روک لیے۔ ایک لمحہ کے ل__یے اس نے س__فید بی__ل کے چمک__تے جس__م پ__ر نگ__اہ ڈالے رکھی اور پھ__ر

پہلے کی طرح اسے مساس کرنے لگا۔ پھر اچانک اس کی نگاہ گاؤں جانے والے رستے پر پڑی۔ تھوڑی دی__ر اس

نے نگاہیں ادھر لگائے رکھیں ۔ اسے کچھ دکھائی نہ دیا لیکن جب ا سنے زیادہ دھی__ان دی__ا ت__و اس__ے نن__دی ک__ا

آا رہی تھی۔ جگس__یر ہ__ل چھ__وڑ آایا وہ لاٹھی کے س__ہارے جل__دی جل__دی چلی دہرا ہوتا ہوا، ہلکا پھلکا جسم نظر

آا رہی تھی۔ اس کے ننھے جس_م س_ے گ__رمی پھ__وٹ آا بیٹھا۔ نندی تیز تیز کھیت کی ط_رف کے ٹاہلی کے نیچے

آاتی گئی اس کے مزاج کی گ__رمی ظ__اہر ہ__و رہی تھی۔ پپڑی__اں جمے ہونٹ__وں پ__ر رہی تھی۔ جیسے جیسے وہ نزدیک

آاگ میں دہکتی سونے کی ہنس_لی آاج برسوں کے بعد ایک مسکان تھی۔ ماتھے کی سلوٹیں سورج کی سنہری

چدکھ رہے تھے۔ کے پیچ و خم کی طرح چمک رہی تھی۔ سر کے سفید ب_ال بھی چان_دی کی ت_اروں کی ط_رح

آاج وہ بڑھیا بھی ماں کی ط_رح ل__گ رہی تھی جس__ے چان__د کے چان__دی کے تھ__ال میں بیٹھے چ__رخہ جگسیر کو

آایا تھا۔ کاتتے وہ بچپن سے دیکھتا

"اب تو یہاں تک پہنچے پہنچتے بھی سانس اکھڑ ج__اتی ہے، م__یرے وی__ر! " نن__دی نے کھیت کے نزدی__ک پہنچ

آاپ سے کہا جسے سن کر جگسیر ہنسی کو نہ روک سکا۔ کر اپنے

آاگے ب__ڑھ ک__ر اس کے س__ر پ__ر س__ے روٹی_وں ک__ا چھ__ابہ اور کچی آائی ، جگس__یر نے جب تک وہ ٹاہلی کے نزدی__ک

لس__ی ک__ا لوٹ__ا ات__ار لی__ا۔ نن__دی لاٹھی کے س__ہارے پیٹھ س__یدھی ک__رنے لگی ت__و پ__یڑ کے پس منظ__ر میں اس کی

آانکھوں سے پانی بہنے لگا۔ اس نے ایک ہاتھ سے لاٹھی س__نبھالی اور دوس__رے س__ے جھریاں اور نمایاں ہو گئیں۔

کمر کو سہارا دیا لیکن کمر پھر بھی سیدھی نہ ہوئی۔

آاہ کے ساتھ وہ نڈھال ہو کے وہیں گر گئی۔ "اوئے ربا" ایک درد بھری

13

"یہ میری عمر تو نہیں کہ تمہارے لیے روٹی لاؤں۔ ساری عمر بڑا نیکو ک__ار بن__ا پھرت__ا رہ__ا۔ ک__وئی اکیلا کب ت__ک

ہمت دکھائے؟"

آاہستہ بین کرنے لگی۔ آاہستہ پھر وہ چنی سے منہ کو ڈھانپ کر ہچکیاں لینے لگی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد

"میرے راجے سسر کےبیٹے اب میں تیرا کھانا نہیں لا سکتی۔

آایا، جگ میں حصہ ڈال کے، میرا حصہ علیحدہ کرنے والے! "تجھے کبھی بھی مجھ پر ترس نہ

"کوئی قبر پر دیا جلانے ولاا بھی نہیں چھوڑا تو جو بڑے خاندانوں والا بنا پھرتا تھا!

"تو نے، میرے جنموں کے دشمن، کبھی میری خبر نہ لی!"

جگسیر پہلے تو خاموش رہا۔ پھر نندی کے بینوں نے اس پر ایسا اث_ر کی_ا کہ وہ اپ_نے پ__ر ق_ابو نہ رکھ س_کا۔ ب_ڑے

آانکھیں آانس__و بہہ نکلے "بے بے بس ک__ر" اس نے پک__ڑی کے پل__و س__ے آانکھ__وں س__ے جتن__وں کے ب__اوجود اس کی

آاواز میں ماں کو تسلی دی۔ پونچھیں اور رندھی

آانکھیں بھی آائی اور جب اس کا من ہلکا ہوا تو خود ہی چپ ہو گ__ئی۔ ات__نی دی__ر جگس__یر کی لیکن نندی باز نہ

بھیگی رہیں۔

"وی دو جکیں جانیا) اے دوزخی(میرا اکلوتا بیٹا کیا یاد ک__رے گ__ا۔"نن__دی نے ہچکی__اں لی__تے ہ__وئے ای__ک ب__ار پھ__ر

آاہس__تہ س__ے بڑب__ڑاتی گ__ئی۔" ہم بھی تمہ__اری جگسیر کے باپ سے گلہ کیا اور پھر روٹیوں__والا روم__ال کھول__تے ہ__وئے

طرح کریں تو کبھی تمہاری خبر نہ لیں ۔ پر کیا کریں گذارہ نہیں ت__و نے بی__ٹے ک__و ایس__ے ہی چھ__وڑ دی__ا لیکن وہ

جیتے جی تم سے پیچھا تب چھڑائے کہ تیرے جیسا پتھر بن جائے"

یوں کہتے ہوئے نندی نے رومال میں سے ایک میٹھی روٹی پر مٹھی بھر چاول رکھتے ہوئے جگسیر کے ب__اپ کی

مڑھی میں رکھ دی۔ پھر کچی لسی والے برتن سے تھوڑی لسی مڑھی پر انڈیلی اور برتن کو ماتھے س__ے لگ__ا ک__ر

دوبارہ بڑبڑانے لگی۔

14

آاس نہ لگانا ۔ اگلی فصل تک اگر کوئی ع__اجزی ک__رانے والی "لو جو نبھ گئی سو نبھ گئی۔ اب مجھ سے زیادہ

آا ج__اؤں گی ورنہ رب راجی)راض_ی( ۔ اب میں زی__ادہ وقت نہیں نک_النے آاؤ گے ت_و میں بھی گ_رتی پ_ڑتی ش_ائد لے

والی۔ اگر کچھ اور نہیں کر سکتے ت__و اپ_نے پ__اس ہی بلا ل_و۔ دن رات اس ط_رح دیکھ دیکھ ک_ر کڑھ__وں گی ت_و

نہیں"

آادھی روٹی دون__وں بیل__وں کھلائی آادھی اس طرح کہتے ہوئے وہ ایک روٹی اٹھا کر بیلوں کی طرف گ__ئی۔ اس نے

آا کر تین بچی ہوئی روٹیاں اس نے جگسیر کو دیں۔ اس نے روٹیاں اور ان کے ماتھے چھو کر ہاتھ جوڑے۔ واپس

آادھی روٹی ہی مش__کل س__ے کھ__ائی۔ اس س__ے پہلے اس پ__ر لے ت__و لیں لیکن بھ__رائے ہ__وئے من کے س__اتھ اس نے

نندی کے بینو ں کا اتنا اثر نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے جب کبھی نندی ایسا کرتی ت__و وہ اس__ے ہنس__ی میں ٹ__ال

آاپ پر قابو نہیں رہا تھا۔ آاج وہ اپنے دیتا۔ لیکن

"بے بے یہ پ__ونے میں رکھ دے۔ پھ__ر کھ__ا ل__وں گ__ا۔ ابھی بھ__وک نہیں" اس نے ب__اقی اڑھ__ائی روٹی__اں چ__اولوں والی

چنگیر میں رکھتے ہوئے کہا اور نندی کی کوئی بات سنے بغیر ہل چلانے لگا۔ نندی کے ص__بر ک_ا بن_د پھ__ر ٹوٹ__ا

آاہستہ سے بین کرنے لگی۔ اس نے وہ روٹیاں ٹاہلی کے م__ڈھ کے س__اتھ اور وہ چنگیر کو رومال میں باندھتے ہوئے

م__ڑھی کے پچھلی ط__رف رکھ دیں۔ جب وہ گ__اؤں ک__و واپس ہ__وئی ت__و جیس__ے اس میں ج__ان نہیں تھی اور وہ بے

سدھ سی ہو کے چلنے لگی۔

اب سورج کافی اونچا ہو گی_ا تھ__ا۔ جگس_یر نے بیل__وں ک_و للک_ارا۔ وہ ت__یز ہ__و گ_ئے لیکن اب اس کی ٹ_انگوں میں

سکت نہیں تھی۔ نہ ہل پر دباؤ پڑ رہا تھا اور نہ ہی پاؤں جلدی اٹھتے تھے۔ وہ بیل__وں کے پیچھے ایس__ے چ__ل رہ__ا

تھا جیسے کسی نے اسے انکے ساتھ باندھ دیا ہو اور وہ ان کے ساتھ گھس__ٹتا ج__ا رہ__ا ہ__و۔ ی__وں چل__تے جب اس

نے نگاہ اوپر اٹھائی تو اسے کبڑی ہوتی ہوئی نندی راستے کے کھنڈروں کے اولے جاتی دکھا دی اور پھر غائب

ہو گئی۔

تین:

15

آا رہا تھا تو راجباہ کے پ__ل کے پ__اس تیسرے دن جب جگسیر منڈی میں نرما ڈال کے گڈے سے واپس

اس_ے نک_ا ن__ائی ملا۔ وہ کہیں ش_ادی ک__ا پیغ_ام دی__نے چلا تھ_ا۔ اس نے س_فید دودھ کی ط_رح ک_پڑے پہن رکھے

تھے۔ دہرے کھال کے جوتے پر ماوا لگی پگڑی باندھے وہ اڑتا جا رہا تھا۔

آاواز میں پوچھا۔ "ہوں ! کیسے ہو؟ "نکے نے خیر خیریت پوچھنے کے انداز میں اونچی

"درشن کر کے !" جگسیر نے بے توجہی سے جواب دیا۔ اس کا سارا دھیان نکے کے کپڑوں اور ج__وتے پ__ر ٹک__ا

ہوا تھا۔

ہوں! اور سناؤ کس رنگ میں ہو؟ کانو کھیلتی ہے پھولوں پر؟"نکے نے کہا۔

اس نے لفظ پر ک_و اپ__نے ان__داز میں ذرا لمب_ا ک__ر کے کہ_ا اور کن_دھے پ__ر روم_ال ات__ار ک_ر پ_اؤں پ__ل پ_ر رکھ جوت__ا

جھاڑنے لگا۔

جگسیر کو جب کوئی جواب نہ سوجھا تو وہ خاموشی سے نکے کو جوتا جھاڑتے دیکھتا رہا۔ بی_ل بھی پ__ل کے

آاج ت__یرے تین چ__ار ک__ام آا کے رک گئے۔ نکے نے اپنے انداز میں پوچھا "کوڑھیا کوئی گھ__ر بس__ا لی__ا ہوت__ا ت__و پاس

کرنے والے ہوتے۔ اس وقت تم بوہڑ کے نیچے چارپائی پر ٹانگ پہ ٹانگ دھرے لیٹ رہے ہوتے ۔ عیش کرتے۔

"بھائ جو رب کو منظور ۔ شائد ہمارے نصیب ہی ایسے لکھے تھے۔ "جگسیرنے روانی س__ے بزرگ__وں س__ے س_نی

ب__اتیں دہ__را دیں۔ لیکن نکے کی اس ب__ات کی گہ__رائی پ__ر ابھی بھی اس نے دھی__ان نہیں دی__ا تھ__ا۔ وہ پہلے کی

طرح نکے کے دودھ جیسے سفید کپڑوں کو دیکھ رہا تھا۔

"ہونہہ یار بات تو ساری نصیب کی ہوتی ہے۔ انسان تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑت__ا لیکن رب ک__وئی

آاواز نکالتا پیش نہیں چلنے دیتا۔ نکے نے بھی جگسیر کی طرح بزرگوں کے بول دہرائے اور جوتے کی چر چرکی

کھالے کی لے کی پٹڑی پر چلدیا۔

جگسیر نے گڈے پر بیٹھ کر بیلوں کو ہانکا لیکن اس کی نگاہیں ابھی تک نکے پر گ__ڑی تھیں۔ اس ک__ا روش__ن

آانکھیں اور ٹھوس پنڈلیاں دیکھ ک__ر وہ گہ__ری س__وچ میں پ__ڑ گی__ا چہرہ ، کالی سیاہ داڑھی ، موٹی موٹی چمکدار

16

آاج کئی سال بع__د اس__ے اپ__نے جس__م ک__ا تھا۔ )نکا اسکا ہم عمر تھا( اور اس کے خوبصورت جسم کو دیکھ کر

آایا تھا۔ خیال

چگدھوں کے پنج__وں جیس__ی تھی۔ پھ__ر اس نے نکے پر سے نگاہ ہٹا کر پہلے اپنے ہاتھ دیکھے۔ جن کی ص__ورت

جب اس نے اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کو دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے ان پ_ر س_ے گوش_ت جھ__ڑ چک_ا تھ__ا۔ اپ_نے

آانکھوں کے گڑھے ٹٹول کر اسے اپنا چہرہ اجن__بی لگ__ا۔ ہاتھوں سے اپنے گال چھوتے ہوئے اسے ان کی ہڈیاں اور

داڑھی کے کھردرے اور روکھے بال اسے اپنے چنڈیوں بھری ہتھیلیوں پر چبھنے لگے۔ اسے لگ_ا جیس_ے وہ کبھی

جوان تھا ہی نہیں۔

جگسیر کو اب یہ بات ایک خواب لگتی تھی کہ وہ کبھی جوانی میں خوبص_ورت اور ص_حتمند تھ_ا۔ کب_ڈی اور

سونچی کے کھیل میں وہ نکے کو بلونگڑے کی طرح تھکا مارتا تھا۔ تمام گاؤں میں دو ل__ڑکے اس کے مق__ابلے

کے تھے۔ شامے کا گیبا اور مگھر بولے کا گھیلا۔

وہ ان س__ے بھی کبھی ہ__ارا نہیں تھ__ا لیکن چ__ونکہ وہ اس کے براب__ر کے تھے اس ل__یے وہ بھی کبھی کبھی ہی

آازاد تھ__ا۔ منت__وں والےبی__ٹے ک__و نن__دی نے کبھی ب__را انہیں مات دیتا تھا۔ ان دنوں جگسیر گھر کے جھمیلوں سے

بھلا نہیں کہا تھا۔کھانے پینے کو اچھ__ا م__ل جات_ا تھ_ا۔ ب_اپ دھ_رم س__نگھ کے س__اتھ بٹ_ائی پ__ر ک_ام کرت__ا تھ__ا اور

جگسیر کے ذمے"اپنے کھیت "کی سنبھال تھی۔ اگرچہ وہ کام سے کبھی جی نہیں چرات_ا تھ_ا ۔ وہ پ_وری ج__ان

مار کے کام میں جٹ جاتا لیکن فراغت کے وقت اس کا سارا دھیان کھیل کود میں رہتا۔

آاہستہ جگس_یر کی کھی_ل ک_ود کی ع_ادت پکی ہ__وتی گ_ئی۔ وہ گیب_ا اور گھیلا ، تین_وں کت_نی دی_ر اکٹھے ، آاہستہ

کھیت میں جا کے مالش کرتے اور کشتی کرتے رہتے۔ ان کی عمر کے ک_ئی ل_ڑکے گھ__روں س_ے چ_وری چراگ_اہ

میں چھپ کے بیڑیاں پیتے اور لڑکیوں کی باتیں ک_رتے۔ ی_ا ب_ازار ج__ا کے دہی بھلے اور الم غلم کھ__اتے رہ__تے۔ ان

کو یہ باتیں اچھی نہ لگتیں لیکن جب کبھی گیبا اور گھیلابھی لڑکیوں کی ب__اتیں کرت_ا ت__و جگس_یر کے رونگ_ٹے

کھڑے ہو جاتے۔ اس کا جی کرتا کہ وہ کبھی ان ک__و کس__ی ل__ڑکی کی ب__ات س__نائے لیکن پھ__ر ش__رم کے م__ارے

اس سے بات نہ ہوتی۔

17

جگسیر کا ان دنوں جسم اتنا سڈول تھ__ا کہ گھیلا ک__ئی ب__ار اس__ے رش__ک س__ے کہت__ا : "کنج__را نہ ج__انے رب نے

تمہیں کس کھراد)خراد( سے بنایا ہے۔ تیری پنڈلیاں بھی چرکھے )چرخے( کی گڈیوں کی طرح چ__اہ س__ے بن__ائی

گئی ہیں۔ کہیں نظر ہی نہ لگ جائے "اور وہ یہ کہہ کر تھوک دیتا۔

گاؤں کی لڑکیوں کی اگر جگسیر پر نظر پڑ جاتی تو وہ کتنی دیر اس کے کسرتی جس__م ک__و دیکھ__تی رہ ج__اتیں

آانکھیں نہ اٹھائی جاتیں اور اس کے ب__اپ کے نص__یحت لیکن جب جگسیر کو اس کا احساس ہوتا تو اس سے

بھ__رے یہ ب__ول اس کے ک_انوں میں گونج_تے: جس_ے گ_اؤں کی بی_ٹی، بہن کی چھ__رم) ش_رم (نہیں وہ بھی ک_وئی

انسان ہے۔ جسے دوسروں کی عزت کا خیال نہیں وہ کوئی انسان ہے جسے اوروں کی عزت کا خی__ال نہیں وہ

اپنی کا کیا کرے گا؟ اسے اپنے باپ اور گ__اؤں کے بزرگ_وں کی ایس_ی ب_اتیں بھول_نے لگیں۔ کبھی کبھی اس ک_ا

آانکھیں پھ__اڑ پھ__اڑ کے دیکھ__نے لگت__ا اور اس__ے اپ__نے من اتنا بے قابو ہو جاتا کہ وہ اپنی طرف دیکھتی لڑکیوں کو

آانکھیں جھک__ا لیت__ا اور وہ__اں س__ے آانے لگت__ا لیکن اگلے ہی پ__ل جب ل__ڑکی ہنس دی__تی ت__و جگس__یر ان__در ای__ک م__زا

چوروں ک طرح جلدی جلدی چلا جاتا۔

جگسیر کے ساتھی کبھی کبھار دارو پیتے تو اسے بھی زبردستی اپنے ساتھ ملا لیتے ۔ جب اسے نشہ چڑھت__ا ت__و

آا کے لڑکیوں کی باتیں کرتا۔ لیکن جب اس کے ساتھی گنڈاسے پک__ڑے گلی__وں میں للک__ارنے وہ بھی ترنگ میں

لگتے ، وہ چپکے سے اپنے کھیت چلا جاتا اور ساری رات گھ__ر نہ لوٹت__ا۔ دارو پی__نے کے بع__د وہ اپ__نے ب__اپ کے

سامنے جانے کا س__وچ بھی نہیں س__کتا تھ__ا۔ گ__اؤں کے لڑک__وں کے س__اتھ م__ل کے گیب__ا اور گھیلا ان کی ط__رح

آاپ کو بچائے رکھتا۔ بیڑیاں پیتے اور دارو پیتے، بدفعلیاں کرتے لیکن وہ پھر بھی اپنے

آاتی، جگس__یر، آاتی ، ڈولی ایک ایک ک__ر کے اس کے اک__ثر ہم عم__روں ک__ا بی__اہ ہ__و گی__ا۔ جب کس__ی کی ب__ارات

کھیلا اور گیبا، تینوں دارو پیتے اور پھر جگسیر کے کھیت کی ٹاہلی کے نیچے رات گذارتے۔

آا گیا۔ نکا ان تینوں کو بارات کے ساتھ لیکر گیا۔ پہلی بار جگسیر نے کسی کی ب__ار ات پھر نکے نائی کا بیاہ

میں شرکت کی تھی۔ نکے کے سسرال جگسیر لڑکیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس نے لڑکی__وں کے منہ س__ے ایس__ے

مذاق کبھی کسی کے بارے نہیں سنے تھے اور وہ پھندے میں پھنسے کسی جانور کی طرح بیٹھا رہا۔ اس ک__ا

18

جواب نہ پا کر لڑکیاں اسے بوجھڑ گھگو، دیوا، گھوگڑاور نہ جانے کیا کی__اکہہ ک__ر اس کی س__دھ م__ارتی رہیں ۔

آاگے س__ے لڑکی__اں اور ت__یز ہ__و آاخ__ر گھیلا ہی ان کے س__اتھ ن__بڑا لیکن اس سے پھ__ر بھی ک__وئی ج__واب نہ بن پ__ڑا ت__و

جاتیں۔ ان میں سے کوئی کہتی"، تو اس کا اردلی نہ بن۔ اس نے منہ میں گھنگنیاں ڈالی ہوئی ہیں۔"

"ویسے تو دیکھنے میں خوبصورت ہے لیکن لگتا ہے منت سماجت سے ہی اوں اوں کرتا ہو گا۔ "

آائی ت__و ان س__ب نے دارو پی۔ آانے لگ_ا اور جب ب__ارات واپس آاہس_تہ جگس__یر ک__و لڑکی__وں کی ب__اتوں میں م__زا آاہس__تہ

گھیلے نے گیبے سے مشورہ کیا کہ نکے کی دلہن کو دیکھا جائے لیکن دارو پینے کے بعد جگسیر ک__ا کس__ی

کے گھر جانا مشکل تھا۔ اس لیے اس نے دونوں کو یہ پروگرام کسی اور دن کرنے کا کہہ کر راضی کر لیا۔

تیسرے دن نکے کی بیوی میکے گئی تو سسرال نزدیک ہونے کی بنا پر نکا بھی ساتھ گیا اور تیس__رے دن بی__وی

کو ساتھ لایا۔ اس بات کے تیسرے دن انہوں نے نکے کو کھلیانوں کے پاس ہی گھیر لیا۔

“چرخے کے تکلے کے منہ والے کیسے ہو؟ بیوی دکھ_انے س_ے بچ_نے کے ل__یے ب__ات ہی نہیں ک__رتے ہ__و۔ وہ کی__ا

آانے کی ن__ائن بی__اہ کے س__کندر ب__نے پھ__رتے ہ__و! "بن__در کے منہ والے ک__و ان__در کے اکھ__اڑے کی پ__ری ہے؟ اڑھ__ائی

دیکھ__و ت__و!” گھیلے نے دانت نک__وس ک__ر کہ__ا۔ “ہ__ونہہ “نک__ا دانت نک__التے ہ__وئے ب__ولا۔ دیکھ__و کیس__ی ڈم__اک

آا رہی ہیں۔" )دماغ (میں تمہارے باتیں

آائی ہو۔" "ڈماک )دماغ (تو تمہارا اونچا ہوا پھرتا ہے۔ ایسے اتراتے ہو جیسے کھوتی تھانے سے ہو کر

آاج سالے کو مزا چکھانا ہی پڑے گا۔" گیبے نے نکے کو بازو سے کس کے پکڑا اور کہا۔ "اس کو مور بنا کر "

آاگے ڈالیں گے۔ زمین پ__ر۔ پھ__ر اس کی چھ__وئی م__وئی بی__وی ک__و دیکھیں گے۔ یہ پھ__ر دھ__وپ میں چیون__ٹیوں کے

مکئی کے سٹے کی طرح سیدھا ہو گا۔"

"ہ__ونہہ" نکے نے نتھ__نے پھلا کے دانت نک__التے ہ__وئے کہ__ا۔" ت__و منہ دکھ__ائی ت__یرا تای__ا دگی__ا ۔ "ہم دیں گے"

جگسیر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ریزگاری کھنکھنائی ۔" یار تو نے ہمیں فقرا سمجھ رکھا ہے؟"

"دیکھ تو سخی " ۔ نکا بولا۔ "پانچ سیر لڈو لگیں گے اور تم چار پیسے لے کر اترا رہے ہو۔"

19

"ٹ__یڑھے منہ والے ہم پ__انچ س__یر ل__ڈو بھی نہیں لا س__کتے؟ "گھیلے نے نکے کوچپ__یڑ م__ار ک__ر کہ__ا اور س__ارے ہنس

دئیے۔ پھر وہ نکے کو باتوں میں لگا کر اسے زبردستی اپنے ساتھ لے گ__ئے اور دس__وندھی کی دک__ان س__ے گھیلے

نے سوا روپے کے لڈو خرید کر رومال کے پلو میں باندھ لیے جب نکے کو جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ملا تو

آاگے چلنے لگا۔ آاگے وہ خاموشی سے

آاگے م__رو۔ آاہس_تہ ان کے پیچھے ہ__و لی_ا۔ "اب آاہس_تہ لیکن گھر کے نزدیک پہنچ کر اس ک_ا چہ_رہ ات__ر گی_ا اور وہ

"گیبے نے اسے بازو سے پکڑ کر دھکا دیتے ہوئے کہا۔ "کیسے چھپ چھپ کے چل رہے ہو۔سالا لڑکی__وں کے

بعد جنا!"

"اوئے ایسا نہ کہو" گھیلے نے اسے جھڑکنے کے انداز میں جگسیر کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہ__ا

"لڑکیوں کے بعد جنا ایک اور بھی ہمارے ساتھ ہے۔" اور جب ان سب نے جگسیر کی طرف دیکھا ت__و اس نے

آانکھیں جھکا لیں۔

دروازے کے پاس مجمع دیکھ کر پہلے تو نکے کی ماں جھجکی پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی

"ماں۔صدقے یہ تم نے اکٹھے ہو کر میرے ماؤں کو پکڑ رکھا ہے۔ "

"تیرا ماؤں تو بیاہ کر ا کےنیلگری کا راجہ بنا پھرتا ہے ۔" گیبے نے ہنس کے جواب دی__ا۔نہ ج__انے یہ تین دن س__ے

آایا ہے۔ جب ہم نے کہا اپنی بی__وی دکھ__ا ت__و یہ ہم__ارے پ__اؤں آاج مشکل سے ہاتھ کس تہہ خانے میں غائب ہے۔

آاکاش پری کو نجر )نظر(لگ جائے گی" ہی نہیں لگنے دیتا۔ کہتا ہے "ہماری

آاپ س__و دفعہ "نہیں بیٹا" تمسخر کرتے اور نکے کو قیدیوں کی طرح بازو سے پکڑے دیکھ کر وہ ب__ولی "بہ__و ت__و

آاسمان سے تو اتری نہیں لیکن میرے ماؤں کو تنگ نہ کرو۔ بڑی مش__کل س__ے وہ پھل__دار ہ__ونے دیکھیں۔ وہ کوئی

لگا ہے۔"

اور وہ سب کھلکھلا کے ہنس پ_ڑے۔ نکے کی م_اں نے دروازے میں س_ے چ__رخہ ق_درے ای_ک ط_رف کھس_کاتے

آامدے میں بیٹھی ہے۔ ویسے یہ ہے کھاتے پیتے گھر سے ۔ کہیں خ__الی ہ__اتھ ت__و نہیں آا جاؤ۔ یہ بر ہوئے کہا۔ "لو

آا گئے؟"

20

آائے ہیں۔ یہ دیکھو اس کی منہ دکھائی۔ "گھیلے نے رومال کے پل__و س__ے "تائی ہم سارے انتجام )انتظام(کر کے

آاگے دھکیل__تے ہ__وئے کہ_ا "اور یہ ہے اس بندھے لڈودکھا کر کہا اور ساتھ ہی نکے کی گردن سے پکڑ ک_ر اس__ے

چھگو۔۔۔" کا گ

آاہستہ گیبے نے بات پوری کر دی۔ "رات کی بدنامی" پیچھے سے بہت

آامدے میں پیڑھی پر بیٹھی ، نکے کی بی_وی چ_نی پ__ر گوٹ_ا لگ_ا رہی تھی۔ ان ک_و وہ سارےاندر داخل ہو گئے۔ بر

آاتا دیکھ کر اس نے چنی گھٹنوں میں دبالی اور ان کی طرف پیٹھ کر کے نقاب ک_و اور لمب_ا ک_رتے ہ_وئے گچھم

گچھا ہو کر بیٹھ رہی۔

"بلے" گھیلے نے اسے سناتے ہوئے کہا "یارو یہ تو نکے کا بھی استاد لگتی ہے! پہلے ہی س__ے چ__الیں چ__ل رہی

ہے"

آاگے کی طرف دھکا دیتے ہوئے کہا"ی__ا ہم خ__ود ہی نم__ٹیں؟ بع__د میں پھ__ر آاگے ہونا" گیبے نے نکے کو پھر "اب

گلہری کی طرح چخ چخ نہ کرنا"

"ہونہہ۔ اب پھنس گئے تو ہاتھ پیر کیا مارنے اب تمہارے بس پڑ گ__ئے۔ ج__و م__رجی)مرض__ی( ک__رو" نکے نے اپ__نی

اور بیوی ، دونوں کی، بے بسی کو ملا جلا کر کہا۔

"اچھا تو پھر ایک ط_رف ہ_و ج_اؤ" گھیلے نے اس_ے کہ_نی م_ار کے ای_ک ط_رف ک_رتے ہ_وئے کہ_ا۔"اب ایس_ے ہی

آاواز میں نکے کی م__اں س__ے کہ__ا "ت__ائی میں ہی ان ڈنڈے کی طرح بیچ میں مت کھڑا ہ__و۔ "پھ__ر اس نے اونچی

سب سے چھوٹا ہوں نا؟"

"اب تو تم سارے ہی چھوٹے ہو"۔ اس نے ہنس کے ج_واب دی_ا پھ__ر کچھ س_وچ ک_ر ب_ولی ۔ "ویس_ے ت_و تم س_ب

سے چھوٹے ہوئے لیکن تمہاری عمروں میں دو، چار ماہ کا ہی فرق ہے۔میرا ماؤں تم سب سے بڑا ہے"

"اوئے بوڑھے ہٹ جاؤ ایک طرف! پہلے چھوٹے دیور کی باری ہے" کہتے ہوئے گھیلا اچک کے نکے کی بی__وی

کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

21

نکے کی بیوی نے گھونگھٹ میں سے اسے تھوڑا سا دیکھا اور گچھم گچھا ہو گئی۔

آاپ کی گھیلا اس کے سامنے بیٹھ گیا اور لڈوؤں والا رومال اس کے س__امنے رکھ کے ب__ولا۔ "یہ ل__و موتی__وں وال__و۔

نجر)نظر( کے سامنے۔ اگر کوئی اکڑ پھکڑ کی تو ت__یرے خص__م ک__و ٹٹ__و بن__ا ک__ر ویہ__ڑے میں گھم__ائیں گے۔ پھ__ر

چاہے ہاتھ پاؤں پڑنا، ہم نے نہیں چھوڑنا۔" اس کی باتیں سن کر نکے کی بیوی کو بے اختیار ہنسی نکل گ__ئی۔

لیکن چونکہ اس نے دہری چنری میں منہ چھپا لیا تھا کسی ک__و ہنس_ی س_نائی نہ دی۔ نہ اس نے ح__رکت کی اور

نہ ہی اس نے لب کھولے۔

"نکے اس کو سمجھا لو۔ اگر تو سمجھ جائے تو اچھی بات ورنہ پھر ہم جاٹوں والا سلوک کریں گے"

آاس جا کھڑا ہوا۔ گیبے نے کہا اور وہ بھی گھیلے کے

آاہستہ سے بولا۔ "ہوں" نکے نے دانت نکالتے اور ماں کی طرف دیکھتے ہوئے چوروں کی طرح

آاوارہ کتے اکٹھے ہو گئے ہیں" آانا۔ یہ سارے "اٹھا دے، اٹھا دے انہوں نے باز نہیں

"دیکھ تو بڑا س_یٹھ! روز ت_و ہم_ارے س_امنے تن_ور والی س_ے ج__وتے کھات_ا ہے۔تب ت_و اس_ے کہیں چھپ_نے کی بھی

آاہس_تہ س_ے کہ_ا۔ نک_ا ہ_وں ہ__وں ک_رتے ہلکی ہلکی جگہ نہیں ملتی!" گھیلے نے نکے کو چ__ڑانے کی غ_رض س_ے

آایا۔ ہنسی ہنسنے لگا لیکن اسے کوئی جواب ہاتھ نہ

آائی اور توتلی زبان میں بولی" بھائی بھابھی کا منہ بیکھنا )دیکھنا اسی وقت نکے کی بہن باہر سے دوڑی دوڑی

(ہے؟ لو میں تمہیں بکھاتی)دکھاتی (ہوں "اور اس نے بچوں کی ہنسی ہنستے ہوئے بھابھی کے سر پر س__ے دوپٹہ

آادھا سر ننگا ہو گیا۔ کھینچ دیا۔ اس کا

چگدا "کڑئ__یے یہ تماش__ا نہ ک__رو" نکے کی م__اں نے اس__ے جھڑک__ا لیکن بچی نے دوپٹہ اور کھینچ__ا اور ص__حن میں

ناچنے لگی۔

نکے کی بیوی شرم سے دہری تہری ہو گ__ئی لیکن جب ای__ک ہ__اتھ س__ے چ__نی کھینچ ک__ر ، ٹ__یڑھی ہ__وتے ہ__وئے وہ

دوبارہ گھونگھٹ نکالنے لگی تو اس کے چہرے کا بایاں حصہ پیچھےکھڑے جگسیر کو دکھائی دی__ا۔ جیس__ے

22

آانکھیں اور لم__بی لم__بی بجلی چمکی اور جگسیر کا جسم شل ہ__و گی__ا ایس__ی کش__ادہ پیش__انی، ات__نی خوبص__ورت

آاج معل__وم ہ__وا۔ پلکیں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔عورت میں اتنی کشش بھی ہ__وتی ہے؟ جگس__یر ک__و

آاگے جیسے اندھیرا چھا گیا۔ آانکھوں کے وہ وہاں کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ اس کی

آاواز میں "بس جھلک ہی دیکھی ہے یارو۔ درچھن)درشن( تو ہوئے نہیں۔ ایسےہی تکلف کیا "گھیلے نے ڈھیلی

تمسخر کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

نکے کی بیوی نے گھونگھٹ کھینچ کو دوبارہ چنی میں منہ چھپا لیا۔

"ل__و بچے کت__نی دی__ر؟" نکے کی م__اں نے کہ__ا "یہ دو چ__ار م__اہ مش__کل ہیں چ__اہے تہہ خ__انے میں رہے پھ__ر ت__و یہ

تمہارے گھروں میں بیاہ شادیوں پر کام کرے گی"

"جب ک__ام ک__رے گی تب دیکھی ج__ائے گی۔ ابھی ت__و می__ڈیم ب__نی بیٹھی ہے" گی__بے نے کہ__ا اور اس کی ب__ات

مکمل کرتے ہوئے گھیلا بولا " نکے صاحب کی میم ہے بھائی کوئی مکھول )مخول( ہے "اور وہ س_ارے ہنس_تے

ہنستے باہر کو چلے گئے۔ لیکن جگسیر کھل کے نہ ہنس_ا جیس_ے اس کے ان_در کچھ اتھ__ل پتھ__ل ہ__و رہی تھی۔

آا گیا ہو۔ نگاہیں نیچے کیے وہ ان کے ساتھ یوں چل رہا تھا اس کے پاؤں یوں بے ترتیب پڑ رہے تھے جیسے زلزلہ

جیسے اس کے اوسان خطا ہو گئے ہوں۔

اس کے بعد جگسیر نے کئی دن تک گھیلے اور گیبے کے ساتھ کھل کر بات نہیں کی۔ جیسے اس کے ان__در

ہی اندر کوئی بات تھی۔ راتوں کی نیند غائب ہو چکی تھی۔ ک__ام میں اس ک__ا جی نہیں لگت__ا تھ__ا۔ وہ س__ارا دن

اپنے کھیت کی ٹاہلی کے نیچے بیٹھا رہتا۔

چوتھے دن گیبے نے اس کو بازو سے پک_ڑ ک_ر پوچھ_ا"اوئے وڈی_ا مجن_وں! کی_ا ب_ات ہے؟اوپ_رے اوپ_رے ہ_و رہے ہ_و

جیسے تمہاری ماں مر گئی ہو؟"

آائی۔ جگسیر نے ہنسنے کی کوشش کی مگر اسے ہنسی نہ

"ی__ونہی، کچھ دن__وں س__ے جس__م درد ک__ر رہ__ا ہے اور ت__و ک__وئی ب__ات نہیں" اس نے اوپ__ری اوپ__ری مس__کراتے ہ__وئے

جھوٹ بولا۔

23

"بیوقوف بناتے ہو" گیبے نے کہا"چوروں سے گلیاں چھپی تو نہیں رہتیں۔ دوس__ت ج__و بیم__اری تمہیں لگی ہے یہ

جان لے کے چھوڑتی ہے۔ بچن__ا ہے ت_و بچ ج__اؤ ورنہ وہی ب__ات ہ_و گی کہ "ع__ورت ب__ارش اور بیوق_وف دوس_ت س_ے

بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ ورنہ ختم ہو جاؤ گے"

تب تو جگسیر نے ہنس کر بات ٹال دی لیکن کچھ دنوں کے بعد گی__بے کی یہ ب__ات اس__ے س__چی لگ__نے لگی۔

دن بدن وہ کمزور ہوتا گیا پہلے کی طرح نہ وہ کشتی کرتا نہ کوئی اور کھی_ل کھیلت_ا اور نہ ہی لڑک_وں کی ہنس_ی

میں شامل ہوتا۔ سارا دن گم سم رہتا۔

آاہستہ اسے شک ہونے لگا کہ اسے واقعی کوئی بیماری لگ رہی تھی۔ پھر اس کے اندر سے ایسا اب__ال اٹھ__ا آاہستہ

کہ وہ اس__ے نہ روک س__کا۔ وہ بہ__انے بہ__انے س__ے نکے کے گھ__ر کے س__امنے س__ے گ__ذر نے لگ__الیکن اس کے

آاگے بڑھ پات__ا اور نہ پیچھے۔ ک__ئی ب__ار گلی کی نک__ڑ پ__ر پہنچ دروازے پر جا کر جیسے اسے سکتہ ہو جاتا۔ نہ وہ

آا جاتا۔ پانچ سات دن کے بعد اس ک__ا دل اتن__ا منہ زور ہ__و گی__ا کہ کر دور ہی سے دروازے کو دیکھ کر وہ واپس

وہ بہانے بہانے سے نکے کے گھر جا کے اس کی ماں کے ساتھ باتیں کرنے لگ__ا یہ س__وچ ک__ر کے بھی کہ اس

آا گی__ا کہ ت__ائی نک__ا کہ__اں ہے؟ اگ__رچہ کی چوری پکڑی جائے گی۔ ایک دو ب__ار ت__و وہ ص__رف یہ پ__وچھ ک__ر واپس

اسے یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ نکا کہاں ہے اور وہ اسے اس کے س__اتھ کچھ ک__ام بھی نہیں ہوت__ا تھ__ا۔ جب نکے

کی ماں پوچھتی"کیوں بیٹے کوئی کام تھا؟" تو وہ نیچی نظریں کر کے "ہاں" کہہ دیتا۔ لیکن اس چھوٹی چ__ال

پر وہ شرمندہ ہو جاتا اور پھر وہ کئی کئی دن نکے کے گھر کا رخ نہ کرتا۔

نکے کی بیوی بھانی مہینہ بھر کا مکلاوے پر رہی۔ اس پورے ماہ میں جگسیر کتنی بار ان کے گھ__ر گی__ا لیکن

تمام جتنوں کے باوجود وہ اس کے رنگ روپ ک__و جی بھ__ر کے نہ دیکھ س__کا۔ کبھی ک__ام میں ج__ٹی بھ__انی ک__ا

تھوڑا سا چہرہ دکھ جاتا۔ کبھی کہنی تک ننگا بازو تو کبھی پازیب سے سجے نازک پ__اؤں۔ لیکن کبھی کبھ__ار

اس کے روپ کے لش__کارے، اس کی منہ دکھ__ائی والے دن، اس کے ان__در بن__نے والے نق__وش ک__و اور گہ__را ک__ر

آا جاتی گلابی گولر دیتے۔ اور جب وہ گھر لوٹتا تو اس کے اندر اس کے نین نقش کی شکل پوری طرح ابھر کر

آانکھیں ، چودھویں کے چاند جیسا ماتھا، تیکھی ن__اک اور لم__بی جیسے اس کے مسکراتے ہونٹ، تیکھی کالی

آائی تھی۔ ک_ئی ب_ار گلی میں گ_ذرتے ہ__وئے اس__ے گردن۔ یوں لگت_ا تھ__ا جیس_ے اس کی م__ورت اس کے ان__در ابھ__ر

24

آا رہی ہ__و۔ وہ م__ڑ کے دیکھت_ا اور پھ__ر ہلکی س_ی اداس مس__کراہٹ کے دھ__وکہ ہوت__ا جیس_ے بھ__انی اس کے پیچھے

ساتھ چل پڑتا۔

آای__ا ت__و نک__ا ان دون__وں ک__و دروازے ت__ک چھ__وڑنے گی_ا۔ بھ__انی ک__ا بھ__ائی ایک ماہ بعد بھانی کا بھائی اس__ے لی_نے

چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔ تبھی جگسیر بھی اپنے گھیت گندم کو گوڈی کر رہا تھا۔ بھانی نے منہ دکھ__ائی والے

دن کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ دور سے جب جگسیر کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ ک__ام چھ__وڑ کے بھ__انی ک__و ب__ٹر

آاگے چل__تے نکے ک_ا خی__ال رہ__ا اور نہ ہی بھ_ائی کے س__اتھ بیٹھے اس آاگے بٹر تکنے لگا۔ اسے نہ ہی مہار پکڑے

آانکھیں ڈالیں اور پھ__ر ہلک__ا س__ا گھ__ونگھٹ نک_ال ک__ر آانکھوں میں کے بھائی کا۔ بھانی نے ایک بار جگسیر کی

آار پ__ار آانکھوں کے آانکھ ورمے کی مانند جگسیر کو اپنی دونوں مسکرا دی۔ گھونگھٹ میں سے مسکراتی بائیں

آانکھیں گاڑے ادھر دیکھتا رہا۔ محسوس ہوئی۔ وہ بھورے سانپ کی طرح ،

آاواز سنی تو اس کا خیال منتشر ہوا۔" دو جکیا)اوئے دوزخی( کیسے ہو؟" "ہوں" جب اس نے نکے کی

"تیری مہربانی ہے بھائی" جگسیر نے بے دھیانی سے کہا اور اپنے کام لگ گیا۔

آاواز کتنی دیر ت__ک س__نائی دی__تی رہی۔ لیکن پھ__ر اس نے س__ر اٹھ__ا کے وہ دور ہوتے گئے اور اونٹ کے چلنے کی

آانکھ__وں میں چھی__د ک__ر دی__ا ہ__و اور ادھر نہ دیکھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بھانی نے اس کی دون__وں

اب اس سے اچھی طرح دیکھا بھی نہ جا سکتا تھا۔ اس رات جگس__یر، گھیلے کے ب__اڑے میں س__ویا ۔ اس کی

آائی۔ حالت دیکھ کر گھیلے نے اسے دو گھونٹ پلا دی لیکن پھر بھی اسے ساری رات نیند نہ

بھانی نے سارا جاڑا میکے گ__ذارا۔ یہ دو تین مہی__نے جگس__یر اداس اداس رہ__ا۔ اس ک__ا جی کہیں نہیں لگت__ا تھ__ا۔

آات__ا کہ وہ ت__و میکے گ__ئی جب بہت اداس ہو جاتا تو نکے کے گھر کی ط__رف چ__ل دیت__ا لیکن جب اس__ے خی__ال

آاتا کئی بار اس کے گھر جا کر نکے کی م__اں س__ے ب__اتیں کرت_ا۔ جت_نی دی_ر وہ ان کے گھ__ر پ_ر ہوئی تھی وہ لوٹ

رہتا اسے روٹیاں پکاتی برتن مانجتی اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتی بھانی کا دھوکہ ہوتا۔ اپنی اس حالت ک__و

وہ نہ سمجھ پات_ا اور وہ پک_ا ارادہ ک_ر لیت_ا کہ جب ت_ک بھ_انی میلے س_ے نہیں ل_وٹے گی وہ نکے کے گھ_ر نہیں

جائے گا لیکن پانچویں ، ساتویں دن اس کو اپنا وعدہ توڑنا پڑتا۔

25

آائی ، سارے گاؤں کا رنگ و روپ ہی بدل گیا۔ اجاڑ گاؤں اس نے یہ دن بڑی مشکل سے کاٹے اور جب بھانی

میلے میں بدل گیا۔

آایا ہے؟" اس نے نکے کی چھوٹی بہن سے پوچھا۔ "کڑے سیبو تیرا بھائی تیری بھابھی کو لے

آائی ہے۔ آاج ص__بح" اور وہ ای__ک ہی س__انس میں کہہ گ__ئی۔ "بھ__ائی دیکھ__و م__یری بھ__ابھی بہت کچھ لے "ہ__اں!

ساتھ وہ شیشوں والا ایک چھوٹا سا ٹرنک، خوبصورت کپڑے، رنگ برنگے لائی ہے۔ اس شیشوں والے ٹرنک میں

کیا کچھ ہے۔ دنداس__ہ، ن__ئی کنگھی اور چھ__وٹی چھ__وٹی شیش__یاں اور اس کے ک__رتے ک__و تمہ__ارے ک__رتے جیس__ے

سونے کے بٹن بھی لگے ہوئے ہیں۔"

جگسیر نے اپنے کرتے کے بٹنوں کو دیکھا ۔ وہ چاندی کے تھے اور وہ ح__یران ہ__وا کہ اپ__نے ب__اپ کے یہ بٹن اس

نے کب لگوائے تھے؟ اسے شرمندگی سی ہوئی اور اس نے ان پر ہاتھ رکھ دیا ۔ سیبوسے اور ک__وئی ب__ات پ__وچھے

بغیر وہ گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر جا کر اس نے وہ بٹن اتار دئیے۔

دو دن جگسیر نکے کے گھر نہ جا سکا اور اس کے اندر ایک کھینچا تانی ہونے لگی۔

آانکھیں پھاڑے اس__ے دیکھ رہے ہیں اور وہ کس__ی ک__و دیکھ__نے کی جب وہ گھر سے نکلتا تو اسے لگتا کہ لوگ

جرات نہیں کر سکتا۔ اسے ایسا لگتا تھاجیسے بھانی کی اس کے لیے کشش کا سارا گاؤں واقف ہ__و گی__ا تھ__ا۔

آا گیا تھا۔ ان دو دنوں میں وہ کئی دفعہ نکے کےگھر جانے والی گلی کے موڑ سے واپس

آاہس__تہ س__ے کہ__نے تیسرے دن گھیلا اسے کھلیان کے پاس ملا۔ اسے سست دیکھ کر پہلے تو وہ مسکرایا۔ پھر

آاگے پیچھے کی__ا دیکھن__ا۔ پھ__ر پی__الہ لگا "کیسے ہو عاشق؟" ابھی ہیر سے ملاپ نہیں ہوا۔ اب کان چھ__دوا ل__و۔

ت__وڑ کے اس کے گھ__ر کے ب__اہر ٹھیکری__اں اکٹھی ک__رنے ج__ا بیٹھن__ا۔ پہ__ر ، دوپہ__ر کے بع__د کبھی ت__و پہچ__انے

گی"جگسیر نے مسکرا تو دیا لیکن اسے گھیلے کا یہ مذاق اچھا نہ لگا۔

ربی کی کٹائی زوروں پر تھی۔ زمیندار اجرتی مزدوروں کی مدد سے فصل کو خراب ہونے سے بچ__انے کے ل__یے،

جلدی جلدی کٹائی کروانا چاہتے تھے۔ جگسیر بھی دھ__رم س__نگھ کی کٹ__ائی کرت__ا تھ__ا لیکن وہ ج__ان م__ار کے

آادھے ،اس ک_ا م__ذاق اڑاتے۔ جگس_یر ک_و کام نہیں کر سکتا تھا۔ وہ سب س_ے پیچھے رہت_ا۔ ج__ان میں اس س_ے

26

آاتا۔ وہ ہمت کر کے ک_ام ک_و ش_روع کرت_ا مگ_ر کچھ دی_ر بع_د اس_ے کچھ اور س_وچیں گھ_یر اپنی سستی پر غصہ

آاہستہ چلنا شروع کر دیتی بالکل ایسے جیسے اس کے دندانے جھڑ گئے ہوں۔ لیتیں اس کی درانتی

آاگے س_ے گ_ذا۔ ابھی ش_ام چوتھے دن وہ گاؤں کی طرف م_ڑتے ہ_وئے وہ اوپ_ری راس_تہ لے ک_ر نکے کے گھ_ر کے

آاگے پیچھے دیکھ ک__ر ،پ__اؤں گھس__یٹ ک__ر ،نکے کے ہ__وئی تھی اور گلی میں ان__دھیرا تھ__ا۔ وہ چ__وروں کی ط__رح

گھر جھانکا۔ اسے روٹیاں پکاتی بھانی کی پیٹھ دکھائی دی اس کے اونچے ہ__وتے ہ__وئے س_ر کے پ_ر ان__دے کے

ساتھ لگے لوگڑی کے پھول، ململ کی باری_ک چ__نی میں س_ے دکھ رہے تھے اور وہ کھ_ڑا ک_ا کھ__ڑا رہ گی_ا۔دئ__یے

آانکھ آادھے گھ__ونگھٹ س__ے جھ__انکتی اس کی کی مدہم ل__ویں یہ پھ__ول اس__ے اس دن اونٹ پ__ر بیٹھی بھ__انی کے

آایا۔ لگے۔ ایک لمحہ بعد ہی اسے پاؤں کی چاپ سنائی دی تو وہ وہاں سے چوروں کی طرح جلدی سے چلا

رات اس نے تارے گن کے بتائی۔ تیتر کے پروں طرح بکھرے ب__ادلوں کی ٹکڑی__وں میں س__ے وہ بھ__انی کے نق__وش

آائے۔ ایس__ے خوبص__ورت س__پنے اس نے اس س__ے پہلے نہیں ڈھون__ڈتا رہ__ا۔ نین__د میں بھی اس__ے بھ__انی کے خ__واب

دیکھے تھے۔

اگلے دن وہ سو کر اٹھا تو اس کے چہرے پر سکون کی رونق تھی۔ کھیت میں اس نے دوپہ__ر کے کھ__انے کے

وقت تک خوب کام کیا لیکن دوپہر ک__و وہ پھ__ر انہی اجن__بی خی__الوں کی رو میں بہ__نے لگ__ا اور اس کی دران__تی

آاہستہ چلتے چلتے گھسٹنے لگی۔دھرم سنگھ نے جب دیکھا کہ وہ دھیان سے کام نہیں کر رہا ت__و اس نے پ__اس

آانا۔" جگسیر ک__و ش__ائد آاؤ۔ ساتھ منوں کو بھی لے آا کر کہا : "جاؤ گھر سے دیہاڑی داروں کے لیے چائے لے

آا ک_ر اس_ے لگ_ا جیس_ے وہ کس_ی وی_رانے اسی بات کا انتظار تھا اور وہ خاموشی سے گاؤں کی طرف چلا۔ گاؤں

آا گیا ہو۔ بیساکھ کا دوپہر تھا۔ لوگ کھیتوں ، کھلیانوں میں تھے اور گھروں میں صرف عورتیں اور بچے۔ میں

آا گی__ا۔ ان کے گھ__ر ت__ک ت__و وہ نیچی نگ__اہ ک__یے جگسیر اسی وقت اوپری راستے سے ہو ک__ر نکے کی گلی میں

آاگے پیچھے دیکھ ک__ر جل__دی جل__دی ان__در چلا چلتا رہا لیکن جب دروازے پر پہنچا ت__و رات کی ط__رح اس نے

آاواز دی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ آاگے بڑھ کر گیا۔ "نکیا" اس نے دروازے سے دو قدم

27

آاواز س__نی ت__واس آاواز دی"وہ تو گھر نہیں" اس نے سارنگی سے نکلتی سریلی آاگے بڑھا اور ایک اور وہ دو قدم اور

کے پاؤں تھڑک گئے اور اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔

آام__دے میں بیٹھی اس__ے بھ__انی دکھ__ائی دی۔ اکیلی، ک__وئی اور گھ__ر میں نہیں تھ__ا۔ اس نے غ__ور کی__ا ت__و اگلے بر

جگسیر کا دل دھڑکا اور اس نے مڑ کے دیکھا۔ گلی میں کوئی نہ تھا۔

آاواز اجنبی لگی۔ "نکا کہاں ہے؟" اس نے پوچھا۔ اسے اپنی ہی

چچنی کا پلو تھوڑا کھینچ لیا۔ جگسیر نے دیکھا وہ گھونگھٹ میں سے ٹیڑھی نگاہ "فصل ڈھو رہا ہے" بھانی نے

اس پر ڈالے ہوئے تھی۔ سنگترے رنگ کے دوپٹے میں سے جھانکتے ، دنداسے سے چمک__ائے دانت، اس__ے ان__ار

کے دان__وں کی ط__رح لگے۔ وہ مس__کرا رہی تھی۔ جب جگس__یر اس کی نگ__اہ کی ت__اب نہ لا س__کا ت__و اس نے

آانکھیں جھکا لیں۔

"کوئی کام تھا؟" اسے خاموش دیکھ کر بھانی نے پھر پوچھا۔

"ہاں"

"کیا مجھے بتانے والا نہیں ؟"

جگسیر پر جیسے سکتہ چھا گیا۔ ایک لمحے کے لیے اسے ک_وئی ج__واب نہ بن پ__ڑا لیکن پھ__ر اس نے ہمت ک_ر

کے نگاہ اٹھائی۔ بھانی ابھی بھی گھونگھٹ میں سے اسے ٹکٹکی بان__دھے دیکھے ج__ا رہی تھی اور وہ پ__اگلوں

کی طرح اسے دیکھنے لگا۔

"کیا بات ہے؟ تمہاری عقل تو نہیں ماری گئی ہے"بھانی کی بے اختیار ہنسی نکل گئی۔

اور اس کے ہاتھ سے چنی کا پلو چھوٹ گیا۔

چسن ہ__و گی__ا۔بھ__انی کی ایس__ی دل__یری اور اس کے وہی چان__د کی ٹک__ڑی جیس__ا چہ__رے ک__ا بای__اں حص__ہ جگس__یر

چہرے کی برقی چمک نے اس کے سارے بدن کو جھنجوڑ دیا۔

آانکھیں جھکا لیں۔ "ایسے ہی، ایسے ہی۔۔۔ایسے ہی" وہ بغیر مطلب کے کہتا گیا اور شرم سے

28

"بیٹھ جاؤ پھر۔ پانی وانی پی لو" بھانی نے پہلے کی طرح ہنس کے کہا۔ اس نے گھونگھٹ کا پلو دوب__ارہ نہیں

پکڑا۔

"بس ۔بس چلتا ہوں" وہ ویسے ہی نیچی نگاہ کیے چل پڑا اور واپس ہوتے ہوئے وہ کوشش کے ب__اوجود بھ__انی کے

آانکھ نہ ملا سکا۔ جگسیر نے جاتے جاتے بھانی کا تمسخر بھی سنا لیکن اسے پیچھے م__ڑ کے نہ دیکھ__ا ساتھ

گیا۔

آایا ک__رو۔ اس ط__رح ڈر کے کچھ نہیں ملت__ا۔ چن__دریا جتن__ا رب نے "اگر کچھ کرنا ہے تو سیدھے سیدھے سامنے

چپنابھی دیا ہوتا۔ اس کی رانیں دیکھو جیسے کھ_راد )خ__راد( پ_ر ب_نی ہ_وں۔ دل کرت_ا تمہیں حسن دیا ہے کاش مرد

ہےخربوزے )کھربوجے(کی طرح دانتوں سے کاٹ کاٹ کر کھا لوں!"

جگسیر نے دروازے پر پہنچ کر جیسے سپنے میں کہے گئے یہ الفاظ ج__و بھ__انی نے منہ ہی منہ میں کہے تھے،

آانکھیں س__نے ت__و اس کی نگ__اہ ای__ک لمحے کے ل__یے م__ڑی۔ لیکن اب ت__ک ب__ات الٹ ہ__و گ__ئی تھی۔ بھ__انی کی

جگسیر کی نگاہ کی تاب نہ لا سکیں۔ اس نے گھ__ونگھٹ کھینچ ک_ر نگ_اہیں جھک__ا لیں لیکن اس کے ہونٹ__وں

پر مسکان باقی تھی۔

آایا تو نکے کی چھوٹی بہن اسے ملی۔ جگسیر گلی سے باہر

آائے ہو؟ " اس نے بے باکی سے پوچھا۔ "بھائی ہمارے گھر

"نہیں۔ہاں" وہ چکرا سا گیا اور چل دیا۔

جگسیر کے جسم میں ایک مٹھاس رچتی گ__ئی اور پھ__ر وہ اس کی نس نس میں س__ما گ__ئی۔ گھ__ر س__ے کھیت__وں

آای__ا لیکن جب اس نے گھ__ر کے ان__در جھانک__ا ت__و اس__ے کی طرف جاتے ہوئے وہ پھ__ر نکے کی گلی س__ے ہ__و ک_ر

کوئی دکھائی نہ دیا۔ دروازے سے گذرتے گذرتے اس نے نکے کی ماں کو پچھلے کمرے سے نکل ک__ر رس__وئی

کی طرف جاتے دیکھا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اگرچہ بات معمولی تھی لیکن جگس__یر ک__و لگ__ا جیس__ے ک__وئی

خاص بات ہو گئی ہو۔ وہ بے یقینی کے عالم میں پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا لیکن اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔

29

آادھی رات تک نہ سو سکا۔ اس کی سوچ میں خوش__ی کے س__اتھ اداس__ی م__ل گ__ئی تھی اور ان اس رات جگسیر

میں سے کسی کا پلڑا بھاری نہیں ہو رہا تھا۔ چھت پر لیٹے اسے کبھی اپنے گاؤں کی س__اری من_ڈیریں ن__ئی ن__ئی

پوچ__ا ک__یے لگ__تی تھیں کھلی__انوں س__ے راکھی__وں کی کوٹھری__وں س__ے لم__بی ت__انیں من موہ__نی لگ__تیں اور ت__اروں کی

آای__ا روشنی میں دودھیا پروں والے بگلوں جیسے اڑتے دو پرندے اسے ہنسوں کی جوڑی لگتی جن پ__ر بس__نتی روپ

ہوا تھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے گاؤں کے س__ارے گھ__ر اج__اڑ اور کھن__ڈرلگتے۔ س__تاروں کی ملگجی روش__نی کی

آار پ__ار ٹھنڈک، گرم راکھ لگتی۔ وہ دونوں پرندے ڈار س__ے بچھ__ڑی کونج__وں کی ط__رح لگ__تے اور ان کی دل کے

آاواز اس_ے س_نائی دی_تی جس س_ے اس کے ان__در ای_ک ٹیس اٹھ_تی۔۔۔۔ اور ی_وں س_اری رات بیت گ_ئی۔ ہ_ونے والی

آا گی__ا آادھ پہر بعد وہ اچانک ڈر کے یوں اٹھ بیٹھا جیس__ے زل__زلہ پچھلے رات اس پر نیند کا ہلکا سا غلبہ ہوا لیکن

ہو۔

اگلے دن جب جگسیر کھیت کو جانے لگا تو اس__ے ک__اکے ک__ا چھوٹ__ا بیٹ__ا ملا ۔ ک__اکے اور نکے ک__اگھر س__اتھ

ساتھ تھے۔ جگسیر نے اس سے پوچھا

"تیرا باپ کہاں ہے چیٹو؟"

"کھیت"

"تیری بے بے؟"

"وہ لوتیاں)روٹیاں( لگا رہی ہے"

"نکے تاتے)کاکے( کا" پھر اپنے گنجے سر کے پیچھے دونوں ہاتھ باندھ کے ڈمرو کی ط__رح س__ر ہلات__ا ہ__وا چیٹ__و

آاپ بولنے لگا"لات)رات( کو۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔۔نکے تاتے نے میری نمی)نئی( تاتی)چاچی( کے گھوٹنا)ڈن__ڈا( اپنے

مارا۔ ایک ادھر۔ ایک ادھر۔" اور ساتھ ہی وہ پیٹھ، سر اور ٹخنے پر ایسے ہاتھ مارت__ا گی__ا جیس__ے س__چ مچ گھوٹن__ا

مار کے دکھا رہا ہو۔

"نمی )نئی( تاتی ہائے کرتی تھی" وہ کچھ رک کے بولا"ساتھ ہی نکا تات__ا گالی__اں دے رہ__ا تھ__ا۔ م__اں بہن__وں کی

اور کہتا تھا۔ میں تجھے مار کے چھوئے )کنویں( میں پھینک دوں گا"

30

"اور اسے کسی نے چھڑایا نہیں؟" نہ معلوم جگسیر نے یہ کیسے پوچھ لیا۔

"اونہوں" لڑکے نے سر کے اشارے سے جواب دیا" نکے تاتے کی ماں کہتی تھی ایسی کندلی)کنجری( کو مار

دے اور مار اور مار ۔اور مار۔ اس کے ٹکڑے کر دے"

اور یوں بولتا بولتا چیٹو اچھلتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔

تب جگسیر کھیت کی طرف نہیں گیا۔ گھیلے کے پاس جا کر سارا دن ٹانگر کی جھگی میں پڑا رہا۔

آایا تو جگسیرنے پوچھا "کچھ ہے"؟ دن چھپنے پر جب گھیلا گڈا کھڑا کر کے اس کے پاس

گھیلا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا ۔ وہ جگسیر کا زرد چہرہ دیکھ کر ڈر گیا تھا۔

"اوئے پاگل تجھے ہوا کیا ہے؟ تم تو مرنے والے ہو رہے ہو"

لیکن جگسیر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گھیلا جانتا تھا کہ جگسیر کی خموشی توڑنا اور ب__ارش ک__ا برس__نا ای__ک

ہی بات تھی۔ اس نے خاموشی اسے ادھا نکال کے دے دیا۔

"لو۔صبر سے پینا۔ پہلے ہی تھوڑی ہے۔اب بتا کیا بات ہے؟"

آانکھیں بند کر کے نصف ادھ__ا ای__ک ہی س__انس میں لیکن جگسیر ادھا لے کے جھگی میں جا گھسا۔ اس نے

آانکھوں س__ے تم__ازت نکل__نے لگی۔ پی لیا۔ شراب اسکے خالی پیٹ میں دھوئیں کی مانند چڑھ گئی ۔ اس کی

آاتے ہی اس کے آا گی_ا۔ لیکن ب__اہر تمام بدن دہکنے لگا۔ تھ__وری دی__ر بع__د وہ ب__اقی ش_راب لنگی میں اڑس ک__ر ب__اہر

پاؤں لڑکھڑانے لگے۔

آاج میں کانوں میں مندریاں ڈلوانے گورکھ ناتھ کے ٹلے پر جا رہا ہوں" "بھائی گھیلے

گھیلے نے گڈے کے پاس کھڑے ہو کر جگسیر کو غور س_ے دیکھ__ا۔ اس_ے اچھ__ا بھلا نش_ہ چڑھ__ا تھ__ا۔ "تم نے

کبھی پی پلائی تو ہے نہیں۔ خ__ود ہی راٹھی والے تمن دار بن گ__ئے ہ__و تم نے وہی ب__ات کی ن__ا" اس نے ق__درے

تمسخر اور ہمدردی کے ساتھ کہا "بڑا شرابی بنتا ہے۔ اگر پورا ادھا پی لیتے تو من_دراں پہن_نے کی بج_ائے راس_تے

میں تمہاری لاش اٹھانی پڑتی۔ "

31

آاہستہ گاؤں کی طرف چل دیا تھ__ا۔ گھیلا فک__ر من__د ہ__و گی__ا۔ تب ہی ان ک__ا آاہستہ لیکن جگسیر ان سنی کر کے

آا گیا تو گھیلا اسے گڈا خالی کرنے کا کہہ ک__ر جگس__یر کے پیچھے چلا۔ چل__تے وقت اس نے ایک مزارع وہاں

ایک سلنگ اٹھا کر کندھے پر رکھ لی اور فکر مند ہ__و ک__ر منہ میں ہی بڑبڑای__ا" کنج__ر کی اولاد۔ گونگ__ا۔س__چ مچ

ہی کچھ نہ کر بیٹھے"

دن چھپ گیا تھا۔ جگسیر ڈولتا، سنبھلتا، لڑکھڑاتا گھیلے سے کچھ سو کرموں کے فاصلے پ__ر چلا ج__ا رہ__ا تھ__ا

آاتے وہ اس ت__ک پہنچ ج__ائے آاتے آاہستہ چل رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ گاؤں لیکن گاؤں دور تھا اس لیے گھیلا

گا۔ گھیلے کا کھلیان گاؤں سے دور ہی تھا۔

جگسیر کو جھولتے دیکھ کر وہ ہنستا بھی لیکن اس کی ڈانوا ڈول حالت دیکھ کر اس کی فکر بڑھ رہی تھی۔

جگسیر جب گاؤں پہنچا تو دئیے جلنا شروع ہو گئے تھے۔ گھیلا اب اس کے ساتھ مل گیا تھا لیکن خاموش__ی

سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ اس نے جگس_یر س__ے ک_وئی ب_ات نہ کی۔ گ_اؤں ج_انے والے رس_تے ک__و

چھوڑ کر جگسیر اوپری راستے سے ہو لیا۔ اور نکے کے گھر کے سامنے ج__ا کے کھ__ڑا ہ__و گی__ا۔ گھیلا گلی کے

موڑ پر دیوار کے پیچھے کھڑا ہو کر اسے دیکھتا رہا۔

آاواز میں بلایا۔ "اوئے نکیا" جگسیر نے اونچی

آاواز میں اسے پکارا۔ نکا اندر سے نہ نکلا۔ جگسیر ان کے دروازے پر جا کھڑا ہوا اور پہلے سے زیادہ اونچی

آاواز س__ے لگت__ا تھ__ا کہ وہ کھان__ا آاواز میں پوچھ__ا۔ اس کی آاگے س__ے نکے نے س__خت "کون ہے؟ کی__ا ب__ات ہے؟ "

کھاتے اٹھا تھا۔

آاؤ ایک دفعہ" "باہر

"کیوں رشتہ کرنا ہے؟"

آاپ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ جگسیر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا پھر جیسے اسے اپنا

آاؤ" آاؤ۔ جس نے رشتہ لینا ہو گا لے لے گا۔ ایک بار باہر "تم باہر تو

32

آادمی ک_ا بچہ بن کے یہ_اں س_ے نک_ل ج_اؤ۔ک__وئی اور لیکن نکے نے اندر ہی سے جواب دیا۔ "بچنا چاہتے ہو تو

کام نہ ہو جائے۔"

آاگے ہاتھ باندھ کے کہا "رب ک__ا آائی اوراس نے جگسیر کے "دیکھ بیٹا " رسوئی سے نکے کی ماں کی دوڑی

واسطہ کیوں جھگڑا کرتے ہو۔ ہم تو پہلے ہی بہت ستائے ہوئے ہیں"

"تائی میں نے کچھ نہیں کہا۔ نکے سے ایک بات کرنی ہے"

آاڑ میں دروازے کے پ__اس آا گیا اور دروازے کے پٹ کی آامدے میں سے گنڈاسہ لے کے لیکن نکاموقع تاڑ کر بر

آاتے ہوئے پورے زور سے گرجا"اب بتاؤ ۔ بہنوئی سے کیا بات کرنی ہے؟"

جگسیر ، نکے کے ہاتھ میں گنڈاسہ دیکھ کر پہلے تو گھبرایا لیکن پھر قدرے پیچھے ہٹ کر دروازے سے باہر

ہوتے ہوئے بولا

آاؤ" "تجھ بیویوں کو مارنے والے تیرے جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر تم یہی چاہتے ہو تو باہر

"نکے نہیں" "نکے کا بازو پکڑ کر اس کی ماں نے منت کی۔ "کوئی بیوقوفی نہ کر بیٹھنا"

لیکن نکے کے لیے دل کی بھڑاس نکالنے کے ل__یے اس کے بع__د موق__ع مل__نے کی امی__د نہیں تھی۔ اس نے ال__ٹی

گنڈاسی اوپر اٹھائی اور بڑھک مار کے جگسیر کے س__ر پ__ر چلا دی۔ لیکن گنڈاس__ی س__ر میں لگ__نے کی بج__ائے

آائے۔ آاوازیں سن کر ہمسائے باہر نکل کسی لاٹھی پر پڑی اور دونوں لاٹھیوں کے ٹکرانے کی

"اب نکے اگر بندے کے تخم ہ__و ت__و جان__ا نہیں" جگس_یر کے ب_ائیں ط_رف نکے نے گھیلے کی للک_ار س_نی ت__و

گھبرا کے گرتا پڑتا گھر کے اندر جا گھسا۔ گھیلے کی سلنگ دیوار پر پڑی تو اس کا ای__ک حص__ہ ٹ__وٹ ک__ر گ__ر

پڑا۔

"تمہارا بیڑا غرق ہو! اب یہ تم نے کیا کیا؟ "نکے کی ماں چیخ مار کے کہنے لگی اور دروازے کو بن__د ک__ر کے

آاگے کھڑی ہو گئی۔ اس کے

"بڑا سورما بنا پھرتا ہے۔ باہر نکل دیکھیں تیری سور مائی"

33

گھیلے نے ایک بار پھر للکارا اور سلنگ کا ایک اور وار نکے کے دروازے پر کی__ا۔ س__لنگ ک__ا دوس__را حص__ہ بھی

ٹوٹ کر گر پڑا۔

آاواز میں "اوئے باہردیواروں کو توڑنے والے بہادر! ایک دفعہ منہ ب__اہر نکالن__ا! " جگس__یر نے گھیلے س__ے بھی اونچی

للکارا اور ڈب سے ادھا نکال کر زور سے تختیوں پر مارا۔ ادھا کرچی کرچی ہو گیا۔

آادمیوں نے انہیں پکڑ لی__ا اور ب__ڑی عم__ر کے س__مجھدار ل__وگ آا گئے۔ دو چار آاس پاس کے ہمسائے وہاں اتنے میں

لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے۔

"پاگلو اس طرح نہیں لڑتے"

"عورتوں کے جھگڑوں میں قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کوئی عقل کرو"

"کسی کا کچھ نہیں ہو گا۔ مفت میں کسی کا نقصان ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

آائی۔ ان کے ص__حن میں جلت__ا ہ__وا دی__ا بھی آاواز نہ لیکن جگسیر اور گھیبا للکارتے رہے ۔ اندر سے پھر نکے کی

آائی گئی ہو گ__ئی۔ جگس__یر آائے اور بات بجھ گیا تھا ۔جگسیر اور گھیلے کو لوگ سمجھا بجھا کے گھر چھوڑ

گھر جا کر چھت پر چڑھ گیا۔ اس کے باپ کو ساری بات کا علم ہ__و چک__ا تھ__ا اور یہ ب__ات نن_دی ک__و بھی بت_ا

آا گیا۔ دی تھی۔ نندی خاموشی سے اس کی چارپائی کے پاس جا بیٹھی۔ بعد میں جگسیر کا باپ بھی

"جگسیا تو نے ہمیں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا"

آانسو پونچھتے ہوئے کہا "تمہیں کچھ ہو جاتا تو تمہیں معل__وم ہے ہم__ارا کی__ا بنت__ا؟ ایس__ے ک__اموں اس کی ماں نے

آاتا" میں کلنگ کے ٹیکے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں

آاوازیں گ__ونج رہی تھیں ۔ م__اں اس کی ماں بولتی رہی۔ جگسیر خاموش پڑا رہا۔ اس کے ک__انوں میں اور ط__رح کی

آاواز س__نی ت__و اس ک__ا جس__م کی کوئی بات اسے ص_اف س__نائی نہیں دے رہی تھی لیکن جب اس نے ب__اپ کی

کانپ گیا۔

34

"جگسیر اگر تو نے مجھ بوڑھے کی داڑھی لوگوں کے ہاتھوں میں دینی ہے تو میں کنویں میں چھلانگ لگ__ا لیت__ا

ہوں"

آانس_و پ__ونچھ رہ__ا تھ__ا۔ اس__ے اس ب__ات پ__ر رتی بھ__ر جگسیر نے ذرا مڑ کے دیکھا۔ اس کا باپ پگڑی کے پلو سے

بھی شک نہیں تھا کہ وہ اسے یہ بات ڈرانے کے لیے کر رہا تھ_ا۔ اگ_ر ک_وئی واقعہ ہ__و جات_اتو ت_و س_چ مچ کن_ویں

میں چھلانگ لگا دیتا۔ اس کا چہرہ دیکھ کر جگسیر کو یقین ہو گیا تھا "جاؤ باپو سو جاؤ۔ جو ہ__ونی تھی ہ__و

آائندہ کچھ نہیں ہو گا" آاواز میں کہا " گئی" جگسیر نے نہایت نرم

آا گیا۔ وہ خاموشی سے چھت سے ات__را۔ نن__دی وہ__اں بیٹھی دکھی ہ__وتی رہی۔ جیسے جگسیر کے باپ کو یقین

جب جگسیر نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا تو وہ بھی اتر گئی۔ اس نے کئی بار جگسیر سے روٹی کا

پوچھا لیکن اس نے 'ناں' کر دی۔

اگلے دن نکے نے اپنی برادری کے کچھ لوگوں کی پنچائت بلائی۔ جھوٹ سچ ملا کے اس نے ان کو جگس__یر

آائندہ انہوں اور گھیلے کے کرتوت بتائے ۔ پنچائت نے جگسیر اور گھیلے کے باپوں کو بلا کر تنبیہہ کی کہ اگر

نے کوئی حرکت کی تو پولیس کو اطلاع کی جائیگی۔ جگسیر ک__ا ب__اپ ت__و خ__اموش رہ__ا مگ__ر گھیلے کے ب__اپ

آاوروں ک_و نہیں س_مجھا س_کتے ، ت_و ہم_ارے ل_ڑکے کیس_ے قص_ور وار ہ_و سے چپ نہ رہا گیا "اگ_ر یہ اپ_نے زور

گئے؟ "اس نے غصے میں کہا۔

آاج تک کسی کو اس کے سامنے بولنے کی آایا لیکن گھیلے کا باپ اپنے زمانے کا بدمعاش تھا۔ نکے کو غصہ

ہمت نہیں ہوئی تھی۔ نکاغصے کو پی گیا اور پنچائتیوں نے گھیلے کے باپ کو سمجھا کر بات ختم کر دی۔

دوسرے دن بھی جگسیر گھیلے کی جھگی میں پڑا رہا۔ گیبے کو رات ہی ساری بات معلوم ہ__و چکی تھی۔ وہ

آایا لیکن ویسے جگسیر اندر ہی سے ٹوٹ چکا تھا۔ اس پر کسی اچھی ب_ری ب_ات ک_ا اث__ر ہون_ا اس کی خبر لینے

ختم ہو چکا تھا۔ گھیلے کے کھیت سے ان_اج ڈھوی_ا ج_ا رہ__ا تھ__ا۔ سنس_ان کھلی_ان میں ک_تے کی کھ__وہ جیس_ی

آانکھوں سے جھگی کے ٹیڑھے میڑھے گڑھوں ک_و دیکھت_ا رہت_ا۔ گھیلے جھگی میں جگسیر سارا دن خالی خولی

نے اسے وہیں روٹی لا دی اور وہ روٹی کھا کر پھر لیٹ گیا۔

35

"لے دوست! تیری ہ_یر ت_و چلی گ_ئی" ش_ام کے وقت گی_بے نے جگس_یر ک_و بتای_ا ۔ "اس ک_ا ب_اپ اور ب_ڑا بھ_ائی

آائے تھے۔ کاک_ا بتات_ا ہے کہ وہ نکے ک_و م_ارنے لگے تھے لیکن وہ کہیں چھپ گی_ا۔ س_ب کچھ ص_بح س_ویرے

خاموشی میں ہوا۔ سمجھدار لو گ لگتے ہیں۔ کسی کو بھید نہیں دیا۔ تیسرے پہر انہوں نے نکے کی ماں کو

ڈرا دھمکا کر زیور بھی لے لیے اور بھانی ک_و لیک_ر چلے گ__ئے اور ایس_ا دبک_ا م_ار کے گ_ئے کہ بڑھی__ا نے ان کے

آاواز میں گھ_ر بیٹھی رو رہی تھی۔ گ_اؤں آاواز نہیں نک_الی۔ کاک_ا کہت_ا ہے اب اونچی اونچی جانے کے بعد تک

والو میں دونوں جہانوں لٹی گئی، لوگو! میرا س__ب کچھ ل__وٹ کے لے گ__ئے۔ وہ ب__ڑا تمن دار، ب__ڑا جودھ__ا ڈر کے

آایا" مارے دوپہر کا گھر نہیں

جگسیر سن رہا تھا لیکن ان باتوں کا اس پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا کہ اسے کوئی دکھ ہوتا۔ ایسے لگتا تھا کہ

اسے ان باتوں کا پہلے ہی علم تھا اور ان میں حیرانی والی کوئی بات نہیں تھی۔

آا گیا اور بوتل لایا۔ وہ تینوں س__ونے ت__ک پی__تے رہے۔ گھیلا اور گیب__ا، جگس__یر کے ان__در دن چھپتے ہی گھیلا بھی

چان جت_نی ش_راب پی کے بھی وہ کچھ نہ ب__ولا۔ کا اندازہ لگانا چ__اہتے تھے لیکن اس نے ایس_ی چپ س__ادھی کہ

اس کے اندر ایک گرہ لگ گئی تھی جو اس سے ناخنوں کا سارا زور لگا کے بھی کھلنے والی نہیں تھی۔

تینوں اس رات وہیں کھلیان میں سو گئے۔ روٹی گھیلے کا مزارع دے گیا تھا۔

صبح سویرے جگسیر دھرم سنگھ کے کھیت چلا گیا۔ سب اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس سے اس کی ہ__یر کی

باتیں پوچھتے رہے لیکن اس نے ایک چپ سادھی ہوئی تھی۔ بیچ میں اوپ_ر س_ے تھ_وڑا ہنس کے کہہ دیت_ا " ج_و

ہو گئی سو ہو گئی" اور دوبارہ خاموش ہو جاتا۔ کئ دن گاؤں کے اور لڑکے بھی اس_ے چھ_یڑتےرہے لیکن کس_ی

کی بات اس کے اندر لگی گرہ کو نہ کھول سکی۔ یہ گرہ اور سخت ہوتی گئی۔

آاہستہ بات پرانی ہو گئی۔ اپنے اپنے کام کاج میں جٹ کر س_ارے اس ب__ات ک__و بھ__ول گ__ئے۔ جگس_یر بھی آاہستہ

جیسے اس بات پر مٹی ڈال بیٹھا تھا لیکن اسے کے اندر ہر وقت ایک ٹیس اٹھتی رہتی جو کبھی اتنی شدید ہ__و

جاتی کہ اس ک_ا درد اس س_ے س_ہا نہ جات_ا۔ اس کی گھ_وڑے جیس_ی ہمت اس درد س_ے اس ق_در مت_اثر ہ__و رہی

تھی کہ اس سے اٹھنا محال ہو چکا تھا۔

36

لوگوں نے ربی کی فصلیں بیج لی تھیں۔ اساڑھ کے پہلے ہی ہفتے میں بارشوں کی وجہ س__ے خری__ف کی فص__لوں

کی بجائی زوروں پر تھی۔ جگسیر جیسوں نے اس بار "اپنے کھیت" میں چری اور گوارا بیجنا تھا۔ اس کے باپ

نے اسے علی الصبح ہل جوتنے کو کہا تھا۔ اگرچہ رات جگسیر جلد ہی سو گیا تھا لیکن صبح اٹھتے ہوئے اس

کے اعضا دکھ رہے تھے۔ جب وہ ہل لے کے بھٹی کے پاس پہنچا تو اس کی ٹ__انگیں بھ__اری ہ__ونے لگیں۔ اس

نے رونقی کی کوٹھڑی کی طرف نگاہ کی۔ اندر دیا جل رہا تھا۔ بیلوں ک__و روک ک__ر وہ ک__وٹھڑی کے ان__در گی__ا۔

رونقی کی بیوی سنتو چائے بنانے لگی تھی۔

"کیسے ہو؟ جی رہے ہو کہ دھرم راج کو پہنچا دیا؟ "جگسیر نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

"کڑ میا کیوں گندی باتیں کر تے ہو۔ میرے پاس تو ای__ک ہی ہے۔ " س__نتو نے ہنس کے کہ__ا۔ رونقی ب__اہر گی__ا ہ__وا

آا گیا اور ان کی باتیں سن کر بولا۔ "دھرم راج کے پاس کس کو بھیج رہے ہو۔ اور سناؤ صبح تھا۔ اسی وقت وہ

صبح غریبوں کے ساتھ کیا کام پڑ گیا؟"

"بس ایسے ہی۔۔۔۔۔" اور سنتو کی طرف دیکھ کر جگسیر کچھ نہ بولا۔

"بتاؤ یار۔ شرم نہ کرو۔ یہاں کوئی پرایا نہیں۔ یہ وہی س__نتو ہے ج__و بھ__ٹی پ__ر بیٹھی گ__الم گل__وچ ک__رتی رہ__تی ہے"

آاگے سے بولی۔ تم تو جیسے سارا دن سکھ منی کا ج__اپ اور اس نے ٹیڑھی نگاہ سے سنتو کو دیکھا ۔ وہ بھی

کرتے رہتے ہو!"

آاج میں کچھ کم__زوری آاہس__تہ س__ے کہ__ا" آا گ__ئی۔ پھ__ر ہمت ک__ر کے اس نے جگس__یر ک__و ان کی ب__اتوں پ__ر ہنس__ی

محسوس کر رہا تھا میں نے کہا۔۔۔۔۔"

"شاباشے تیرے!" رونقی گڑھک کر بولا "ایسی بات سے بھی شرم کرتے ہو۔ چاہے پانچ سیر لے جاؤ"

اس نے اپنے کرتے کی بھاری جیب سے ڈبیہ نکال کر کھولی اور بیر کے برابر افیون جگسیر کو دیتے ہوئے کہ__ا

"کھا کے دیکھو یہ تمہیں کوتل گھوڑے پر نہ چڑھا دے تو۔۔۔۔۔"

"اس کو بھی کو تل گھوڑے پر چڑھ__ا دے۔ پی_دل چل__نے کے قاب__ل چھوڑن_ا۔۔۔۔گی_دڑ ک_ا س__اتھی ل__ومڑ" س_نتو نے

ٹھٹھہ کیا۔

37

"تم اٹھ کر پانی کا گھونٹ دو۔ ایسے ہی چڑ چڑ نہ بولو یہ تیرا دیور ہے"

"اگر یہ دیور ہے تو اس کا موگھے میں سر پھنسا کے اس کا کام تمام کر دے۔ ایسے ترسا کے کیوں م__ارتے ہ__و"

لیکن بولتی سنتو نے اٹھ کر پانی کا پیالہ رونقی کو پکڑا یا۔

جگسیر نے مسکرا کر افیون منہ میں ڈالی اور رونقی نے منہ میں پانی ڈال ک__ر اس__ے گلے میں ات__ار لی۔ رونقی نے

آانکھ بچا کر افیون منہ میں ڈال کر پانی کا گھونٹ لیا لیکن سنتو دیکھ رہی تھی۔ بھی سنتو سے

"تیرے جیسے پاگل کت_وں ک_و ت__و کم__را بھ__را افی_ون ک_ا چ__اہیے۔ جس میں افی_ون کھ_اتے رہیں" اس کے بع_د س_نتو

چبڑ کرتی رہی لیکن رونقی کھنکھارتے ہوئے اس کا تمس__خر توڑت__ا رہ__ا۔ جگس__یر ان کی چ__ونچیں ل__ڑتی چبڑ کتنی دیر

آا گ__ئی۔ وہ کچھ دی__ر س__نتو اور دیکھ کر کھیت کی طرف چل دیا۔ اس کا بدن کھل سا گیا۔ سوچوں میں تیزی

آا گئی۔گ__رچہ افی_ون ک__ا نش__ہ کم ہ__و رہ__ا تھ__ا لیکن اب اس رونقی کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر اسے بھانی یاد

آاتے ہی وہ ذہن کسی اور طرف موڑ لیت__ا۔زن__دگی کے اس م__وڑ کے نے دل کو راضی کر لیا تھا اور بھانی کا خیال

بعد اس کے اندر اتنی گہری ٹیس پڑتی کہ وہ بھانی کے خیال سے ک__ئی گن__ا ش__دید ہ__وتی لیکن اس کے ب__اوجود

اسے بھانی کا دکھ اس ٹیس سے زیادہ خوفناک لگتا تھا۔

جگسیر کی ہمت روز بروز کم ہو رہی تھی۔ اس کے ب__اپ کے م__رنے کے بع__د گھ__ر کی تم__ام ذمہ داری اس کے

آا گئی تھی۔ اگرچہ اس کی اپنی کوئی ذمہ داری نہ تھی لیکن اس کی چار بہنوں میں سے کوئی نہ ک__وئی سر پر

آائی رہتی۔ ان کو لینا دینا ، کئی بار، گھر کے خرچ سے زی__ادہ ہ__و جات__ا۔ ان ذمہ داری__وں نے جگس__یر ک__و اور گھر

آاپ کو لڑکا نہیں س__مجھتا غمزدہ کر دیا۔ ویسے بھی اب چونکہ وہ پچیس سال سے اوپر ہو رہا تھا، وہ اب اپنے

آا گ_ئی تھی۔ ب__اپ کے حص_ے کی ذمہ داری اب اس کی تھی۔ تھا۔ اس کے ہ__ر ک_ام میں قبی_ل داروں والی ب_ات

زیادہ کام اور خوراک کی کمی کی وجہ سے اس کی ہمت دن بدن ج__واب دے رہی تھی۔ دل اس ک_ا پہلے ہی

رنجور تھا۔

بھانی کے میکے والوں نے اسے پورے اڑھائی سال سسرال نہیں بھیجا۔ جگسیر کو ہر بات کی خبر ملتی رہ__تی۔

آائے لیکن پھ__ر اس__ے یہ ح__رکت بچگ__انہ جیس_ی اوچھی لگی۔ کئی بار اس کا من چاہا کہ وہ بھانی کے میکے ہو

38

نکا کئی بار اپنے رشتہ داروں کو ساتھ لیکربھانی کو لینے گیا۔ بھانی کے میکے والوں کا کہنا تھا کہ جب نکے

کے سارے بل نکل جائیں گے تب وہ بھائی کو بھیجیں گے! ان اڑھ__ائی برس__وں میں جگس__یر ، جگس__یر نہ رہ__ا۔

افیون کی خوراکیں بڑھتی گئیں ۔ ایک سے دو، دو سے تین اور تین سے چار ہ__وتی گ__ئیں۔ دوس__رے تیس__رے دن

شراب بھی پی لیتا۔ چائے تو وہ بہت پینے لگا تھا۔ چاہے دس بار ملے یا پندرہ بار۔ ک_ام بھی وہ ات__نی ہمت س_ے

آادمی اس کے مقابلے کا نہیں ک_ر س_کتے تھے۔ اس کے عمل__وں کے ب_ارے کس_ی ک_و کی_ا گلہ تھ_ا؟ کرتا کہ دو

شراب پی کر وہ کبھی برا نہیں بولتا تھا، کبھی گھر س_ے ب_اہر نہ نکلت_ا۔ لیکن کبھی کبھی دھ_رم س_نگھ ک_و اس

آاپ کو ضائع کر رہے ہو۔ ساری کی اس حالت پر دکھ ہوتا اور وہ دردمندی سے کہتا"جگسیا تم ابھی سے اپنے

عمر کیسے گذارو گے؟"

"عمر اپنی ہے ہی کیا۔ پانچ س__ات ب__رس اور جی ل__وں گ__ا۔ یہ بھی ایس__ے گ__ذر گ__ئے ت__و بھگ__وان ک__و ج__ا کے کی__ا

حساب دیں گے؟" جگسیر ہنس کے ٹال دیتا۔

دھرم سنگھ نے کئی بار زیادہ عمر کی پریشان حال ، لڑکیوں س__ے اس کے رش__تے کی ب__ات چلائی لیکن ہ__ر ب__ار

آا جاتی۔ جگسیر مانتا تو نندی نہ مانتی وہ مانتی تو ل__ڑکی والے اک__ڑ ج__اتے۔ ک__ئی دفعہ س__ارا کوئی اڑچن بیچ میں

کام بننے پر اڑھچن ڈالنے والے معاملے میں ٹانگ اڑا دیتے۔ شائد جگسیر دھرم سنگھ اور اپ__نی م__اں کےکہ__نے پ__ر

مان جانتا لیکن اس کا خیال کہتا۔ " یہ زنجیر مجھ س__ے گھس__یٹی نہیں ج__ائے گی" اور جب ب__ات بن ک__ر بگ__ڑ

جاتی تو وہ خوش ہو تا۔

اڑھائی سال ناک رگڑنے کے بعد نکا بھانی کو گھر لانے میں کامی__اب ہ__وا۔ اس کے سس__رالیوں نے اس کے رش__تہ

داروں کی ضمانت لے کر اسے اچھی طرح سمجھا کے، بھانی کو ساتھ بھیجا۔ اب نکے کے سارے ب__ل نک__ل

آانے تک وہ منڈی میں بیٹھا رہا اور منہ اندھیرے وہ__اں س__ے ک__اکے آایا تو اس کے گئے تھے جب وہ بھانی کو لے

آائے۔ کے اونٹ پر وہ اور بھانی گاؤں

آانے تک آانے کا علم ہوا تو اس کے اندر کی ٹیس پہلے سے بڑھ گئی لیکن اس کے جگسیر کو جب بھانی کے

خود ہی دور ہو گ_ئی۔ اب گ_رہ ات_نی س_خت ہ__و گ_ئی تھی کہ دانت_وں س_ے بھی کھل__نے والی نہیں تھی۔ ک_ئی دن

39

اسے گھیلا اور گیبا چھ__یڑتے رہے لیکن اس ک_ا دکھ دیکھ ک_ر وہ خ__ود ہی خ__اموش ہ__و ج__اتے۔ ک_ئی ب__ار اس کی

آایا کہ نکے کی گلی سے گذرے لیکن یہ بھانی کے میکے جانے کی خواہش کی طرح یہ سوچ میں جوار بھاٹا

بات بھی اسے اوچھی لگتی تھی۔

چوتھے پانچویں دن وہ شام اندھیرے پانی لگانے کے ل__یے کھیت ک__و ج__انے لگ__ا ت__و دھ__رم س__نگھ کے گھ__ر س__ے

نکلتے ہی چکی سے پھیری لے کر گاؤں کے اوپر سے ہو کر چلا۔

نیچی نگاہ کئے ، کسی کندھے پر رکھے وہ چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے اوپ__ر دیکھ__ا ت__و وہ ایس__ے شش__در

آا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے رک__ا ۔ آا گیا ہو۔ وہ نکے کی گلی کی موڑ پر ہوا جیسے اس کے پاؤں تلے سانپ

آاگے پیچھے دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کے اندر وہی پران__ا درد جاگ__ا۔ ی__وں اوپ__ر دیکھ__تے ہ__وئے اس__ے اپ__نے

آاپ سے شرم محسوس ہوئی اور پہلے کی طرح نیچی نگاہ کئے ، چکی س__ے اوپ__ر وہ پگڈن__ڈی کی ط__رف س__وچ

کرادھر مڑ گیا۔

آانکھوں سے جھانک تو لے!" اپلوں کے ڈھیر سے گذرتے ہوئے جگسیر نے ایک میٹھی ، مدھم "ایک دفعہ اپنی

آاواز س__نی اور وہ وہیں کھ__ڑا ک__ا کھ__ڑا رہ گی__ا۔ ای__ک لمحے کے ل__یے جگس__یر گ__ردن بھی نہ گھم__ا س__کا۔ اس کی

ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔

آاواز پھ__ر "تیرے پیچھے ساری عمر کی تہمت لگوا لی ہے کڑمیا' اور اب اتنے سنگدل ہ__و گ__ئے ہ__و" اس نے وہی

سنی اور ساتھ ہی ایک چیخ سر سے پیروں تک اس__ے س__ن ک__ر گ__ئی اس__ے لگ__ا جیس__ے کس__ی نے اس__ے س__ر س__ے

نیچے تک دو حصوں میں چیر دیا ہو۔

آانکھیں پونچھ_تی، بھ__انی نے جگسیر نے اپنا بھاری سر اوپر اٹھای_ا۔ ای_ک ہ_اتھ میں گ_ڑوی پک_ڑے، ان_دھیرے میں

آانکھیں جھکا لیں۔ اسے ایسی نظر سے دیکھا کہ وہ مر ہی گیا۔ اس نے پھر

"بھانو تمہیں کیا معلوم میں کیسے دن گذار رہا ہوں"

40

ایک ہی بات کر کے جگسیر کی بینائی جاتی رہی۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس_ے اپ_نے پ__اؤں کی

چاپ سن رہی تھی۔ دو اور پاؤں کی چاپ بھی اس نے سنی جو بے ترتیب چل رہے تھے۔ پھر وہ گم س__م چلت__ا

رہا۔

آادھا پانی لگانے کے بعد وہ اتن__ا ن__ڈھال ہ__و گی__ا کہ اس س__ے کھ__ڑا ہون__ا کھیت میں جا کر وہ پانی لگاتارہا۔ لیکن

بھی مشکل ہو گیا۔ بھنتے کو بخار کا کہہ کر وہ ٹاہلی کے نیچے لیٹ گیا۔

آائی ۔ اس نے غ__ور کی__ا ت__و ک__الا آادھی رات کے چاند میں جگسیر کو اپنے بائیں طرف کچھ چمک__دار چ__یز نظ__ر

آا گیا تھ__ا۔ نہ جگس__یر اٹھ__ا اور نہ ب__ولا۔س__انپ پہلے اس کے سانپ تھا۔ وہ ٹھنڈی زمین پر رینگتا اس کے نزدیک

آا گی_ا تھ_ا۔ جگس_یر س_اکت پ_ڑا رہ_ا۔ اس کے پاؤں کی طرف گیا اور پھر دائیں پہلو س_ے ہ__و ک_ر اس کے پیٹ پ__ر

دماغ میں سانپ کا کوئی ڈر خوف نہیں تھا ۔ س__انپ اس کے پیٹ س__ے ہوت__ا ہ__وا اگلی ط__رف ات__ر گی_ا۔ اس کی

پھنکار جگسیر کو صاف سنائی دیتی رہی۔ پھر وہ کتنی دیر اس کے بائیں طرف ٹاہلی سے دو ق__دموں کی دوری

پر ایک چھوٹے سے ٹیلے کی ٹھنڈی ریت پر کھیلت__ا رہ__ا۔ جگس__یر نے نگ__اہ اس پ__ر ٹک__ائی ہ__وئی تھی اور جب وہ

ٹیلے کے دوسری طرف گیا تو جگسیر اٹھ بیٹھا۔

آاہستہ سے کہا اور پھر ب__ڑی دی__ر ت__ک وہ کبھی ٹیلے کی "ان کی ضرورت بھی انسانوں کو پڑتی ہے۔۔۔!" اس نے

طرف اور کبھی سانپ کی چمکتی جلد جیسے پانی میں اور اس میں چمکتے تاروں کی پرچھائیاں دیکھتا رہا۔

اس دن کے بعد بہت عرصہ تک جگسیر نکے کی گلی سے نہیں گذرا۔ اس طرف جاتے ہوئے جیس__ے اس__ے ڈر

لگتا تھا۔ لیکن جب کبھی کبھی وہ بے قابو ہو جاتا تو چکی کے اوپر سے کھیت کو جاتے ہ__وئے وہ نکے کی

آا گیا ہو۔ آا کے ایسے سہم کر رک جاتا جیسے اس کے پاؤں تلے سانپ گلی کے موڑ پر

پھر کئی مہینے اس نے بھانی کی شکل نہ دیکھی۔ گھیلا اور گیبا بھی اپنی قبیل داری میں مص__روفیت کی وجہ

سے کم ہی ملتے۔ جب کبھی ان کا ملاپ ہوتا تو پرانے قصے چھیڑ بیٹھتے۔ جگسیر بے چین ہ__و جات__ا اور وہ ان

کی بات ٹ__وک ک_ر کہت_ا "کی_وں پی__از کے چھلکے ات_ارتے ہ_و؟ اب ان ب_اتوں میں کی_ا رکھ__ا ہے؟" اور اس کے بع__د

جگسیر کے ل__یے زن__دگی می__دے کی ط__رح پھیکی پھکی ہ__و گ__ئی ۔ نہ میٹھی نہ کھ__ٹی اور نہ ک__ڑوی۔ بے ذائقہ۔

41

کولھو کے بیل کی طرح وقت کی دھول کو دھندلاتا اور بار بار زمین کو ماپت__ا ، وہ ان__دھیری رات__وں جیس__ے دن__وں

اور شمسانوں جیسی ویران راتوں ک_و ایس_ے گ_ذار رہاتھ__ا جیس_ے ک_وئی دور ک_ا مس_افر دن چھپ_نے ت__ک م__نزل ت_ک

پہنچنے کے لیے چھلانگیں مار رہا ہو۔ اس کے ان__در کی بن__دھی گ__رہ اب کھل__نے کی نہیں تھی۔ اس کے ان__در

چپیڑ ایسے ہی مر گئی تھی جیسے بی__ل کی پنج__ابی ک__ا داغ مٹ جات__ا ہے۔ بھ__انی کے ہ__اں بیٹ__ا ہ__وا۔ اس کے کی

بعد ایک لڑکی اور پھر ایک لڑکا ۔ وہ جب بھی نومول_ود ک__ا س_نتا اس_ے خوش_ی ہ__وتی۔ اس ک_ا دل کرت__ا وہ بھ__انی

تک اپنی خوشی پہنچائے لیکن وہ اسے بھی پہلے کی طرح، اوچھی حرکت سمجھ ک__ر خ__اموش ہ__و جات__ا۔ اب

جگسیر کو نکے کے ساتھ کوئی گلہ نہیں تھا۔ جب وہ اسے دیکھتا تو اس کا جی اسے بلانے ک__و کرت__ا۔ ای__ک

آا رہا تھا۔ اس نے اسے بلا لیا۔ آارڈر دے کے دن جب نکا کسی کے بیاہ کے لیے حلوائی کو مٹھائی کا

"خیریت سے ہو نکے؟"

"خیریت سے ہوں" نکے نے کچھ حیرانی اور کچھ رکھائی سے ج__واب دی__ا۔ لیکن پچھلے چ__ار پ__انچ س__ال س__ے

جگسیر کی گاؤں میں نیکی کی جو چرچا تھی نکا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ تھوڑی فکرمندی س__ے

اس نے پوچھا۔

"تو سنا صحت تو ٹھیک ہے؟"

"تیری دعا سے جو دن گذر جائے، اچھا ہے"

"ہوں ! کرپا واہگرو کی کوڑھیا)بد شکلے( اب تو تیرے درشن ہی نہیں ہوتے۔ کہاں چھپے رہتے ہو؟ "

"رہنا کہاں ہے۔ تیرے گاؤں میں ہی ہوں۔ چبوترے پر رہتا ہوں"

آائے۔ فصلوں کی ، بیاہ شادیوں کی، اور روز بروز خراب ہ__وتے ح__الات اور پھر وہ گاؤں تک سارا راستہ باتیں کرتے

کی لیکن بھانی ک_ا ک_وئی ذک_ر نہ ہ__وا۔ اس کے بع_د وہ ک_ئی ب_ار ملے اور ب_اتیں واتیں ک_رتے رہے۔ نکے نے بھی

درگذر کرتے ہوئے بات دل سے نکال دی تھی۔

پھر اچانک نکے کی ماں م__ر گ_ئی۔ دو دن بیم_ار ہ_و کے چ_ل بس_ی۔ جگس_یر اس کے افس_وس کے ل__یے گی_ا ت_و

اا دیکھ__ا تھ__ا لیکن اب ت__و ایس__ے لگت__ا تھ__ا کہ اا فوقت__ اس__ے بھ__انی دکھ__ائی دی۔ اس نے بھ__انی ک__و پہلے بھی وقت__

42

جیس__ے وہ اس__ے دوس__رے جنم میں م__ل رہی ہ__و۔ بھ__انی ک__ا روپ پہلے جیس__ا تھ__ا لیکن اس کی ج__ان پہلے س__ے

آادھی رہ گئی تھی۔ جگس__یر نے اس__ے ای__ک ب__ار غ__ور س__ے دیکھ__ا پھ__ر ایس__ی نگ__ائیں جھک__ائیں کہ پھ__ر نہ اٹھیں۔

آانکھ__وں آاتے رہے جیس__ے وہ اس کی اپ__نی آانسو اسے صاف نظر ویسے جب تک وہ وہاں رہا بین کرتی بھانی کے

سے گر رہے ہوں۔ اس کے لمبے بینوں نے جگسیر کے اندر کا برس_وں ک__ا س__ویا درد جگ_ا دی__ا۔ی__وں جیس_ے چھ__پر

آانکھیں بھی__گ گ__ئیں۔ کت_نی دی__ر کے نیچے گڑی لکڑی کو جانور نے ٹھوکر مار کے اکھ__اڑ دی__ا ہ__و۔ جگس_یر کی

آا خر وہ وہ__اں س_ے اٹھ گی_ا۔ اس_ے ڈر تھ__ا کہ اس کے ان__در کی آانسو نہ روک سکا اور کی کوشش کے باوجود وہ

گرہ کہیں کھل نہ جائے!۔۔۔۔۔۔۔ جیسے اس گرہ میں اس کا سب کچھ بن__دھا تھ__ا اس کی تیس برس__وں کی

آا رہی تھی اس دن کے بعد جگسیر کم کم نکے کے گھر جانے لگا۔ آاڑے کمائی! ایک ہچکچاہٹ

کئی مش_ٹنڈے اب بھی اس ک_و ب_ری نظ_ر س__ے دیکھ__تے تھے لیکن اس ک_ا ی_وں جان__ا کس_ی ک_و زی_ادہ ن__اگوار نہ

آاہس_تہ بھ__انی اس آاہس_تہ گذرا۔ وہ نکے کے ساتھ ہی ان کے گھر جاتا تھ__ا۔اس کے بچ_وں کے س__اتھ ب__اتیں کرت_ا۔

آاس_انی س__ے انہیں ک_وئی م__وڑ دی__نے میں کامی_اب رہت_ا۔ وہ اس کے سے چھوٹے موٹے م__ذاق ک_رنے لگی۔ لیکن وہ

سامنے گزرتی بھی تو اس سے نظریں نہ اٹھائی جاتیں۔اب نکے کو بھی اس پ__ر ش__ک نہیں ہوت__ا تھ__ا۔ ویس__ے بھی

گھر میں اکیلا مرد ہونے کی وجہ سے اسے جگسیر کی مدد کی ضرورت پڑتی۔ جگسیر اس کے کھیت میں ہل

چلا دیتا۔ بجائی کرا دیتا۔ پانی لگاتا اور جب نکا اس حساب سے سوچتا تو اسے سودا مہنگا نہیں لگتا تھا۔

شروع شروع تو لوگ__وں نے چہ میگوئی__اں کیں۔ ک__ئیوں نے جگس__یر ک__و چبھ__تی ب__اتیں بھی کیں لیکن جب اس نے

سب کو لاجواب کر دیا تو سارے چپ ہو گئے۔

آانا جانا اتنا بڑھا کہ وہ اسے اپنا گھر سمجھنے لگا۔ اب ان کے گھ__ر ج__اتے وہ اور پھر جگسیر کا نکے کے گھر

نہ جھجھکتا۔ وہ نکے کی غیر موجودگی میں بھی ان کے گھ__ر چلا جات__ا۔ ایس__ے وقت جب بھ__انی پ__رانی ب__اتیں

چھیڑ دیتی، جگسیر بات بڑھنے نہ دیتا۔

آائیگا۔۔۔۔ مجھ میں تو اپ__نے ل__یے کچھ نہیں۔ اب وہ وقت ی__اد ک__ر کے کی__ا لین__ا ۔ "بھانو راکھ میں سے کیا ہاتھ

آاپ کو کھینچ کھانچ کر موت سے قریب ہونا ہے۔ وہ ہو جائے گا۔" اب تو اپنے

43

پر جگسیر کو محسوس ہوتا کہ اس کی اندر کی گرہ کھلتی جا رہی تھی اور وہ انجانے خوف سے ڈرا وہاں سے

اا اٹھ جاتا۔ فور

آاتے گاؤں کے کئی مش_ٹنڈے جنہ_وں نے بھ_انی س_ے بےع_زتی ک_رائی تھی، ابھی بھی ب_اتیں بن_انے س_ے ب_از نہیں

تھے۔ وہ بھانو کو باتیں کر کے اس کے اندر کی بات نکالنے کی کوشش کرتے لیکن وہ سب باتیں جگسیر کو

بتا دیتی۔

"بھانو رب ہمارے درمیان ہے! ایسا گند اگر ہم نے اس وقت نہیں کیا جب اس کا وقت تھ__ا ت__و اب ک__ا ل__ک ک__ا

آاتا ہے۔" آاسمان پر تھوکا اپنے منہ پر ٹیکہ کیوں لگوائیں گے۔ جو کہتے ہیں کہنے دے۔

تھوکنے والے اپنے منہ گندے کر کے ہٹ گئے ۔ چاند ویسے ہی گھٹتا بڑھت__ا چمکت__ا رہ__ا۔ اور اب بھی ویس__ے ہی

چمکتا تھا۔ جگسیر کو گڈے کے تختے پ__ر بیٹھے جھٹک__ا س__ا لگ__ا اور جب وہ خی__الوں س__ے نکلا وہ گ__اؤں کے

نزدیک پہنچ چکا تھا۔

چجون کے نقوش کو واضح آاج اپنی اس ظاہری "واہ اوئے کرموں کے جلے" اس نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا اور

آاواز دے کر دوڑایا۔ صبح سے گھر سے نکلے بیل انداز میں دیکھ کر جیسے اسے تسلی ہوئی۔ اس نے بیلوں کو

بھی تیز ہو گئے۔

گڈے کو دھرم سنگھ کے باڑے میں چھوڑ کر اس نے کھ__انے ک_ا ڈبہ کھ__ولا اور اس میں س__ے روم__ال نک__ال ک__ر

کندھے پر ڈال لیا۔ وہ بیل دھرم سنگھ کے گھر باندھ کر اوپر کے راستے نکے کے گھر کی ط__رف ہ__و لی__ا۔ گلی

آاگے ہ__و ک__ر ، آا کے اسے بھانی کی سب سے چھوٹی لڑکی گلی میں کھیلتی دکھائی دی۔ وہ تھوڑا ا کے موڑ پر

لڑکی کو دکھائی دیا اور پھر واپس ہو چلا۔

"جگچھی تات__ا)جگس__یر چاچ__ا( جگچھی تات__ا۔۔۔۔۔۔اوئے بھیت__و۔۔۔۔۔جگچھی تات__ا۔۔۔۔۔۔" اور وہ اونچی اونچی

آاواز میں شور مچاتی اپنے بھائیوں کو بلاتی جگسیر کے پیچھے دوڑی۔

وہ جگسیر کو پیچھے جا کر ٹانگوں سے اس زور سے لپٹی کہ جگسیر گرت__ا گرت__ا بچ__ا۔ س__اتھ ہی س__اتھ ب__ڑا لڑک__ا

آایا اور اس کے کندھے سے رومال اتار کے لے گیا۔ بھیتو سرپٹ دوڑتا

44

"اوئے کملی ۔ سارا کچھ تو وہ بندر لے گیا۔ اب مجھ سے کیا لیتی ہو؟"

جگسیر نے لڑکی سے ٹانگیں چھڑاتے ہوئے کہا۔ اس کی بات سن کر ل__ڑکی بھیت__و کے پیچھے دوڑ پ__ڑی۔ بھیت__و

اپنی تھڑی پر جا کر رومال کی گرہیں کھولنے لگا۔

آا گئ لیکن بھی_تے نے "بھائی مجھے بھی دو۔ بھیت_و بھ_ائی مجھے بھی دو" ل_ڑکی ش_ور مچ_اتی اس کے نزدی_ک

رومال ٹانگوں میں دبا لیا۔

آاہستہ ان کی طرف چلا ۔ ل__ڑکی نے پہلے ت__و بھی_تے کی منت س_ماجت کی، بھک__اریوں کی ط_رح آاہستہ جگسیر

ہاتھ پھیلائے لیکن پھر چھپٹا مار کر رومال کو پڑ گئی۔ دونوں کی چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ لائے ہوئے ریوڑی__اں

آانکھیں بچ__وں ک__و اس ط__رح جھگڑت__ا دیکھ ک__ر آاتاتھ__ا۔ اس کی ، بتاشوں پ__ر انہیں لڑت__ا دیکھ ک__ر ہمیش__ہ اک م__زا

ٹھنڈی ہو جاتیں۔

آا کر ہنستے ہوئے کہا۔ "نہ لڑو، اوئے نہ لڑو" اس نے ان کے نزدیک

آائی تھی۔ بچوں کا شور سن کر بھانی بھی اندر سے نکل

"کیا بات ہے؟ کیوں لڑتے ہو" اس نے پوچھا۔

"چھاچھے)بتاشے( نہیں دیتا۔۔۔۔جگچھی تاتے کے چھاچھے" روہانسی ہوئی لڑکی نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔

آاتے ہوئے جگسیر کی طرف دیکھا۔ بھانی نے نزدیک

آائیگ_ا تمہیں مرغ_وں کی ط_رح ل_ڑانے کے ل_یے" "اور جگسیر چاچ_ا کی_ا س_یب لا کے دے گ_ا۔ بتاش_ے ہی ت_و لے

آا گیا۔ بھانی کے یہ چھوٹے چھوٹے مذاق وہ ص__رف س__ن س__کتا تھ__ا ان ک__ا ج__واب تھوڑا ہنستا ہوا جگسیر نزدیک

اس نے کبھی نہیں دی__ا تھ__ا۔ ایس__ا ک__رنے اس کے ل__یے بھ__انی کی بے ادبی ک__رنے کے براب__ر تھ__ا ۔ وہ بھ__انی کی

آانکھیں پھاڑ کے دیکھنا اسے اپنے اصولوں کے خلاف لگتا تھا۔ طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ بھانی کو

بھانی نے بھیتے سے رومال لے لیا اور اندر چلی گئی۔ بع__دمیں دون__وں بچے ش__ور مچ__اتے اس کے پیچھے دوڑے۔

جگسیر باہر گلی میں رہ کر ہی اس چھوٹے سے جھگڑے کا مزا لیتا رہا۔

45

آاہستہ سے کہا "رومال جھونگے میں" بھانی نے "اوئے چورو! میرا رومال تو دے دو" تھوڑی دیر کے بعد اس نے

جواب دیا اور مسکراتی ہوئی بولی "تھوڑی دیر بیٹھ جا۔ پانی وانی پی کے جانا"

"بس چلتا ہوں۔ گھر چھوٹے بچے صبح سے میرے انتظار میں ہوں گے!"

لیکن جگسیر کو یہ مذاق کرتے ہی برا لگا۔ اس نے بھ__انی کے چہ_رے پ_ر ملال دیکھ_ا اور وہ بچ_وں میں بتاش_ے

ریوڑیاں بانٹتے ہوئے اداس ہو گئی۔ اور کوئی مذاق کرنے کو اس کا جی نہ چاہا۔ اس لیے وہ وہاں زیادہ دی__ر نہ رک__ا

اور جلدی جلدی گھر کو چلا۔ اپنا رومال واپس لینے کے لیے بھی اس سے انتظار نہ ہوا۔

چار

جگسیر نے "اپنے کھیت "کو اچھی طرح سے دوہ__را اور تیہ_ر ہ__ل چلا ک_ر س_ہاگا لگای_ا اور بیج ڈال دی_ا اس نے

چچنی کی کوئی موٹا ڈھیلا یا کھبل کی کوئی جڑ نہیں رہنے دی تھی۔ جب گندم اگی تو س__ارا کھیت ن__ئی ہ__ری

طرح لگا۔ ایک دن جگس_یر اور بھنت__ا اکٹھے کھ__الا ٹھی__ک ک_رنے گ__ئے ت__و جگس_یر ک__ا کھیت دیکھ ک__ر اس ک__ا

حسد اور بھی بھڑک اٹھا۔اس کے کھیتوں میں جگہ جگہ کوہڑی کے جسم کی طرح خش__ک نش__ان پ__ڑے ہ__وئے

تھے۔ اگرچہ جگسیر کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔ ساتھ کے کیا رے بھنتے اور اس کے چھوٹے بھ__ائی نے

آا رہا تھا۔ بیجے تھے پھر بھی اسے غصہ جگسیر پر

آاتے ہی ٹاہلی کے نزدیک مینڈھ پ__ر کھ__ڑے ہ__و ک_ر اپ__نے کی_اروں پ__ر نظ__ر ڈالی اور اس کی جگسیر نے کھیت میں

آا گئی دور تک پھیلے کھیتوں کی نکر پر اس کا کیا راہری چ__نی پ__ر ش__وق س__ے کش__یدہ کی آانکھوں میں ٹھنڈک

ہوئی بوٹی لگتا تھا۔ وہ خاصی دیر ٹسری کے پھولوں کی طرح چھ_وٹے چھ_وتے پ_ودوں ک_و دیکھت_ا رہ_ا۔ ہ__ر پ_ودے

آانکھ_وں میں عجیب س_ا نش_ہ تھ__ا۔ اور کی ش_اخیں اس_ے اپ_نے جس_م کے اعض_ا کی ط_رح لگ_تی تھیں۔ اس کی

انگ انگ میں ایسا لطیف کے اس کا ایسے کھڑا ہونا بھنتے کو اچھا نہیں لگا تھا۔

آاؤ اب ٹھنڈے ٹھنڈے کام کر لیں۔ بہت ہو گئی۔ ایسے دیکھنے سے اسے لعل نہیں لگیں گے۔ لگیں گے تو "

گندم کے دانے ہی!"

جگسیر کا جیسے سپنا ٹوٹ گیا۔ وہ خاموشی سے بھنتے کے پیچھے چلا اور دونوں کھالا ٹھیک کرنے لگے۔

46

آائے تو جگسیر نے پ__انی ک__اٹنے س__ے ذرا پہلے اپ__نے کھیت کے پھر اگلی رات جب جگسیر اور بھنتا پانی لگانے

لیے سماجت کی اور کہا "پہلے اس کا کام ختم کر لیتے"

"یہ کہیں بھاگا جا رہا ہے؟" بھنتے نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ " بعد میں پانی لگنے سے پٹمیلی نہیں ہوتی "

آاج تک دھ__رم س__نگھ اور وہ جب جگسیر چپ ہو گیا اس کی عمر میں پہلے بار ایسی بے تکی بات ہوئی تھی۔

آاگے ی_ا پیچھے آاتے تو جگسیر کیاریوں کو پہلے پانی لگا کر پھر دوسری طرف م_وڑتے ویس_ے ت_و بھی پانی لگانے

پانی لگنے سے جگسیر کو ایسا فرق بھی نہیں پڑتا تھ__ا ت__اہم بھن__تے کے دن بہ دن روکھے وط__یرے س__ے وہ ض__رور

دکھی ہوا تھا۔ پچھلے دو تین سالوں سے بھنتے کے رنگ ڈھن__گ ہی اور ہ__وتے ج__ا تے تھے۔ اگ__رچہ جگس__یر ک__و

معلوم ہو چک__ا تھ__ا کہ دھ__رم س_نگھ کے بع__د اس کی بھن__تے کے س__اتھ نہیں نبھے گی لیکن اب بھنت__ا ج__و ک__ڑوا

میٹھ__ا بولت_ا رہت_ا جگس_یر س__ے برداش_ت ہون__ا مش_کل تھ__ا۔ اس نے جس س__لوک س_ے دھ__رم س__نگھ کے س__اتھ دن

گذارے تھے وہ چاہتا تھا کہ اس کی باقی سندگی بھی اسی ط__رح گ__زر ج__ائے لیکن اس ک__و یہ ب__ات پ__وری ہ__وتی

آاتی تھی ۔ نظر نہیں

جگسیر نے ساتھ کے کھیت والوں سے پوچھ کر پانی کاٹ لی__ا۔ بھنت__ا یہ ک__ام ک__را کے ٹ__اہلی کے نیچے خش__ک

آاگ جلا لی اور اس کے سامنے کمبل لے کر ٹاہلی کے تنے کے س__اتھ ل__گ تتلے شاخیں اکٹھی کر کے اس نے

کر بیٹھ گیا۔ جگسیر اکیلے کو نکے موڑ نے کے ستھ ساتھ پچھلی کھیت کی طرف چکر لگانا پڑت_ا تھ_ا۔ ای_ک

آائے لیکن ب_ات بگ__ڑنے کے آایا کہ بھنتے سے کہے کہ وہ پچھلے کھیت کا چک__ر لگ_ا دو مرتبہ اس کے ذہن میں

ڈر سے وہ خاموش رہا۔

آا گئے جب وہ اور جگسیر ہنسی خوشی پ_انی لگ_اتے تھے۔ دو یوں اکیلے پانی لگاتے ہوئے جگسیر کو وہ دن یاد

دوپہر پانی لگانے کے باوجود بھی انہیں ایسا لگتا تھا کہ تھکاوٹ ہوئی نہیں۔ س__ردیوں میں ناری__ل کی دو پیالی__اں

چگڑ وہ چلتے پھرتے کھا لیتے تھے اور کبھی اوپر کھیس بھی نہیں لیتے تھے۔ آادھا سیر آادھا اور

47

لیکن یہ تو سب گذری باتیں تھیں انہیں کیا ی__اد کرن__ا؟ جگس__یر س__وچتے ہ__وئے ٹھن__ڈے یخ پ__انی میں، س__ن ہ__وتی

آاہس_تہ س_ے آا رہ_ا ہے۔ اس نے ٹانگوں سے، پانی لگاتا رہا۔ ایک گھنٹے بعد جگسیر کو محسوس ہ_وا کہ پ_انی کم

آایا۔ تم دو چار نکے پانی تبدیل کر لینا۔" آا رہا ہے۔ میں کسی پر چکر لگا کے بھنتے سے کہا "پانی کم

آا جان__ا؟" بھن_تے نے کہ__ا "زی__ادہ ہ__اتھ نہ م__ارو۔ دو کی_اروں ک__ا آادھا کیا راہی ت__و ہے۔ "کہیں بہت دور جا رہے ہو۔

پانی اکٹھا نہیں کاٹتے"

جگسیر نے دو کیاروں میں پانی کاٹ دیا اور کھالے پر چلتے چلتے کسی کی طرف چلا بھنتا تب بھی نہ اٹھا۔

کھالے کے رستے میں ایک جگہ کتنا سارا گھاس پھونس رکاوٹ ڈال رہ__ا تھ__ا اور ی__وں پ__انی اچھ__ل ک__ر س__اتھ کے

کھیت میں جا رہا تھا۔ جگسیر نے اکٹھے ہوتے ہوئے تنکے اور پھ__ونس س__لنگ کے س__اتھ ب__اہر نک__الے۔ ابھی بھی

آایا کھیت چاہے سوئے س__ے زی__ادہ اسے شک تھا کہ پیچھے کہیں ضرور کچھ رکاوٹ پڑ رہی تھی۔ اور وہ پلٹ

دور نہیں تھ__ا ت__اہم وہ جل__دی جل__دی چلا اس__ے ڈر تھ__ا کہ بھنت__ا اٹھ ک__ر پ__انی نہیں دیکھے گ__ا اور اس ک__ا ڈر

صحیح نکلا۔

"اوئے کمجاتے)کم ذات( تم ساری عم__ر ہم__ارا کھ__ا کے اب ہم_ارے س_اتھ یہ کرت_وت ک__ر رہے ہ__و" جب جگس_یر

آای__ا ت__و اس نے بھن_تے کی وہ گن__دی ب__اتیں س_نیں ج_و اس نے پہلے کبھی نہیں س_نی تھیں۔ وہ ٹ_اہلی کے نزدی__ک

چکرا کے کھڑا رہا اور حیرت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بھنتے کی طرف دیکھنے لگا۔

آاواز میں بولا"اپنے طور بڑے چالاک ب__نے پھ__رتے ہ__و "جاتے ہوئے کیا کرتوت کر کے گئے تھے۔" بھنتا پھر سخت

آا رہ__ا تھ__ا ۔ اپ__نے ض__میر پ__ر لیکن ہم نے بھی جانور نہیں چرائے" لیکن جگسیر کو ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں

آاواز میں ب_ولا" کچھ بت_اؤ ت_و" "مجھ س_ے کی_ا پوچھ__تے ہ_و؟" بھنت_ا وہ اتنی سخت چ__وٹ نہ س_ہہ س_کا اور ن_رم

آاواز میں بولا "پانی اپنے کیاروں کی طرف موڑتے ہو اور کہتے ہو پھیرا لگانے جا رہ__ا ہ__وں۔ بھن__تے نے اسی کرخت

لفظ "اپنے کیاروں" دانت بھینچ کر کہتے ہوئے کہا تو جگسیر کا سارا جسم غصے سے ک__انپنے لگ__ا پ__ر اس نے

اپنے اوپر قابو پائے رکھا۔

48

"یہ ش__ک ک__ر کے ت__و نے م__یری زن__دگی کی خ__دمت اک__ارت ک__ر دی ہے۔ "جگس__یر نے ب__ڑے دکھ س__ے کہ__ا اور

خاموش ہو کر چل دیا۔

"میں تمہیں اور تمہارے باپ کو بھی جانتا ہوں۔ ہمارے بوڑھوں کی کھال ہی ادھیڑ ادھیڑ کے کھاتے رہے ہونا!

ایسی چالاکیوں سے تم ہمارے محل تو نہیں بناتے رہتے" بھنتا کتنی دیر ایسی بکواس کر کے بڑبڑاتا رہا۔

جگسیر نے اپنے کیاروں کے پاس سے گذرتے ہوئے پانی ادھ_ر ج_اتے ہ_وئے دیکھ_ا۔ وہ یہ دیکھ ک_ر بہت پریش_ان

ہوا۔ اسے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا محال ہوا تو اس نے کھالے میں سلنگ رکھ کر پھاوڑے کے دستے پر اپن__ا س__ر

ٹکا دیا۔ اس کے اندر سے دھواں سا اٹھ کر اس کے سر کی طرف جا رہا تھا۔ اس سے بیٹھ__ا بھی نہیں ج__ا رہ__ا

تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھالے کے کنارے پر لیٹ گیا۔ پ_ڑے پ__ڑے اس نے جیب س_ے ڈبی_ا نک_الی اس میں افی__ون

کی دو ہی گولیاں تھیں۔ اس نے ایک منہ میں ڈالی اور اسے چبانے لگا۔

آاگ تاپت__ا ہ__وا بھتن__ا اس__ے آائی اور وہ اٹھ بیٹھا۔ ٹاہلی کے نیچے کمبل اوڑھے کافی دیر بعد اس کی جان میں جان

آاگے ب__ڑھ ک__ر شیطان دکھائی دے رہا تھا۔ وہ سلنگ اٹھا کے کھڑا ہو گیا۔اس کی نگاہیں بھن__تے پ__ر گ__ڑی تھیں۔

اس نے کھالے سے دو گھونٹ پانی پیااور اگلے کیاروں کو پانی لگانے کے لیے کھالے میں گھس گیا۔

آادھی رات بعد رات کا تیسرا پہر بیت رہا تھا۔ مرغوں کی اذانیں سنائی دینے لگیں۔ دم توڑتے اندھیرے میں چاند

طلوع ہوا تھا اور اب اچھی بھلی روشنی ہو رہی تھی۔ لیکن جگسیر کو کھیتوں کی مین__ڈھیں دکھ__ائی نہیں دے

رہی تھیں۔ کئی بار اس نے کیارا دیکھے بغیر ان کے منہ بند کر دئیے تھے۔ ایک دو کیاریوں سے پانی اچھل کر

باہر نکل پڑا تھا۔ اس کی عقل کام ہی نہیں کر رہی تھی۔ وہ بے مقصد ادھر ادھر پھرتا رہا۔

آا گیا اور جوتے سمیت کھیت کا چکر لگا کر پھر ٹ__اہلی آادھا گھنٹہ پہلے بھنتا پھاوڑالے کے باری ختم ہونے سے

کے نیچے جا بیٹھا۔ نہ اس نے جگسیر کو بلایا اور نہ اس کے پاس گیا۔

اا ساری گندم کو پانی لگا لیا تھا لیکن علی الص__بح س__خت س__ردی کی وجہ س__ے اس کے ہ__اتھ جگسیر نے تقریب

آانکھ__وں میں چبھن ہ__و پاؤں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ پاؤں بالکل سن ہو گئے تھے جیسے ساتھ ہی نہیں تھے۔

49

آاخ__ری کی_ارے میں اس نے پ__انی کاٹ__ا ت__و پھ__اوڑا اس کے ہ__اتھ س__ے رہی تھی۔ سانس لینا مشکل ہو رہا تھ__ا۔ جب

چھوٹ کر اس کے پاؤں کے انگوٹھےپر لگا۔ لیکن اسے درد محسوس نہ ہوا۔

ساتھ کے کھیتوں والے پ__انی ک_اٹنے کے ل_یے تی_ار کھ__ڑے تھے۔ بھنت_ا ان کے س_اتھ وقت ک__ا جھگ__ڑا ک_رنے لگ_ا۔

آانکھیں بن__د ک__ر جگسیر نڈھال ہو کر کھیت کی باہر والی مینڈھ پر جا بیٹھا اور کسی کے دستے پر سر رکھ ک__ر

آا رہی ہو اور اس کا سارا جسم ڈھیلا پڑنے لگا۔ لیں۔ اس کا سر بھاری ہونے لگا تھا جیسے نیند

آاوازیں دے رہے تھے۔ لگتا تھا انہوں نے پ__انی ک__اٹ لی__ا تھوڑی دیر بعد جب وہ اچانک اٹھا تو اگلے کھیت والے

آا گیا تھا۔ آاخری کیارے میں جگسیر کا چھوڑا ہوا پانی وہاں تک جہاں وہ بیٹھا تھا، تھا۔

آاگ ابھی جگسیر کسی کا سہارا لے کر اٹھا لیکن جب اس نے ٹاہلی کی طرف دیکھا تو بھنتا وہ__اں نہیں تھ__ا۔

بھی دہک رہی تھی۔ وہ ٹاہلی کی طرف چلا۔ اس کی ٹانگیں ج__واب دے رہی تھیں۔ ان ک__و گھس__یٹتے ہ__وئے وہ

بڑی مشکل سے ٹاہلی تک پہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی اس نے راکھ پر پاؤں رکھ کر ٹاہلی کے س__اتھ ٹی__ک لگ__ا لی۔

اس نے کھیس کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹ لیا اور پ_اؤں س_ے چڑھ__تی گ_رمی اس_ے س_ارے جس_م میں محس_وس

آانکھیں بن__د ہ__ونے لگیں۔ پ__اؤں ہونے لگی۔ اس نے گھنے پتوں میں سے جھانکتا نکھ__را چان__د دیکھ__ا ت__و اس کی

کھینچ کر اس نے چھاتی کے ساتھ لگا لیے اور اپنے باپ کی مڑھی پر سر رکھے، گچھا مچھا ہو کر پڑ رہا۔

آائی تو خاصا دن چڑھ چکا تھا۔ اس کے تمام جسم میں ٹیس__یں اٹھ رہی تھیں ۔ جس__م گ__رم پھر جب اسے ہوش

ہو رہ__ا تھ_ا۔ جیب میں ہ__اتھ ڈال ک_ر اس نے ڈبی_ا نک_الی اور افی_ون کی دوس_ری گ_ولی بھی منہ میں ڈال لی۔ جب

کوشش کر کے اٹھا تو اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ کھالے میں سے پانی ک__ا چل__و منہ میں ڈال ک__ر اس نے

افیون گلے سے نیچے دھکیل دی اور گاؤں کی طرف چلا۔

آاگ آائی ت__و اس ک_ا جس__م آاگ کے سامنے بیٹھے بھنتے کی ش_کل ی__اد راہ چلتے اسے کئی بار ٹاہلی کے نیچے،

آا لیا۔ کی طرح دہکنے لگا اور گھر پہنچنے تک اسے سخت بخار نے

پانچ

50

جگسیر دو دن چارپائی پر رہا۔ بخار نے اس کے جسم کو مروڑ ڈالا تھا۔ پرانے گدے پر پڑے بچھ_ونے میں س_ے

چارپ_ائی ک__ا ب__ان اس__ے چبھت__ا تھ__ا۔ تیس_رے دن وہ ک__افی رات گ_ئے اٹھ بیٹھ__ا۔ نن_دی دو دن اس کی دیکھ بھ__ال

کرتے تھک کر سو گئی تھی۔ جگسیر کھیس کی بکل مارے چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ کم_زوری کی وجہ س_ے

آاہستہ چلنے لگا۔ آاہستہ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں لیکن وہ ہمت کر کے

وہ باہر والے دروازے کی کن__ڈی لگ__ا کے رونقی کی بھ__ٹی کی ط__رف چ__ل پ__ڑا۔ کھیچے چھ__تی کے دروازے کے

پاس سے گذرتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگیں زیادہ ک__انپنے لگی تھیں۔ دون_وں ہ__اتھ کم__ر پ__ر رکھے

آارام کر کے جب اس نے سر اٹھایا وہ کھیمے کے دروازے کے سامنے گڑھی ایک مڈھی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر

تو اس کی نگ_اہ اپ_نے اح_اطے کے گھ_ڑوں پ__ر ج_ا پ_ڑی۔ ان_دھیری رات میں یہ گھ__ر اس_ے کت_وں کی کھوہ_وں کی

آادمی ان میں آائے۔ چھوٹے چھوٹے تاریک اور گہرے بعض کی چھتیں اتنی نیچی تھیں کہ ک__وئی لمب__ا طرح نظر

چل پھر نہیں سکتا تھ_ا۔ ص_حنون ک_و علیح_دہ ک_رنے کے ل__یے دی_واروں کی بج_ائے لوگ_وں نے ب__اڑیں لگ_ائی ہ__وئی

تھیں۔ اوپر نیچے رسیاں بندھی دی__واروں کے پلس_تریوں اکھ__ڑ رہے تھے جیس__ے ک__وہڑی کے جس_م پ__ر پھ__وڑے۔ اس

کی زندگی میں احاطے میں سے کس__ی نے ک__وئی چھت نہیں ڈالی تھی بارش__وں میں جب کس__ی پ__رانے کم__رے

کی چھت یا دیوار گر جاتی تو لوگ پرانی اینٹوں اور لکڑی س__ے س__ر ڈھ__انپنے کے قاب__ل بن__ا لی__تے۔ اور ی__وں ان کے

دن کٹ رہے تھے۔

آای__ا۔ اس_ی اح__اطے میں آا گئی۔ معل__وم نہیں اس__ے یہ خی__ال کیس_ے 'کتوں کی کھوہیں' جگسیر کو سوچ کر ہنسی

اس کی پیدائش ہوئی۔ اسی میں وہ پلا بڑھا اور بی__الیس س_ال کی عم__ر بھگت چک_ا تھ_ا۔ لیکن یہ اس س__ے پہلے

کتوں کے کھوہ نہیں لگتے تھے۔

اس کی زندگی میں ان گھروں میں جوانی میں پیدا ہونے والے لڑکے لڑکیاں اب جوان ہو گئے تھے۔ ان میں س__ے

کتنوں کے بیاہ ہو گئے تھے ۔ کئیوں کے بچے ہو گئے تھے اور اح__اطہ مکھی__وں کے چھ__تے کی ط__رح بھرت__ا ج__ا

رہ__ا تھ__ا۔ ای__ک ہی کم__رے میں جہ__اں بیس پچیس س__ال پہلے دو تین جی رہ__تے تھے اب اس__ی کم__رے میں دس

دس جی سوتے تھے۔ لوگ پیالیاں بٹھل اور چھوٹے موٹے برتن ایک ط_رف رکھ ک_ر ای_ک دوس_رے کے اوپ_ر گھس_ڑ

51

مس__ڑ کے چھ__وٹی م__وٹی چارپ__ائیوں کے اوپ__ر رات ک__اٹ لی__تے تھے۔ ای__ک ای__ک چارپ__ائی پ__ر تین تین بچے اکٹھے

سوتے تھے۔ زمین پر سو لیتے لیکن کھلا کمرہ کوئی نہ چھت سکتا۔

کئی دفعہ جگسیر نے نئے بیاہتا لڑکوں کو ماں باپ کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے سنا تھ__ا جب ک_وئی بی_اہ ہوت__ا ت__و

نو بیاہتا جوڑے کو کمرے میں جگہ دے کر بوڑھے سردیوں کی راتوں میں باہر چھپروں کے نیچے س__وتے۔ س__اری

آاتی۔ پھ__ر بھی وہ ص__بح س__ویرے اٹھ رات انہیں پرانے پھٹے ہوئے بچھونوں میں سخت سردی کی وجہ سے نیند نہ

کے کچھ کہے سنے بغ__یر ک_ام دھن_دے س_ے ل__گ ج__اتے۔ رات ک_و س_وتے وقت جب ک__وئی ہمس_ایہ انہیں کم__رہ

آا گ__ئی اور دن؟ چھتنے کا مشورہ دیتا تو ایک ہی جواب ملتا "چل رات ہی تو کاٹنی ہے"۔جگسیر ک__و پھ__ر ہنس__ی

دن کٹ__نے کے ب__ارے میں بھی اس نے اپ__نے اح__اطے کے لوگ__وں کے منہ س__ے اس س__ے مختل__ف ب__ات نہیں س__نی

آاہ بھر کے( کہت_ا"اچھ_ا ہے! آاگے جواب دینے والا سادگی) اور کبھی لمبی تھی۔ کوئی کسی کا حال پوچھتا تو

بس جو دن گذر گیا خوب ہے" یا اس بات کو کوئی اس طرح کہہ دیتا "اچھا ہے ایک دن گزار کر موت ک_و

اور نزدیک کر لیا ہے"

آادمی کے چہ__رے پ__ر رون__ق نہیں دیکھی تھی۔ ل__وگ ہنس__تے تھے لیکن ان کے اس نے اپ__نے اح__اطے کے کس__ی

چہروں پر چھائی اداسی ان کی ہنسی کو گہنا دیتی تھی۔ ہر وقت ایک دوس__رے ک__و گ__الم گل__وچ گن__دی ب__اتیں

اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ ک__وئی اچھی ب__ات کم ہی س__نی ج__اتی تھی۔ جب کبھی بی__اہ ش__ادی ہ__وتی ت__و پ__انچ

سات دن کے لیے رونق لگ جاتی۔ جیسے اچھی بارش پڑنے پر سوکھے ہوئے درخت_وں میں س_ے پ_تے پھ_وٹ پ_ڑتے

ہیں۔ گھر کی کشید کی گئی شراب کی طرح بارش پڑتی ہے تو لوگوں کے چہروں پر خوشی کے فوارے پھ__وٹ

پڑتے لیکن اس کے بعد پھر وہی روکھے بول اور وہی اداسی۔

"بندےتیری دس بیٹیاں۔ ایک کا ہوا بیاہ۔لو گئی کہاں" جگسیر نے منہ میں یہ بول دہ__رائے ت__و اس__ے پچھلے س__ال

آا گئی۔ جو کبھی سارے احاطے کی رونق ہوتا تھا۔خشک درختوں کے درمیان ای__ک ہ__را مرے لالو بڈھے کی یاد

آادھی رات ت__ک اس__کی ب__اتیں س__نتے آادھی بھ__را درخت! جب جگس__یر چھوٹ__ا تھ__ا اس کے اح__اطے کے بچے

رہتے۔ وہ بچوں کو باتوں کے ساتھ ساتھ، چھوٹے چھوٹے مذاق بھی سناتا۔ جگسیر کو یاد تھا کہ اس نے کبھی

لالو کے چہرے پر اداسی نہیں دیکھی تھی۔ وہ ہر ایک س__ے ٹھٹھہ م__ذاق کرت__ا۔ چ__رخی کی ط__رح گھومت__ا رہت__ا۔

52

پھر لالو کا بیاہ ہو گیا۔ اس کے بیٹے ، بیٹی_اں ہ__وئیں اور اس کے دو ل_ڑکے ڈاک_وؤں کے س_اتھ م_ل گ_ئے۔ ان میں

سے ایک کو تو پولیس نے کمادوں میں گھیر کر مار دیا۔ دوسرا ف__رار ہ__و گی__ا۔ تیس__رے کی ابھی عم__ر نہیں تھی۔

تین بچیوں کے بیاہ کی عم_ر ہ__ونے ک_و تھی۔نافرم_ان اولاد نے لال__و ک_و پچ_اس س_ال کی عم_ر میں ہی س_تر س_الہ

بوڑھا کر دی__ا۔ اس کی ہمت چوتھ__ا حص__ہ بھی نہیں رہی تھی۔ اس بڑھ__اپے میں اس نے دو اور مزارع__وں کےس__اتھ

حصہ ملانے کے لالچ میں بٹائی کے سخت کام نے اسے دو برسوں میں ہی ختم کر دیا۔

یوں پچھلے سال وہ اپنی بیٹیوں کے جہ_یز کے ل_یے ک_وڑی ک_وڑی جوڑت_ا، اچان__ک م_ر گی_ا۔ م_رنے س_ے ای_ک س_ال

پہلے جگسیر کے ساتھیوں ہم عمروں کو اس کی پہچان ہی نہیں رہی تھی۔ پریوں، رانی__وں اور جودھ__ا ب__ائیوں کی

باتیں سنانے اور مذاق کرنے والا لالو لالونہیں رہا تھا۔ مرنے س_ے کچھ س_ال پہلے والا لال__و دس بی_ٹیوں والا لال__و

آاہیں بھ__ر بھ__ر ک__ر رہ گیا تھا۔ اسے سارے احاطے کے لوگ اس__ی ن__ام س_ے پک__ارنے ل__گ گ_ئے تھے۔ وہ اب لم__بی

گربانی کی طرح یہ کہتا پھرتا)کبھی کبھی گنگنانے بھی لگ جاتا(۔ بندے تیری دس بیٹی_اں۔ ای_ک ک_ا ہ__وا بی_اہ۔

نو گئیں کہاں" اور اب تو اس کی ایک بیٹی بھی بیاہنے کے قابل نہیں رہی تھی۔

جگسیر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گی__ا۔ ایس_ی س_وچیں س_وچ ک_ر اس ک__ا چہ__رہ ات__را ہ__وا تھ_ا۔ ایس_ی س_وچیں

آاج کی مانن__د ات__نی گہ__رائی س__ے اس نے ان کھوہ__وں آانے لگی تھیں لیکن اگ__رچہ اس__ے کچھ برس__وں س__ے زی__ادہ

جیسے گھروں میں رہنے والوں کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔

چمڈھی سے اٹھ کر اس نے چلتے وقت پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھیچے چھتی کا تین شہتیروں پ__ر چوک__اٹھ لگ__ا نی__ا

دروازہ دیکھ کر وہ پھر کھڑا ہو گیا۔ چوکاٹھ کی افقی لکڑی پ__ر ک__اریگروں نے رن__گ ب__رنگی مورتی_اں بن__ائی تھیں۔

کبوتر، طوطے، بیلیں اور پھول، اندھیری رات کی روشنی میں ان کے نقوش واض__ح ہ__و رہے تھے۔ دروازے پ__ر کی

گئی سفیدی چاندی کے اوراق کی طرح چم__ک رہی تھی۔ دروازہ اتن__ا اونچ__ا تھ__ا کہ اس کے نیچے س__ے چ__ارے

آاسانی سے گذر سکتا تھا۔ کا بھرا گڈا

جگسیر نے ایک بھرپور نگاہ دروازے پر دوڑائی اور پھ__ر س__امنے دکھ__تے اپ__نے گھ__روں پ_ر نظ_ر دوڑائی۔ اس دروازے

آا رہے تھے جیسے کچی اینٹوں سے بنی مڑھیاں! کو دیکھنے کے بعد وہ اور بھی چھوٹے اور سیاہ نظر

53

وہ نیچی نگاہ کئے چلنے لگا۔ سردی سے اس کی ٹانگیں ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔ اس نے کھیس کا ایک پلو لمب__ا

آاہس__تہ چ__ل رہ__ا تھ__ا کر کے ٹخنوں تک لٹکا لیا۔ یوں ہوا کی روک ہونے سے سردی کچھ کم ہو گئی۔ وہ اس قدر

آانے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کہ پچاس کرموں پر رونقی کی بھٹی

اس طرح چلتے ہوئے جب وہ اگلی گلی کا م__وڑ م__ڑا ت__و اس__ے رونقی کی ک__وٹھڑی میں ادھ کھلے دروازے س__ے ،

آائی۔ دو س__ال پہلے آانے لگی ق_دموں میں ت__یزی آای__ا۔ اس__ے کچھ حوص__لہ ہ__وا۔ ٹ__انگوں میں گ__رمی دیا ٹمٹمات__ا نظ__ر

جب سنتو کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی رونقی اور جگسیر کا ملاپ بڑھ گیا تھا۔

رونقی کی سنتو پندرہ برس اس کے گھر میں رہ کر ، چپ چ__اپ، کس__ی کے س__اتھ ، کہیں بھ__اگ گ__ئی تھی۔

آادمی کو چھ__وڑ ک__ر کی__وں چلی گ__ئی تھی؟ رونقی آاتی تھی کہ وہ 'گولے 'جیسے کسی کو یہ بات سمجھ نہیں

نے پندرہ سال اس کا 'گول پنا' ہی تو کی__ا تھ__ا۔ وہ کبھی اس کے س__امنے نہیں ب__ولا تھ__ا۔ اس ک__ا رونقی پ__ر رعب

آادھا دن ویہنگی پر لوگوں کے گھروں کا پانی بھرتا اور عین دوپہ__ر کے وقت تھانیداروں سے بھی بڑھ کر تھا۔ وہ

آانے والے بچوں سے وہ مذاق کرتا رہتا۔ ان کے باہر بھٹی پر بیٹھ کر اس میں بالن ڈالتا تھا۔ دانے بھنوانے کے لیے

ساتھ مل کر غل غپاڑہ کرتا۔ پندرہ س__الوں میں بھی س__نتو کی ک__وکھ ہ__ری نہ ہ__وئی۔ اولاد کی خ__اطر انہ__وں نے دن

رات روٹیاں پکائیں لیکن ان کی کہیں نہ سنی گئی۔ پھر رونقی کی طرح ، سنتو نے دوسروں کے بچوں میں دل

لگا لیا۔ وہ بھی رونقی کی طرح ان سے ٹھٹھہ مذاق کرنے لگی۔ اگر کوئی کہت__ا "چ__اچی م__یری بے بے نے دانے

کم دئیے ہیں بھاڑا کل لے لینا" تو وہ بھاڑا لی_نے کی بج_ائے اکٹھے ہ_وئے بھ__اڑے میں س_ے دو تین مٹھی_اں دان_وں

کی اور ڈال کر کہتی" اور ڈالوں؟ پر اب تمہیں میرا بیٹا بننا پڑے گا" بچہ مسکرا کے 'ہ__اں' کہہ دیت_ا ت_و اس کے

آا جاتی۔ کتنی کتنی دیر اس کے بھرے چہرے پر سرخی چھائی رہتی۔ چہرے پر رونق

ایسی سنتو ایسے رونقی کو کی_وں چھ__وڑ ک_ر چلی گ_ئی؟ اس الجھی ہ__وئی زن__دگی کے ایس_ے گہ_رے بھی__د ک_ون

چبک__ل آای__ا ت__و اس نے دیکھ__ا کہ رونقی غن_ودگی میں تھ__ا۔ کھیس کی س__مجھے؟ جب جگس__یر بھ__ٹی کے نزدی__ک

آانکھیں بن_د مارے اور منہ میں حقے کی نڑی ڈالے وہ بھٹی پر ایسا ساکت بیٹھا تھا جیس_ے س_و رہ__ا ہ_و۔ اس کی

تھیں۔ اس کا چہرہ اچھی طرح سے نہیں دکھ رہا تھا۔ چلم اور صافی کو دونوں ہاتھوں سے تھامنے کی ب__دولت

اس کا چہرہ اچھی طرح سے نہیں دکھ رہا تھا۔

54

آاہس__تہ س__ے منہ میں کہ__ا آا کے اگ__رچہ "اب تو بلونگڑے کی طرح ہو گئے ہو ملنگ جھی__ور" جگس__یر نے نزدی__ک

لیکن رونقی کے کان کھڑے ہو گئے۔

آا اوئے جگسیر" اس نے منہ سے چلم ہٹاتے ہوئے مس__کرا ک__ر کہ__ا" پتہ نہیں کس قبی__ل داری میں مص__روف رہ__تے "

ہو؟ کتنے دنوں سے پھیرا ہی نہیں لگایا؟"

آاگ گرائی راکھ میں سے ٹھیک_ری نک__ال ک_ر چلم کے منہ میں ڈال__تے ہ__وئے چلم ک_ڑاہی کے رونقی نے چلم کی

آا بیٹھا۔ کنڈے کے ساتھ رکھ دی اور بھٹی کے نزدیک

آا جاؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔ گرم جگہ ہے" اس نے بیٹھتے ہوئے دائیں طرف ہاتھ زمین پر مارتے ہوئے کہا۔ "

" اب تو رونقی تجھے چھوڑ دیں گے" جگسیر نے گہری س__انس لی_تے ہ__وئے ، گھٹن_وں پ__ر ہ__اتھ رکھ ک__ر ، رونقی

کے پاس بیٹھتے ہوئےکہا۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو ابھی سے " کچھ ح__یرانی اور غص__ے س__ے رونقی ب__ولا۔ پ__ر اپ__نی چ__وہے جیس__ی مونچھ__وں ک__و

پھڑکاتے ہوئے مسکرا کر بولا" کملیا ابھی تو ہم نے گانے باندھنے ہیں۔ ۔۔۔مائیاں بیٹھنا ہے"

وہ دونوں ہنس پڑے لیکن یہ ہنسی ایسی بناوٹی تھی کہ دونوں جل__د ہی کھس_یانے ہ__و گ__ئے جیس_ے اس ہنس__ی پ__ر

آا گئی ہو۔ انہیں شرم

"کیا بات ہے۔ کچھ ڈھیلے ہو؟" چند لمحوں بعد رونقی نے فکرمند ہو کر پوچھا۔

آا رہا ہے۔ تم نے تو پوچھا ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ خود ہی جاؤں۔ اگر وہ بے وفا ہ__و "مجھے دو دن سے بخار

گیا ہے تو ہم نے یار کی یاری نبھانی ہے۔ عیب تو نہیں دیکھنے"

"نہیں نہیں" چھوٹا سا منہ بنا کے ، کچھ شرمندگی کے ساتھ رونقی ب_ولا" ڈھان_ڈی کی قس_م مجھے ت_و معل__وم

ہی نہیں تھا۔ ورنہ میں رکتا؟" اور پھر جگسیر کی طرف دیکھ کر کچھ ٹھہر کر بولا۔

"کوئی دوائی پی؟"

"دوائی کیالینی ہے ۔ خود ہی اتر جائے گا"

55

"لو کملا نہ سیانا!" رونقی نے اپنائیت سے جگسیر کو جیسے جھڑکتے ہوئے کہا " اس بخار کے سالے بھ__وت

کو ہم رہنے کیوں دیں۔ ابھی ل__و۔ انتظ__ام کرت__ا ہ__وں۔ مجھے ت__و ج__وانی کی قس__م پتہ ہی نہیں چلا۔ اپ__نے پ__اس ت__و

لیکھے بابے کی ایسی گولیاں ہیں کہ بخار تو کیا بخار کا باپ بھی نہیں رہے گا"

بھٹی کی راکھ میں ٹمٹماتے انگاروں کی روشنی میں جب جگسیر نے رونقی کو جوانی کی قسم کھاتے دیکھ__ا

آا گئی لیکن ساتھ ہی سوچ کر اسے ایک دھچک__ا لگ__ا اور اس کے چہ__رے پ__ر اداس__ی چھ__ا گ__ئی۔ تو اسے ہنسی

اسے رونقی پہچانا ہی نہیں جا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ رونقی کو دس پن__درہ س__الوں کے بع__د دیکھ رہ__ا

آانکھوں کے کناروں پر کتنی باری__ک باری__ک جھری__اں پ__ڑ چکی تھیں۔ ب_اچھوں ہو۔ اس کی چمکیلی، لالی جیسی

سے ناک کے دونوں اطراف گہری لکیروں نے اس کے لمبے ، چھوٹے چہرے کو کھوکھلی ککڑی جیسا چپک__ا

دیا تھا۔ ماتھے کی لکیریں اور گہ_ری ہ__و گ_ئی تھیں جیس_ے ج__ال بن_ا ہ__و۔ چھ_دری داڑھی کے اڑھ__ائی ب__الوں میں

آادھے سے زی__ادہ س__فید ہ__و چکے تھے۔ ویس_ے ہی ات__نے س__الوں میں علیح_دہ رہ__نے کی وجہ س__ے رونقی ک_ا چہ__رہ

پچکا ہوا لگتا تھ__ا۔ بس ای__ک لم__بی ن__اک ہی ن__اک اس کے چہ__رے پ__ر رس_وئی کی چھ__وٹی چھت پ__ر لگے ب__ڑے

پرنالے کی طرح لگتی تھی۔

جب رونقی اٹھ کے کوٹھڑی کی طرف گیا تو جگسیر نے اس کی پہلے سے بھی زی_ادہ کم_زور ج_ان اور چھ_وٹی

چھوٹی ٹیڑھی ٹانگیں ایک بھرپور نظر سے دیکھیں اور بے بسی سے ٹھنڈا سانس لیا۔

"بندیا تیری دس بیٹیاں

ایک کا ہوا بیاہ نو گئیں کہاں"

ایک لمحے بعد رونقی ایک ہاتھ میں سلور کے پیالے میں پانی اور دوسرے میں چھوٹی چھوٹی بھورے رن__گ کی

آایا۔ دو گولیاں لے

"لو کھاتے ہی ٹلی جیسے نہ ہو جاؤ تو کہنا"گولیا ں جگسیر کو پکڑا کے اس نے پیالہ گرم راکھ پر رکھ دیا۔

آانکھ__وں س__ے وہ کچھ اچھی جگسیر اندھیرے میں گولیوں کو ٹٹولتے ہوئے غور سے دیکھ__نے لگ__ا۔ لیکن دکھ__تی

طرح سے نہ دیکھ سکا۔

56

جب پانی ذرا کنکنا ہوا تو رونقی نے انگلی سے ٹٹول کے محسوس کیا اور پیالہ جگسیر کو پکڑا دیا۔

"دونوں لے لوں؟" جگسیر نے پوچھا۔

"ہاں دونوں"

جگسیر نے دونوں گولیاں منہ میں ڈال کر کنکنے پانی کا گھونٹ لی__ا اور پھ__ر راکھ س__ے جگس__یر ک__ا جھوٹ__ا پی__الہ

مانجھنے لگا۔

"چھوڑو یار یہ کیا پاگل پن کر رہے ہو!" رونقی نے اس کے ہاتھ سے پیالہ چھینتے ہوئے کہ__ا" ایس_ی س__وچ ب__ڑے

گھروں کی ہوتی ہے جسے یار کہا پھر اس سے پرہیز کیسا"

اور رونقی پیالہ مانجھنے لگا ۔ جگسیر کو لگا جیسے رونقی کی یہ بات اس کے اندر بنی جنموں کی لک__یر ک__و

ص__اف ک__ر گ__ئی تھی اور اس کے دل کی س__لیٹ ص__اف دکھ__ائی دی__نے لگی ۔ ج__وانی میں اس کی گھیلے اور

گیبے سے دوستی رہی تھی۔ ان کے ساتھ مل ک__ر اس__نے ش__راب بھی پی تھی ۔ روٹی بھی کھ__ائی تھی لیکن اس

کا جھوٹا کھانا یا اس کا جھوٹا برتن م_انجنے کی ہمت کس_ی نے نہیں کی تھی۔ جگس_یر کچھ دی_ر رونقی ک__و

آانکھیں بھیگ گئیں۔ جنموں کے پتھرسے پانی نچڑ رہا تھا۔ پیالہ مانجھتے دیکھتا رہا پھر اس کی

آاگ کی راکھ پیالہ مانجنے کے بعد رونقی ڈنڈے کے س__اتھ جل__تی راکھ کری__دنے لگ__ا۔ تنک__وں اور س__رکنڈوں کی

آانکھ_وں کی چم__ک میں تھوڑی دیر کے لیے چنگاریاں چمکتیں اور بجھ جاتیں۔ اور یوں رونقی کی لالی جیس_ی

شیر کی طرح ٹمٹماتی ۔ کچھ دیر وہ خاموش رہا پھر ایک دم بولا۔

"جگسیا کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ کہیں بھاگ جائیں"

"کہاں؟ پتال میں؟" جگسیر نے تھوڑا ہنس کے پوچھا۔

آاتی ہے! وہ فرصت"! " تو نے گئو میا کی قسم بات مذاق میں ٹال دی۔ کبھی سسرال کی بہت یاد

ابھی ابھی رونقی کی کریدی ہ__وئی راکھ کی چنگ__اریوں کی روش__نی میں جگس__یر نے دیکھ__ا ت__و اس__ے رونقی کی

آایا۔ اتنی تھوڑی روش_نی میں بھی جگس__یر ک_و رونقی آانکھوں میں اس کے الفاظ کا سارا نقشہ صاف چمکتا نظر

57

آا آانکھ_وں کے کون_وں میں پ_ڑی باری_ک جھری_وں کی گہ_رائی اوراس کی چ__وہے جیس_ی ک_انپنی م_ونچھیں نظ_ر کی

گئیں۔ جگسیر اس کے چہرے کے اس اداس رنگ کے اثر سے نہ بچ سکا اور ساتھ ہی س_اتھ اس کے ہونٹ_وں پہ

آائی ہنسی غائب ہو گئی۔ سر نیہوڑائے وہ بھی ڈنڈے کے ساتھ راکھ کریدنے لگا۔

آاواز دی ہو۔ "بھلا انس__ان "جگسیا" اب کے رونقی یوں بولا جیسے اس نے کہیں دور چلتے پھرتے جگسیر کو

آاج مر ج__اؤں یہ سب کچھ کیوں کرتا ہے۔ تم سوچو نہ میری ذمہ داری، اکیلی جان ہے۔ وہ بھی چھوڑ دے گی!

تو کوئی پھوکن)جلانے( والا بھی نہیں۔ پھر بھی م_یرے بن_ا دنی_ا س_ونی نہیں ہ__و ج_ائے گی۔ م_یرے جیس_ے ک_ئی

کیڑے پتنگے شام کو م__ر ج__اتے ہیں۔ ہم ک__یڑے ، پتنگے ہی ت__و ہیں۔ ک__وئی انس__انوں میں ش__امل تھ__وڑے ہی ہیں۔

آاتی کیا تماشہ رچایا ہوا ہے تماشہ رچانے والے نے!" مرنے کو ابھی بھی جی نہیں کرتا۔ سمجھ نہیں

آاہستہ سے چھوڑا جیسے اپنے اندر اکٹھے ہوئے ان خی_الوں ک_و بات ختم کر کے رونقی نے لمبا سانس لے کر یوں

ساتھ ہی نکالنا چاہتا ہو۔وہ تھوڑی دیر خاموش رہا لیکن پھر جگسیر کے جواب کا انتظار کیے بغیر بولنے لگا:

"اسے گئے دوسال ہو گئے۔ ابھی بھی کنج_ری خی_الوں س_ے نہیں نکل__تی۔ رات ک_و س_پنوں میں بھی پیچھ_ا نہیں

آاتے ہی سینگوں آائی۔ ایں اوں کرتی جھوٹا رونا روتی، آائی کہ چھوڑتی۔ جاگتے میں یوں لگتا ہے جیسے بس ابھی

آاج این__دھن نہیں لان__ا؟ بھ__ٹی میں پر اٹھا لے گی اور للکار کے کہے گی "ج__ا اوئے کھانی_اں! اپ__نی ج__ان جلاؤں

تیرا سر جلاؤں گی۔ ۔۔؟جگسیا گئو کی قسم۔۔۔۔۔"

آانس_و راکھ آانکھ_وں س_ے ٹپک_تے آاگے وہ نہ بول سکا۔ اس کی چیخ نکل گئی۔ جگس_یر نے اس کی اور اس سے

آایا! میں موٹی بوندوں کی طرح گرتے دیکھے تو اس کا جی بھر

"اس طرح جی چھوٹا کرنے سے تو کچھ نہیں ہوتا رونق!" جگسیر نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہ__ا لیکن خ__ود پ__ر

قابو نہ پا سکا۔

"جگسیا بہت نکالتا ہوں۔۔۔۔بہت نکالت_ا ہ__وں۔۔۔۔۔لیکن ان_در س__ے نہیں نکل__تی۔ پیچھ__ا ہی نہیں چھ__وڑتی۔۔۔۔

آاہیں بھرتے رک کر رونقی نے کہا اور اس کی ایک اور چیخ نکل گئی۔ میں کیا کروں؟" بچوں کی طرح

58

آاج کی ط__رح اس نے کبھی دل چھوٹ__ا رونقی پہلے بھی جگس__یر کےس__اتھ س__نتو کی ب__اتیں کی__ا کرت__ا تھ__ا لیکن

نہیں کی_ا تھ_ا۔ کبھی کبھی وہ س_نتو کی پ_رانی ب__اتیں ایس_ے ہنس ہنس کے کرت_ا جیس_ے اس ک__ا س_نتو کے س__اتھ

کوئی تعلق ہی نہ ہو لیکن تب جگسیر یہ جان جاتا کہ اس کی ہنس_ی میں کت__نی گہ__ری اور اص__لی ہ__وتی تھی ۔

اس میں اداسی کی کت__نی ملاوٹ ہ__وتی تھی۔ رونقی کی یہ ہنس__نے کی ع__ادت ک__ئی دفعہ جگس__یر ک__و اداس ک__ر

جاتی لیکن اس سے پہلے اس اداسی کا اتنا گہرا اثر اس کے دل پر کبھی نہیں ہوا تھا۔

آاواز میں آانکھیں پ__ونچھیں اور رن__دھی "اچھا مالکا)مالک( ! " کافی دیر کے بع__د رونقی نے کھیس کے پل__و س__ے

آاتا ہے تو اور جلا لے۔۔۔۔۔لیکن اس سے کی__ا ہم__ارا موگھ__ا ت__ڑوا دو بولا"اگر تمہیں ہمارے جیسوں کو جلا کر مزا

گے؟۔۔۔۔۔ اس س__ے زی__ادہ ت__و ک__رنے س__ے رہے۔۔۔۔ اکیلی ج__ان ہے چ__اہے نیون__درے میں وص__ول ک__رلے اور چ__اہے

سلامی میں!"

جگسیر کو لگا جیسے رونقی اپنے م__ذاحیہ ط__بیعیت س__ے رب کے س__اتھ تمس__خر ک__ر رہ__ا تھ__ا اور اس کی چ__وہے

آانکھوں کے کنارے ابھی گیلے تھے اور ان کی چمک جیسی مونچھیں پھڑکنے لگی تھیں لیکن چھوٹی چھوٹی

ابھی بھی ماند پڑی ہوئی تھی۔

آاواز جگسیر نے سنی تو اس نے موقع پا کر بات ادھر موڑ دی: آاتی گہری آائی اے" پرے گواڑوں سے "جاگو

"رونقا کسی کا بیاہ ہے؟"

آاج برات تھی" "ہاں باتوں کے رئیس سوہنے ٹنڈے کے بڑے لڑکے کی

"جو ویلی سا ہے دھنل بیل جیسا، ہڈیوں کا ڈھانچہ!"

آانکھوں سے س_ارا دن لیس نکل_تی رہ_تی ہے۔ ب__اچھوں پ__ر تھ_وک جمی "ہاں ہاں وہی۔ رئیسوں کے سالے جس کی

رہتی ہے جیسے موگھے کے اطراف برف جمی ہوتی ہے۔ لو! اب اس کو بھی ت_و کس_ی نے ل__ڑکی دی_نی ہے۔۔۔۔

اس سے تو بہتر تھا کسی بچھ__ڑے کے س__اتھ ج__وڑ دیت_ا۔ کنج__ر کی اولاد جگس_یا ایس__ے بے ج__وڑ رش_تے ک__رنے

والوں کو کیڑے پڑتے ہیں۔"

چاندر کے اکھاڑے کی پری ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس سے بھی چندری)بد صورت( ہو" "لیکن لڑکی کون سی

59

"بات تو تم نے صحیح کی ہے"۔

رونقی ہلکا سا قہقہہ مار کے بولا: "لیکن اسے کسی نے واج_بی ص_ورت والی ل_ڑکی دے کے کن_ویں میں ڈال_نی

ہے۔ اگر لڑکا کوئ دھول دھپا کر بیٹھا تو ناجک)نازک( سی لڑکی کا تو ایک ہی ہلے میں گ__ردن ت__وڑ دے گ__ا۔

ہے میریا مالکا)ہے میرے مالک( لو ایسے جانوروں میں بھی رب انسانوں کی ج__ون ڈال دیت__ا ہے۔ ویس__ے جگس__یا

یہ کوئی انصاف تو نہیں؟"

"انصاف کیوں نہیں۔ ایسوں کو بیل بناتا تو کسی ہماتڑ تماتڑ کا رزق مارتے اب ان کا کیا فائدہ ہے"

آاتی سنی تو دونوں کا دھیان ادھر ہو گیا۔ آاواز نزدیک آائی اے" اس نے "جاگو

"یہ توست اپنی۔۔۔۔پسند کی لڑکی کا لگتا ہے۔۔۔۔۔اسی لیے گھنٹی کی طرح چمک رہا ہے"

آای__ا ت__و جگس_یر مس_کرا دی__ا اور اس_ے معل__وم ہ__وا کہ رونقی نے ی_وں کہک_ر رونقی جب 'تیری' کہت_ا کہت_ا 'اپ_نی ' پ__ر

اپنائیت اور گہری کر لی تھی۔

آا گئی تھیں۔ دونوں نے کان کھرے کر لیے اور کتنی دیر خاموشی سے س__نتے آاوازیں اور نزدیک 'جاگو' والیوں کی

رہے۔

آائی ہے۔۔۔۔۔۔ "جاگو

"ارے جورو جگا لے

آائی ہے جاگو

بی بی چپ کرجا

مشکل سے سلائی ہے"

آاتے دیکھا۔ سب س__ے اور ساتھ ہی انہوں نے راجو کی گلی کا موڑ مڑ کر ، 'جاگو' والی میلنوں)عورتوں( کو ادھر

لمبی عورت نے 'جاگو' اٹھائی ہوئی تھی۔ اس نے سر پر رکھی ٹوکری میں اتنے دئیے جلائے ہوئے تھے کہ م__وڑ پ__ر

آا رہی تھی۔ ٹوکری والی تینوں لڑکیوں کے پیچھے ایک نے اپنا گھاگھرا ایک ط__رف سے ان کی روشنی بھٹی تک

60

سے اوپر اٹھایا ہوا تھا۔ کرتی کا دائیاں بازو اتارا ہوا تھا اور کن__دھے س_ے نیچے س_ارا ب__ازو ننگ_ا تھ__ا۔ اس نے چ__نی

اتار کر کمر کے ساتھ باندھی ہوئی تھی اور ہاتھ میں گھنگھروؤں والا ڈنڈا۔ ڈنڈے ک__و اوپ__ر ک__ر کے وہ 'ج__اگو'

کی تال کے ساتھ اچھلتی ہوئی ناچ رہی تھی۔ اس کے سر پر گندھے سگی پھول دئیوں کی روشنی میں چم__ک

رہے تھے۔ جیس__ے پ__انی میں بجلی کی چم__ک، کہیں کہیں، ک__رتی ش__لوار والی ک__و خوبص__ورت ل__ڑکی، پچھلی

آان مل__تی اور چ__نی ک__و ہ__وا میں آاگ کی چم__ک کی ط__رح نک__ل ک__ر اس ڈن__ڈے والی کے س__اتھ میلن__وں میں س__ے

اڑاتی۔ ننگے سرپر ہاتھ مارتی اور دو چکر لگا کر میلنوں میں جا شریک ہوتی۔

"دیکھ۔۔۔۔ویکھ جٹیاں کیسے جوش میں ہیں۔" رونقی نے ان پر نگاہ ٹکاتے ہوئے کہا۔ پھ__ر اپ__نے چ__وہے جیس__ی

مونچھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

اا پندرہ قدموں پر تھیں اور ڈنڈے والی لڑکی دہری تہری ہوتی ہوئی ان سے تین چ__ار 'جاگو' والیاں اب ان سے تقریب

آاتی تھی۔ قدم پیچھے ناچتی

آائی ہے' 'جاگو

آاواز ان ک_و ایس_ے س_نائی دی جیس_ے اس س_ے آاواز نک_الی۔ پھ_ر بھ__انی کی ت_یز اور میٹھی سب میلن_وں نے اکٹھی

آاوازیں خاموش ہو گئی ہوں۔ شرما کر باقی

"جورو جگا لے رونقا

آائی اے" جاگو

آاوازیں بھی گونجیں۔ ساتھ ساتھ وہ شرمیلی

"چپ کر بی بی

مشکل سے سلائی ہے

لوری دے کر سلایا ہے"

رونقی کی مونچھیں پھڑکیں اور اس نے کھیس کی بکل کو اور مضبوط کر لیا۔

61

آاواز دوب__ارہ آاواز ختم ہ__و ئی ت__و اکل__وتی بھ__انی کی آا گ_ئی تھیں۔ جب ب__اقیوں کی اب میلین ان کے بالکل نزدیک

آائی:

آائی ہے 'جاگو'

آائی" آائی۔۔۔۔ارے جاگو آائی۔ ارے جاگو "ارے جاگو

آا ملتی۔درمیانے ق__د کی وہ ل__ڑکی آاواز نکالتے اورکبھی کبھی ڈنڈے والی کے ساتھ دانت نکوستے سخت اونچی

آانکھ جھپکتے ہی رونقی کو ٹخنوں س__ے پک__ڑ ک__ر اس ط__رح اسی طرح روشنی کی طرح میلنوں میں سے نکل کر

گیند کی طرح گھما گئی کہ رونقی کا کھیس میں لپٹا ہلکا پھلک__ا جس__م گٹھ__ڑی کی ط__رح دو تین لوٹنی__اں کھ__ا

آاگے نشیب ہونے کی وجہ سے سنبھلے بغ__یر رونقی نے دو تین کے ایسے لڑھکا جیسے گیند کو کک لگاتے ہیں۔

قلابازیاں اور کھائیں۔ یوں قلابازیاں کھاتے ہوئے وہ "مر جانیو کنجریو، مر جانیو کنجریو" کوکت__ا رہ__ا لیکن اس کی

کسی نے نہ سنی ؟ پھر جب ڈنڈے والی جگسیر کے پیچھے دوڑی ت__و بھ__انی نے 'ج__اگو' س__نبھالتے ہ__وئے اس__ے

"اوں ہوں "کہا اور وہ وہیں کھڑی ہو گئی۔ جگسیر نے ایک بار بھ_انی کی ط_رف دیکھ__ا۔ ٹ__وکری اس کے س_ر پ__ر

آانکھ__وں میں ہونے کی وجہ سے اگ__رچہ روش__نی اس کے چہ__رے پ__ر نہیں پ__ڑ رہی تھی، پھ__ر بھی اس_ے بھ__انی کی

دئیوں سے زیادہ روشنی دکھائی دی۔ اس کا قد، کاٹھ ، اس کا روپ۔۔۔۔ لیکن برابر کی چال دیکھ کے بھانی

اور جگسیر، دونوں نے ، نگاہیں نیچی کر لیں۔

رونقی کے سنبھلنے سے پہلے ہی میلین اور ان کے ساتھ لڑکے نے اس کی ط__رف دیکھ ک__ر ہنس__تے کھلکھلاتے

آاگے نکل گئے۔ جگس_یر حوص_لہ ک_ر کے اٹھ__ا ت_و اس نے رونقی کی ط_رف ج_اتے پوچھ_ا "کہیں چ_وٹ ت_و نہیں

آائی؟"

"بھائی کیچڑ س__ے پھس__لنے اور ع__وت کے جھڑک__نے ک_ا کی__ا گلہ غص__ہ کرن__ا؟ " رونقی نے اٹھ ک_ر پگ_ڑی ٹھی__ک

آاواز میں کہا کہ جگسیر نے اس کے اندر چھپی خوش__ی ک__ا ان__دازہ لگ__ا لی__ا۔ کرتے اور کھیس اٹھاتے ہوئے ایسی

اا رونقی نے پینترا بدلا اور جاتی ہوئی میلنوں کو بناوٹی غصے کے ساتھ بولا۔ "کنجروں کی ذاتیں۔ یوں کہہ کر فور

نہ جانے کیا کچھ سوچتی ہیں۔۔۔۔ ایسے تو سیانوں نے ان کی عقل گدی میں نہیں۔۔ کہی۔۔۔۔"

62

جگسیر مسکرا یا اور اس نے رونقی کو بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور تمسخر سے کہا "ان کو اتنی عقل ہ__وتی ت__و

پہلے ہمارے رونقی کے جسم کا اندازہ لگا لیتیں"

رونقی نے اٹھ کر پیچھے کرت_ا جھ_اڑا۔ اور کھیس_ی اوپ_ر اوڑھ لی۔ لیکن جب چل__نے لگ_ا ت__و اس کی ب_ائیں ٹان_گ

کولھے سے درد کرنےلگی اور جب اس نے ٹانگ اوپر کی تو اس کے منہ سے میلنوں کے لیے ای__ک غلی__ظ گ__الی

نکلی۔ وہ کھیس لپیٹتے ہوئے بولا" کھسماں)خسماں( پٹیاں نے مار دیا"

آاہستہ چلنے لگا۔ آاہستہ کولھے پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر کبڑا ہوا کھڑا رہا اور پھر

"چل اندر چلتے ہیں" جگسیر نے کہا۔

کوٹھڑی میں دیا ابھی بھی جل رہا تھ__ا۔ جگس__یرنے دئ__یے کی ب__تی اوپ__ر کی اور ک__ونے میں پ__ڑی چارپ__ائی پ__ر بیٹھ

گیا۔ رونقی دوسری چارپائی پر جا گ__را۔ اس ک__ا کولھ__ا ابھی بھی درد ک__ر رہ__ا تھ__ا۔ لیکن اس ک__ا اپن__ا م__زا تھ__ا! وہ

کتنی دیر خاموش رہا پھر اچانک بولا:

" اب تم کیسے ہو؟"

"ٹھیک ہوں! تیری گولیوں نے کافی فائدہ کیا ہے۔ اب تو بخار بھی کم لگتا ہے"

"اچھا یہیں لیٹ جاؤ۔ اب سردی میں کہاں گھر جاؤ گے۔ وہاں ٹنگنے سے لحاف اور تلائی اتار ل__و۔ اس__ی کی

آاواز میں کہا کہ جگس__یر نہ س__ن س__کا۔ یہ لف__ظ بول__تےہو جیس__ے رونقی کی ہے' اس کی 'اس نے ایسی مری ہوئی

آانکھوں کی چمک اور سانس مدھم پڑ گئی تھی۔ جگسیر نے ٹنگنے سے لحاف اور تلائی ات__ار لی اور چارپ__ائی

پر ڈال کر لیٹ گیا۔ پھر ک_افی رات ت__ک وہ ب__اتیں ک_رتے رہے۔ دوس_توں کی، عورت__وں کی اور اپ__نے جیس_ے لوگ__وں

کی۔

چھ

63

آا گیا۔ تیسرے دن جگسیر کا بخار تو اتر گیا لیکن کچھ دن کمزوری رہی۔ پانچ چھ دن چارپائی پر لیٹا وہ تنگ

اگ__رچہ وہ ابھی ک__ام ک__رنے کے قاب__ل نہیں ہ__وا تھ__ا لیکن س__اتویں دن وہ اٹھ ک__ر کھیت کی ط__رف چلا۔ اس کی

آای__ا اور بتای__ا کہ ان کے کھیت میں گن__دم بیماری کے دوران دھ__رم س__نگھ دو تین دن اس کی تیم__ارداری کے ل__یے

کی گوڈی کرنی تھی لیکن بھنتا تین چار دن سے سسرال گیا ہوا تھا۔ جگسیر کو اگرچہ جسم میں طاقت معلوم

نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی وہ پھاوڑا کندھے کے پر رکھے کھیت کی طرف روانہ ہو گیا۔

آاہستہ قدم اٹھاتے ہوئے جیسے مائیاں بیٹھے ہ_و" نکے نے م_ذاق کی_ا۔ "بخ_ار ہ_و ا تھ_ا" جگس_یر آاہستہ "ہوں کیسے

نے جواب دیا۔

آائی" میں بھی کہوں اب کبھی درشن پرشن نہیں ہوئے" "ہوں" نکے کے چہرے پر تشویش

لیکن جگسیر نے کوئی جواب نہ دیا۔ نگاہ نیچی کیے چلتا رہا۔

نکا پچھلی ساونی س_ے جگس_یر کے س_اتھ کچھ کش_یدگی اختی_ار ک_ر چک_ا تھ__ا۔ پہلے جیس_ے کھ__ل کے ب_ات

نہیں کرتا تھا۔ کانوں ک__ا کچ_ا ہ__ونے کی وجہ س_ے وہ بغ__یر س_وچے س__مجھے دوس_روں کی ب_ات م__ان لیت_ا تھ__ا۔ یہ

تلخی بھی اس کی اسی جلدی کا نتیجہ تھی۔ اس سال ساونی کی بیجائی کے وقت ایک دن وہ کھیت گیا ہوا

تھا تو جگسیر بھانی کے پاس جا ک_ر کچھ دی__ر بچ_وں کے س_اتھ کھیلت_ا رہ__ا۔ تبھی نکے کی پھ_وپھی ک_ا لڑک_ا

آایا ہوا تھا۔ جب جگسیر ادھر گیا وہ گھر پر نہیں تھا۔ گاؤں میں کسی کو ملنے گی__ا ہ__وا تھ__ا لیکن اس کے بھی

آا گیا۔ وہ اگرچہ پہلے ہی سے ایک دوسرے سے واقف تھے لیکن زیادہ جان پہچان نہیں رکھ__تے تھے۔ بیٹھے ہی

آایا تو اس کے پھوپھی زاد نے اسے کہا: آایا لیکن جب شام کو نکا گھر آاتے ہی لوٹ جگسیر اس کے

آاتا اچھا نہیں لگتا۔ آات ( کجات )کذات( کا بندہ اس گھر میں "نکے یہ تو بہت بری بات ہے جات )ذ

پھر اگر کوئی ذات برادری سے ہو یا کوئی نزدیک کا رشتہ دار ہو، ت_و ک_وئی ب_ات نہیں ۔ اونٹ ک_ا بچھ_ڑے س_ے

کیا تعلق؟ " نکے کو یہ بات چبھ گئی۔

پندرہ سال ہو گئے تھے۔ نکےنے کبھی یہ بات نہیں سوچی تھی۔ کچھ بھانی کی وجہ سے کچھ جگسیر کے

آاتا بھی تو وہ اسے جھٹک دیتا۔ جگسیر اخلاق کی وجہ سے اور کچھ اپنی غرض کے لیے ۔ کبھی اسے خیال

64

آاتا جاتا تھ__ا لیکن جب ک__وئی مہم__ان ہوت__ا ت__و جگس__یر جات__ا ہی نہیں تھ__ا۔ اور یہی وجہ بھی کوئی اتنا زیادہ نہیں

تھی کہ ب__ات ب__نی ہ__وئی تھی۔ لیکن جب س__ے نکے کے پھ__وپھی زاد نے یہ ب__ات کہی تھی نک__ا بہ__انے بہ__انے

جگسیر سے دور رہنے لگ گیا تھا۔

جگسیر نے بھی بات تاڑ لی تھی اور اب دس پندرہ دن کے بعد ہی ان کے گھ__ر جات__ا تھ__ا۔ بھ__انی ک_و ان__در کی

آاگے کی۔ ای__ک دن بھ__انی نے بات کا علم نہیں تھا۔ نہ ہی جگسیر نے ڈر کے مارے ایسی کوئی بات اس کے

جگسیر کو گلہ کیا:

"کیا ہوا؟ ابھی تو ساری عمر پڑی ہے۔ پیچھ__ا چھ__ڑا کے بھ__اگنے کی س__وچ رہے ہ__و۔ دیکھن__ا کہیں بیچ منج__دھار

میں ہی نہ چھوڑ جانا"

"اب کس کے لیے" جگسیر نے مسکرا کر جواب دیا۔ " اب تو رہ ہی تھوڑی گئی ہے۔ بس مصروفیت کی وجہ

آانا نہیں ہوتا" سے

بھ__انی نے بھی یہ ب__ات دل س__ے نہیں کی تھی۔ ویس__ے بھی اس نے کبھی اس کے ب__ارے ش__ک نہیں کی__ا تھ__ا۔

جیسے دنیا کی پرواہ کیے بغیر ، جگسیر نے اس کے ساتھ نبھائی تھی اس کی قدر بھانی جیسی عورت ہی ک__ر

سکتی ہے۔ کبھی کبھی بھانی محسوس کرتی کہ اس نے جگسیر کے کیے کا پ_ورا م_ول نہیں لگای_ا تھ_ا۔ ایس_ے

وقت میں وہ اسے بہانے سے اوپر دیکھنے کو کہتی۔

"جگسیا دیکھن_ا م_یرے اس ک_وکے ک_ا م_وتی اکھ_ڑنے والا ت__و نہیں؟ کہیں گ_ر ہی نہ پ__ڑے!" اس کے پ__اس چہ_رہ

لاتے ہوئے اس نے ایک دن ایسے موقع پر کہا۔

جگسیر نے نگاہ اٹھا کے اس کے کوکے کی طرف دیکھا تو بھانی نے اسے اصل بات کا بھید بتا دیا۔ اس کی

آانکھیں جھک_ا گہری مسکان نے س__اری ب__ات بت_ا دی تھی۔ ای_ک لمحے اس نے بھ_انی ک__و غ__ور س_ے دیکھ__ا اور

لیں۔ سورج کی طرف کوئی کتنی دیر دیکھ سکتا ہے؟ اس نے دل میں کہا اورمسکرا کے ب__ولا"ٹھی__ک ہے۔ ابھی

نہیں گرے گا ۔ جب تک تمہارے کوکے پہننے کی عمر باقی ہے یہ کیوں کرے گا؟"

آا کے کہا۔ "اب تو تم سمجھدار ہو گئے ہو جگسیر "بھانی نے لہر میں

65

"تمھارے ساتھ رہ کر سیانہ نہ ہوتا گیا تو تمہاری نموشی نہیں ہوتی؟ " اور بھانی کے س_ر س_ے پاؤںت_ک اور ای_ک

جھنجھناہٹ طاری ہو گئی۔ ایسے چھوٹے چھوٹےدل کی گہرائیوں سے نکلتے بول وہ کتنے عرصے کے بعد اس

کے منہ سے کہلوا سکی تھی اور ایسے لمحے ہی اسے اپنا بدن گنگا جل س__ے ڈھلا لگت__ا۔ اور اس__ے اپ__نے تم__ام

آاتی جس کے ساتھ وہ کئی ک__ئی دن پ__وتر رہ__تی، بہ__انے اور کوش__ش ک__رتی لیکن جگس__یر اعضاء سے ایک مہک

آانکھ اوپر نہ اٹھوا سکتی۔ کئی دفعہ تو وہ بیزار ہو جاتی اور کسی اور بات کے بہانے ہونٹ سکیڑے تن_گ پ_ڑ کی

جاتی۔ "تم تو بے زبان ہو۔ تمہیں کی_ا معل__وم مین_ڈکیوں ک_و کب پ_انی پین_ا ہوت_ا ہے" پ_ر جگس_یر کی_ا کرت_ا؟ ک_وئی

تم__ازت اس کے جس__م کے ان__در گھس ک__ر اس کےسورج کی طرف کتنی دیر دیکھ س__کتا ہے۔ اس س__ورج کی

برف ہوتے لہو کو گرما ک__ر اعض__ا ک__و ج__ڑنے س__ے پچ_اتی رہی۔ یہی تم__ازت ہی اس کے گ_رد ا گ__رد کہیں ہری__الی

کرتی اور کبھی اس ہریالی کو س__نہری ک_رتی۔ یہی تم__ازت ہی اس کے گ__رد سرس__وں ، کپ__اس، چھ__ولے، کری__ر اور

کیکروں کے پھولوں جیسے رنگ کھلاتی اور اسے یہ دنیا جینے کے قابل لگ__تی ! وہ اپ__نے اس س__ورج ک__و ص__بح

سویرے پانی دے س__کتا تھ__ا۔ اس_ے س__جدہ ک__ر س_کتا تھ__ا اور کبھی کبھی اس کی ط__رف اپ__نے س__ارے اجلے اور

آانکھ_وں کی رو ش_نی ایس_ی دائم روش__نی میں ملا س_کتا تھ_ا۔لیکن س__ارےمیلے رنگوں سے رنگی، لہرئیے جیس_ی

آانکھوں میں کیسے سمو سکتا تھا؟ یہ اس سے نہیں ہو سکا تھا اور سورج کی روشنی وہ اپنی ان چھوٹی چھوٹی

نہ ہی ساری عمر ہو سکتا تھا۔

آاؤ تمہیں اپ__نے کھیت لے چل__وں۔"کت__نی دی__ر ت__ک ان کے چپ چ__اپ اکٹھے چل__تے اور پھ__ر اپ__نے کھیت__وں کی "

پگڈنڈیوں پڑ کر، شائد صرف سکوت توڑنے کے لیے بانکے نے کہا:

آاؤں گا" جگسیر نے بھی اسی بے توجہی سے جواب دی__ا اور وہ اپ__نی اپ__نی "بس چلتا ہوں۔ سیر یہاں؟ جلد واپس

راہ ہولئے۔

سات

کھیت پر جا کے جگسیر نے پہلے "اپنے گھیت" پر نظر ڈالی۔ گندم سے کملہائے پودے اس__ے بھ__وکے، روٹھے

بچوں کی طرح دکھائی دئیے۔ ساتھ کی گندم کے پودوں کواس نے کچھ دن پہلے پانی لگای__ا تھ__ا۔ یہ اس کی

66

گندم سے ایک ایک بالشت اونچے تنے ہوئے تھے ان کی بالیاں تنی ہوتی۔ جگسیر نے دون_وں ط_رف کے کھیت_وں

پر نظر ڈالی اور مینڈھ پر بیٹھ گیا۔ اس کی ٹانگیں اسے سہار نہیں سکتی تھیں۔

کافی دیر بعد وہ ہمت کر کے اٹھ_ا اور س_اتھ س_ے کی_اریوں میں گ_وڈی ک_رنے لگ_ا۔ دوب_ارہ اس_ے اپ_نے کھیت کی

طرف نظر ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔

آائی تھی۔ جگسیر کے اندر ہلکی ہلکی بے چینی ہونے لگی تھی۔ کھالے پر بیٹھ کر اس نے خاصی دھوپ چڑھ

جیب سے افیون کی ڈبیہ نکالی اور ایک گولی منہ میں ڈال لی۔ کھ__الے میں ابھی کچھ پ__انی تھ__ا۔ اس نے پ__انی

آائی لیکن پھ__ر کا گھونٹ لے کر افیون گلے میں اتار لی۔ پانی ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے اسے ایک بار جھرجھ__ری

آارام کر کے اس نے گوڈی دوبارہ شروع کر دی۔ بدن میں گرمائش محسوس ہونے لگی۔ تھوڑا

روٹی کے وقت س_ے کچھ پہلے ت__ک وہ ک_ام میں جٹ__ا رہ__ا۔ اس نے ل__گ بھ__گ ای__ک کی__ارے میں گ__وڈی ک__ر لی

آا ک__ر تھی۔ پھر اسے ہاتھ پاؤں تھکتے محسوس ہوئے تو بیلچہ اٹھا کر گاؤں کو لوٹ پڑا۔ "اپنی ٹ__اہلی" کے نیچے

آاہ اس کے ہونٹوں سے نکلی۔ اس کے بع__د اس نے ایک بار پھر اپنے کھیت پر نگاہ ڈالی تو اسے بے اختیار ایک

آاتے رہے۔ آانے تک جگسیر کو طرح طرح کے الٹے سیدھے خیال گاؤں

آا گیا۔اس نے دھرم سنگھ کو کہہ دیا تھا کہ جگسیر کے کھیت کے ساتھ والے کی__ارے اس سے اگلے دن بھنتا

وہ خود گوڈے گا اور دھرم سنگھ ک__ا چھوٹ__ا بیٹ__ا جیب__ا اور جگس__یر دو چ__ار دن وی__رو والے کھیت کی گ__وڈی ک__ر

لیں۔ یہ کھیت گاؤں کے مغرب میں تھا۔جب بھنتا چلا گیا تو دھرم سنگھ نے جی__بے ک__و بھیج ک__ر جگس__یر ک__و

پیغام بھیج دیا۔ جگسیر اور جیبا ویرو والے کھیت کی طرف چلے گئے۔

ویرو والا کھیت گیارہ، ب__ارہ گھم__اؤں ک__ا تھ__ا۔ اس میں اوپ__ری ط__رف چ__ار گھم__اؤں میں چ__نے تھے اور پ__انچ، چھ

گھماؤں س_اونی کے ل__یے خ__الی چھ__وڑ رکھے تھے۔ ب__اقی میں گن_دم بیجی ہ__وئی تھی۔ اس کی گ__وڈی ک_رنے میں

دونوں کو پانچ چھ دن لگ گئے۔ اگرچہ یہ کام اتنے دنوں کا نہیں تھ__ا لیکن چ__ونکہ جگس__یر ابھی ابھی بیم__اری

سے اٹھا تھا دوسرے جیبا ابھی چھوٹا تھا۔ وہ پندرہ سال کا تھا اور ساتھ ہی سکول سے چھ جماعتیں پڑھ کر وہ

پچھلے سال ہی سکول سے ہٹا تھا۔ اس لیے اس سے یہ سخت کام اچھی طرح نہیں ہوتا تھا۔

67

ادھر سے گوڈی ختم کر کے جگسیر چھٹے دن صبح سویرے اٹھ کر اپنی مرضی ہی سے اپ_نے کھیت ک_ا چک_ر

آائے گا دوسرے اپنی گندم کا پتہ کرے گا۔ لگانے گیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک تو وہ سوئے کا پانی دیکھ

لیکن جب وہ کھیتوں سے دو کھیت ادھ__ر تھ__ا ت__و ای__ک عجیب ب__ات دیکھ ک__ر اس کے دل کی دھ__ڑکن ت__یز ہ__و

آائی اور اس کے نیچے دو تین شخص کھڑے تھے۔ گئی۔ اسے اپنی ٹاہلی ٹیڑھی نظر

آاگے بڑھا تو سچ مچ ایک تگ__ڑے جھٹکے کے س__اتھ اس نے ٹ__اہلی گ__رتی دیکھی۔ اس کے وہ جلدی جلدی اور

آانکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گی__ا۔ ای__ک دفعہ رک کے وہ پھ__ر ایس__ے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔

چلا جیسے دوڑ رہا ہو۔

آادمی ٹاہلی ک__و آاہستہ ہو گیا۔ اب کوئی بھرم رکھنے والی بات نہیں رہ گئی تھی۔ تین ٹاہلی کے پاس پہنچ کر وہ

گرا کر اس کی شاخوں کو کاٹنے کا مشورہ کر رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے جگسیر نے اس کی وجہ سوچی

آانکھیں انگاروں کی طرح دہکتی لگیں۔ لیکن غصہ اس کی سوچ پر حاوی ہوگیا اور اسے اپنی

"بھئی تم کون ہو؟" ٹاہلی کے اس طرف سے اس نے للکارا۔

آاپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ ان تینوں نے اس کی طرف اکڑ کے دیکھا اور پھر

"بولتے کیوں نہیں؟" میں پوچھتا ہوں تم کون ہو؟" جگسیر نے پہلے جیسے لہجے میں دوبارہ پوچھا۔

"منڈی والے ٹاہلئے شاہوں کے بندے "ایک نے روکھا سا جواب دیا۔

"یہ ٹاہلی تم نے کس کے کہنے پر کاٹی ہے؟" جگسیر کا غصہ اور ب__ڑھ گی__ا تھ__ا۔ وہ کبھی گ__ری ہ__وئی ٹ__اہلی اور

کبھی ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بے قابو ہو رہا تھا۔

"ہمارے شاہوں نے بھیجا ہے"

"شاہ ٹاہلی کے سالے لگتے ہیں؟" اس کا غصہ بے قابو ہو گیا۔

آاگے بڑھ کر کہا۔ "ایسے مت بولو بھائی" ایک کالی اور سوکھی ٹانگوں والے شخص نے

68

"ہم تو شاہوں کے بندے ہیں۔ انہوں نے مالک سے بات کی ہ__و گی اس ل__یے انہ__وں نے ہمیں بھیج__ا ہے۔ ہم__ارے

ساتھ کیوں غصے ہوتے ہو؟"

"تمہیں کس س__وہرے نے بھیج__ا ہے لیکن یہ ٹ__اہلی م__یری ہے اور م__یرے پ__وچھے بغ__یر اس__ے ک__وئی ہ__اتھ نہیں لگ__ا

آا گئی۔ سکتا" بولتے ہوئے جگسیر کی زبان تھڑکی اور س کی نظروں کے سامنے بھنتے کی شکل

چتو جا کر شاہوں کے ساتھ فیصلہ ک_ر لے۔ ہم ت_و مجب_ور ل_وگ ہیں۔ تمہ_ارا ہم_ارے س_اتھ کی_ا جھگ_ڑا "تیری ہے تو

آادمی نے کہا۔ ہے" اسی لاغر

"فیصلہ تو میں ابھی کر دوں پر جب تک اس بات کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تب ت__ک اس ک__ا ای__ک پتہ بھی کاٹ__ا

تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا"

آا کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گری آایا۔ لیکن دس کرم اور اسی طرح غصے میں بھرا جگسیر گاؤں کو لوٹ

آائے جیسے ن_زع کے وقت انس_ان کے نرخ_رے کی ہ_ڈی م_ڑ رہی ہ_و۔ ہوئی ٹاہلی کے پتے اسے ایسے کملہائےنظر

سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ان پ_ر چمک_تی ش_بنم کی ٹھن_ڈک میں ک_رنیں ی_وں چم_ک رہی تھیں جیس_ے یہ

آاخری چمک ہو۔۔۔۔۔۔۔ آانکھوں کی ٹاہلی کی

آاہستہ ہو گ__ئے۔ گ__اؤں کے نزدی__ک ت__ک وہ نیچی جگسیر کا غصہ اداسی میں بدل گیا اور اس کے تیز اٹھتے پاؤں

آاج جیسے عجیب خیالات کبھی نہیں ابھرے تھے۔ اس کے یہ خیالات اس__ے نگاہ کیے چلتا رہا۔ اس کے اندر

کھنڈر پر کانٹے، ٹھیکیریاں اور روڑی جیسے لگے۔ صرف بے ترتیب اور اکہرے لف__ظ ، جیس__ے اس کے س__ر میں

چھوٹے بڑے اولے پڑ رہے ہوں: زمیندار، مزارع، مالک، دھرم سنگھ، بھنتا اور ایسے اور لفظ ص__رف لف__ظ جن کے

معنی اس کے ذہن میں واضح نہیں ہو رہے تھے۔

گاؤں پہنچ کر جگسیر نے سامنے دیکھا تو اسے گاؤں کے کوٹھے سونے سونے لگے۔ اجاڑ روڑیوں، ٹھیکریوں ک__ا

ایک ٹیلہ اور اس ٹیلے کے مشرقی طرف ان کا ویہڑہ "چوہڑوں کا ویہڑہ" کھنڈر کے عین بیچ میں کھوہوں جیسے

گھر اور اس میں بستے مزارعین جن کے سروں میں کھنڈر کی اونچائی سے گرت__ا گن_دا پ__انی پڑت__ا تھ__ا۔ زمین__داروں

کی میل۔۔۔۔۔!

69

گاؤں میں داخل ہوتے ہی جگسیر کے پاؤں قدرے رکے پر وہ اپنے گھر کی طرف مڑ گی__ا۔ وہ__اں پہنچ ک__ر اس نے

دیکھا کہ نندی دھوپ میں چارپائی پر لیٹی تھی۔ اس نے پاؤں کی چاپ سن کر ایک دم پوچھا

"بھائی کون ہے؟"

"میں ہوں بے بے" جگسیر نے جواب دیا اور کوٹھڑی میں چلا گیا۔

آا گئے ہو" اس نے حیرانی سے پوچھا۔ نندی گھبرا کے اٹھی۔ "کیا بات ہے بیٹے۔ جلدی واپس

"ویسے ہی" اور اس نے محسوس کیا کہ اگر اب اس نے بولنے کی کوشش کی تو وہ اندر کا اب__ال س__نبھال نہیں

آادمی سکے گا۔ نندی کی بصارت کیونکہ اب کافی کمزور ہ__و چکی تھی اس ل__یے وہ اب دو کرم__وں س__ے بھی

آانکھ__وں پ__ر س__ایہ ک__ر کے ادھ_ر ادھ__ر کو پہچان نہیں پاتی تھی۔ وہ لاٹھی کے س__ہارے اٹھی اور ب__ائیں ہ__اتھ س_ے

آایا۔ اس نے دوبارہ سے پوچھا۔ دیکھنے لگی لیکن اسے کچھ نظر نہیں

"کہاں ہو؟ واپس چلے گئے؟"

"بے بے اندر ہوں"

آاواز میں جواب دیا۔ نندی اگرچہ کچھ نہ ج__ان س_کی لیکن وہ دی__وار ک_و ٹٹول_تی ک__وٹھڑی کی جگسیر نے رندھی

طرف چل دی۔

آائے ہ__و؟ کہیں ط_بیعت پھ__ر ت__و خ__راب نہیں ہ__و گ__ئی" نن__دی نے آاج اتنی جلدی واپس کی__وں "بچے کیا بات ہے؟

کوٹھڑی کا دروازہ ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔۔"

اور جب نندی جگسیر کی چارپائی تک پہنچی تو جگسیر کو رضائی اوڑھے دیکھ کر اس کے اوسان ہو گئے۔

"میں مر جاؤں۔ تم مجھے صحیح بات کیوں نہیں بتاتے؟ رضائی لے کر پڑگئے ہو۔ مجھے کچھ تو بتاؤ"

آانس_و آانکھ__وں س__ے آانس__و گ__رنے لگے۔ چ__نی کی آانکھوں سے چھوٹے چھوٹے اور نندی کا بند ٹوٹ گیا۔ اس کی

پونچھتے ہوئے ، بے سدھ سی ہو کر لاٹھی پھینکتے ہوئے، گرتی ہوئی روہانسی ہو کر بولی:

70

"بیٹے میرے پاس تمہارے سوا کون ہے؟ تم ہر تیسرے دن چارپائی پر پڑ ج__اتے ہ__و۔ دون__وں جہ__انوں کی م__اری ک__ا

کیا بنے گا؟"

آاپ کو نہ سنبھال سکا۔ نندی کے دکھ بھرے اداس لفظوں نے اس کا صبر توڑ دیا۔ جگسیر اب اپنے

"بے بے اپنی ٹاہلی کٹ گئی" اس نے اپنی یہ ب__ات ات__نی جل__دی ک__ر ڈالی جیس__ے اس__ے ڈر تھ__ا کہ اگ__ر وہ کہیں

اٹک گیا تو وہ بات پوری نہ کر سکے گا۔

آانسوؤں کی دھاریں اس کی کنپٹیوں سے ہو کر اس کی گردن پ__ر آانکھوں کے کناروں سے پھر لیٹے لیٹے اس کے

آا گ__ئی لیکن اس نے یہ چلنے لگیں۔ گردن میں اسے ان کی خنکی سوئیوں کی طرح چبھی اور اسے جھرجھ__ری

نمکین پانی نہیں پونچھا۔

"اوئے دھرم سیاں" نندی نے دونوں ہاتھوں سے ماتھا پیٹتے کہا اور دھرم س__نگھ کے ات__نے عرص__ے کے بن__ائے ہ__وئے

آاتے ہی کوئی گندی بات کرنے سے اپنی زبان روک لی۔ اصولوں کا خیال

آا گ__ئیں۔ ان آانکھیں پھٹ__نے ک_و کچھ دیر نندی یوں بیٹھی رہی جیسے اس کا دماغ چل گی_ا ہ__و۔ اس کی گہ_ری

کے سفید حصے بھی سرخ ہو گئے اور نندی کا جھریوں بھرا چہرہ لال ہو گیا۔

"ایسا انہوں نے کیوں کی__ا؟" نن__دی نے غص__ے س__ے ک__انپنے اور زمین پ__ر اپ__نی لاٹھی ڈھون__ڈتے ہ__وئے کہ__ا"میں ت__و

دھرمیا تیری بار میں جل کے مر جاؤں گی تو نے مجھے کیا سمجھا؟ تم نے یہ کیا کیا؟"

آاہس__تہ س__ے ای__ک دو ب__ار آا کر بڑبڑاتی وہ لاٹھی اٹھا کے کوٹھڑی س__ے ب__اہر چلی۔ جگس_یر نے اس_ے یوں طیش میں

آانے کو کہا لیکن اب نندی کو کچھ نہیں س__ن رہ__ا تھ__ا۔ اس نے جگس_یر س__ے یہ بھی نہ پوچھ__ا کہ ٹ__اہلی واپس

کس نے اور کب کاٹی تھی۔

پھر وہ دھرم سنگھ کے گھر تک بڑبڑاتی گئی۔ باہر چوکڑی بھرے بیٹھا دھرم سنگھ بیج نکال رہ__ا تھ__ا۔ نن__دی ک__و

آاتے دیکھ کر پہلے تو وہ مسکرایا پھر جب اس نے اس کے منہ سے اپن__ا ن__ام س__نا ت__و اس کے اس طرح تیزی میں

آاواز میں پوچھا: چہرے پر پریشانی نمودار ہوئی۔ پھر بھی دھرم سنگھ نے ذرا ہنس کے اونچی

71

آائی ہو۔ خیر ہے؟" "بڑھیا کیا بات ؟ گھر پر چڑھائی کرنے

نندی نے دھرم سنگھ کی ب_ات س_ن ک_ر اور ت_یزی س_ے اس کے پ_اس پہنچ گ_ئی اور لاٹھی پھین_ک ک_ر گلی کے

درمیان میں ہی زمین پر بیٹھ گئی جیسے وہ چلتی چلتی گر پڑی ہو۔ اس کا جھریوں بھ__را چہ__رہ بھی س__رخ ہ__و رہ__ا

آانکھوں کی سرخی بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ بیٹھتے ہی اس سے کچھ تھا۔

آاواز میں بولن__ا دیر تو نہ بولا گیا لیکن ایک پل کے بعد اس نے ایک ہی سانس میں پہلے س__ے بھی زی__ادہ اونچی

شروع کیا۔

"بیٹے دھرم سنگھ سن۔ ہماری دو پ__یڑھیوں نے تمہ__اری خ__دمت کی۔ وہ س__اری عم__ر تمہ__ارے خ__اطر س__انپوں کی

سریاں کچلتا مر گیا۔ اور اب میرا بیٹا جیسے تمہ_ارے ک_الے بی_ل کی ط_رح محنت ک__رنے کے ل__یے پی_دا ہ__وا۔ میں

خ__ود اب ت__ک تمہ__اری گن__دگی س__نبھالتی رہی ہ__وں اور تم نے دھ__ر می__ا۔۔۔۔چن__دریا!۔۔۔ہم__ارے ک__ئے کی یہ ق__در

کی۔۔۔۔؟"

اور نندی دونوں ہاتھوں سے ماتھا پکڑے، پاؤں دائیں بائیں زور سے مارتے "او۔۔۔ہو۔۔۔ہ__و۔۔۔۔۔ ہ_و۔۔۔۔۔ہ_و۔۔۔۔۔۔

آاگ نکالنے لگی ہو۔ آاہیں بھرنے لگی جیسے اندر کی ہو۔۔۔۔ہو" کرتے یوں

آا رہی تھی لیکن اس__ے گلی میں ی__وں دھرم سنگھ اس کی یہ حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ اسے بات س__مجھ نہیں

بیٹھے اور شکوے کرتے نندی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اسے یہ ساری عمر کی نبھی ، بنی بن__ائی برب__اد ک__رنے

والی ب__ات لگی۔ گلی میں چ__وکڑی م__ارے اک__ڑوں؟ بیٹھے ل__وگ عجیب نظ__روں س__ے دھ__رم س__نگھ اور نن__دی ک__و

دیکھنے لگے۔ دھرم سنگھ سے ان کی چبھتی نگاہیں برداشت نہ ہوئیں تو وہ نندی کے پاس جا کر اسے بازوؤں

سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا۔

آا جا۔ وہاں جا کے جو کہنا ہے، کہنا" "چاچی اندر

نندی اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اس کے ساتھ چلتے ہوئے ویسے ہی روکھے بول بولتی رہی۔

دروازے میں نندی کو چار پائی پر بٹھا کر دھرم سنگھ اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گی_ا اور پہلے کی ط_رح ہنس

کے بولا۔

72

آارام سے یہ بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟" "گالیاں تو دس اور نکال لےلیکن پہلے مجھے

آارام سے کی لیکن وہ اپنی گھبراہٹ پوری ط_رح نہ چھپ_ا س_کا۔ نن_دی تم_ام عم_ر دھرم سنگھ نے اگرچہ اپنی بات

نہیں بولی تھی اس لیے دھرم سنگھ کو کسی انہونی کا شک تھا دھرم سنگھ کا اس کے بازو سے پکڑ کر اندر

لا کے چارپائی پر بٹھانے کے صدقے نندی ک__ا غص__ہ کچھ کم ہ__و گی__ا تھ__ا لیکن اس کی ب__اتوں میں ن__رمی نہیں

آائی تھی۔

آاپ سے پوچھو جو کرتوت تم نے کی ہے تمہیں یہ ب__ات جچ__تی "مجھ سے پوچھتے ہو۔ بڑے عقلمند ہو؟" اپنے

تھی؟ "

"پر چاچی قسم گٹو کی مجھے تو کسی بات کا علم نہں" دھرم س_نگھ نے حوص_لے س_ے کہ_ا "پھ_ر چارپ_ائی

کے بازو کو ہاتھ لگا کر بولا"مجھے سوکھی لکڑی کی قسم اگ_ر میں نے کبھی تمھ__ارا ب__را س_وچا ہ__و۔ اس_ی ل__یے

میں تمہاری منتیں کر رہا ہوں کہ بات بتاؤ۔ پر تم تو بولے جا رہی ہو۔۔۔۔"

"تو بولوں نا؟" اس کی بات ٹوک کر نن_دی ب_ولی " جب س_ے م_یرے ک_انوں نے یہ س_نا ہے مجھے یہ س_چ نہیں

لگتا کہ بھئی میرے ساتھ دھرلے نے ایسا کیوں کیا؟ ایسی نا انصافی ایسا جلم)ظلم( واہگرو؟"

دھرم سنگھ خاموش رہا۔ وہ بے چین ہو رہا تھا۔ پر نندی اصل بات بتائے بنا، ویس__ی ہی بے وقوف__وں جیس__ی ب__اتیں

کیے جا رہی تھی۔

آا گئی اور جب اس نے دھرم سنگھ کو نندی کے آاوازیں سن کر ان کے پاس دھرم سنگھ کی بیوی دھنو ان کی

ساتھ زمین پر بیٹھے دیکھا اس کا گھی کے مٹکے جیسا چمکتا ماتھا، دہکنے لگ__ا "یہ کج__ات)کم زات( چڑی__ل

چارپائی پر بیٹھے اور ہم اس کے پاؤں میں زمین پر " اس نے تیوری چڑھ__ا ک__ر لیکن ہ__ر ط__نزیہ ہنس ک__ر ای__ک ہ__اتھ

سے پیالہ پکڑے اور دوسرا اپنی بھاری کمر پر رکھ کر بولی:

آاج بڑھیا میں کیا بھوت گھس گیا ہے۔ یہ ایسے کیوں شور مچائے جا رہی ہے؟" "کیا بات ہے۔

آانے ک_ا علم ہ__وا تھ_ا اور نہ ہی اپ__نی ب__اتوں میں اس نے اس کی ب__ات س_نی تھی لیکن دھ_رم نندی کو نہ دھنو کے

سنگھ نے دھنو کا طنزیہ لہجا جان لیا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہ لگی۔ ایسی طنزیہ باتوں سے وہ تمام عمر تنگ

73

آا کر اس نے کبھی گھر کا توازن نہیں بگڑنے دیا تھ__ا۔ دھن__و ج__و کہ__تی وہ اس__ے قب__ول رہا تھا لیکن ان باتوں میں

کر لیتا۔ لیکن نندی کے ساتھ اس کا یہ برت__اؤ اس__ے ب__را لگ__ا۔ پہلے دن ہی س__ے دھ__رم س__نگھ، نن__دی کی ع__زت،

دھرم کی ماں کی طرح کرتا رہا تھا۔

"ارے دھرم سیاں قبر میں پڑے اس کا سر بیچ کر تمہارا گذارہ ہو جائے گا؟" پہلے ہی کی طرح نن__دی بے مہ__ار

ہو کر بولی"ارے اس نے اسے اپنے ہاتھ سے یہ ٹاہلی بھی لگائی تھی۔ بیٹ_وں کی ط_رح اس کی پ_رورش کرت__ا رہ__ا۔

مرتے وقت بھی مجھے کہہ گیا نندی ہے دیکھنا ۔میری م_ڑھی پ__ر دی_ا جلان_ا ی_ا نہیں جلان__ا، پ__ر م__یری ٹ_اہلی کی

حفاظت کرنا"

اور اس کے بعد دھرم سنگھ کو نہیں معلوم کہ نندی کیا کہہ گ__ئی۔ اس کے ت__و فرش__توں ک__و بھی علم نہیں تھ__ا

آایا کہ اگر وہ اس وقت کہ ٹاہلی کس نے کب کاٹی۔ لیکن وہ ساری بات سمجھ گیا اور اسے بھنتے پر اتنا غصہ

اس کے سامنے ہوتا تو دھرم سنگھ ایسے غصے میں ضرور اسے برا بھلا کہتا۔ کسے معل__وم ب_ات کہ_اں ت_ک ج_ا

پہنچتی۔

"ٹاہلی تو ٹاہلی وال_وں کی ہے۔ بوڑھ__یے ت_و کی_وں دکھی ہ__و رہی ہ__و" پہلے ہی کی ط__رح دھن_و نے ط__نزیہ ان__داز میں

آادھے کی مالک ہو" آائی بڑی میراں والی۔ جیسے آاہستہ سے منہ ہی منہ میں بولی۔ " بات کی۔ پھر

آاپے نندی کو ابھی بھی دھنو کی بات سنائی نہیں دی تھی لیکن دھرم سنگھ نے اسے بڑبڑاتا ہوا سن لیا تھ__ا۔ وہ

سے باہر ہوا جا رہا تھا لیکن اس جھگڑے کو عقلمندی سے نمٹانے کے لیے اس نے نندی کو بازو سے پک__ڑ ک__ر

کہا۔

آارام "چاچی تمہیں یہ وہم کس نے ڈالا؟ تمہاری ٹاہلی کسی نے نہیں بیچی۔ نہ ہی ک__اٹی ہے۔ تم گھ__ر ج__ا کے

کرو۔ کچھ نہیں ہوتا"

آا گئی۔ اس کا سارا غصہ ایک دم ختم ہو گیا اور پھر اطمین__ان نندی نے یہ بات سن کر بیٹھے بیٹھے سکتے میں

آاہستہ سے بولی: سے

74

"بیٹے مجھے جگسیر نے بتایا تھا ۔ ہو سکتا ہے اسے بھی غلط فہمی ہوئی ہو لیکن س__نتے ہی م__یرے ت__و ہ__وش اڑ

گئے کہ دھرم سیں نے ایسا کیوں کیا؟"

ابھی بھی نندی کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہی رہی کہ دھرم سنگھ کی بات س__چی تھی اور یہی ب__ات اس کی

آاہستگی سے بولی: ناامیدی اور غصے پر حاوی ہو گئی اور وہ

"بیٹے اگر یہ بات ہے تو میرا بولنا چالنا معاف کر دینا۔ جب سے وہ مرا ہے میرا تو دماک)دماغ( ہی ٹھکانے نہیں

رہا"۔

"کوئی بات نہیں چاچی، ماں باپ بیٹے بیٹیوں کو باتیں ک__ر لی__تے ہیں۔ پ__ر فک__ر نہ کرن__ا م__یرے جی__تے جی تمہیں

تکلیف ہو تو میرا جیون اکارت ہے"

آانکھ__وں کی دھ__رم س__نگھ نے اس__ے تس__لی دی لیکن کم__ر پ__ر ہ__اتھ رکھے ، اطمین__ان س__ے مس__کراتی ، دھن__و کی

آا رہی تھی۔ اس لیے دھرم سنگھ کا غصہ اس شرارت ، اس کی طرف دیکھے بغیر، دھرم سنگھ کو صاف نظر

حد تک جا رہا تھا جہاں اسے یہ سنبھالا نہ جاتا۔ یہ سوچ کر دھرم سنگھ نے نندی کو بازو سے پک__ڑ ک__ر اٹھای__ا

اور بولا:

آاؤں" آا تجھے گھر چھوڑ "

آانکھوں اور اور جھریوں بھرے چہرے پر غص__ے کی لالی کم ہ__و چکی تھی اٹھ__تے نندی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسکی

آاہ بھری اور اس کے ساتھ چ__ل دی لیکن جب دھ__رم س__نگھ نے لاٹھی ہوئے اس نے 'ہے رام' کہہ کر تسلی بھری

آاواز اس نے پھر سنی۔ آاہستہ آاہستہ نندی کو پکڑائی تو دھنو کی

آائی ہ___وئی ہے۔ م___زارع ہے کہ خ___دا ہے۔کہ___تی ہے ٹ___اہلی بیج دی۔ ت___یرے "ک___تی ج___ات)ک___تی زات( مس___تی میں

کھسم)خصم( کی تھی؟۔۔۔۔۔ دیکھ کیا حال کرتی پھرتی ہے۔ پھپھے کٹنی۔ غلیظ نہ ہو تو!"

یہ بات بھی دھرم سنگھ پ__انی کی ط__رح پی گی__ا اور اور اس کی لاٹھی پک__ڑ ک__ر ویہ__ڑے کی ط__رف لے ک__ر چلا۔

راستے میں اس نے کوئی بات نہیں کی لیکن نندی بار بار بولتی رہی۔ جگسیر کے گھر جا کر دھرم سنگھ نے

نندی کو باہر چارپائی پر بٹھا دیا اور خود اندر چلا گیا۔ وہ وہاں کافی دیر بیٹھا رہا۔ جگسیر نے اسی ٹاہلی والی

75

آاخ__ر جب وہ وہ__اں س__ے اٹھ__نے بات جس طرح سے ہوئی اسے بتائی۔ دھرم سنگھ سے کوئی ب__ات نہ بن س__کی۔

لگا تو اس نے ہمت کر کے اسے کہا۔

"جگسیا بات بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ بھی گھر کو توڑنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اسی نے بھنتا کو بگاڑا ہے۔ چاہت_ا ہ__وں

مٹھی بند ہی رہے لیکن ان پاگلوں نے ایسے ہونے نہیں دینا"۔

جگسیر نے دھرم سنگھ کی باتوں سے اس کے اندر کا درد پہچان لیا اور اس کی اس حالت ک__ا خی__ال ک__ر کے

آائیں۔ چل__نے س__ے پہلے دھ_رم س_نگھ ای__ک ب__ار پھ__ر رک__ا اور اس نے جگس_یر س__ے کہ__ا کہ وہ آانکھیں بھر اس کی

نندی سے جھوٹ ب__ول ک_ر ب_ات ٹ_ال دے ورنہ وہ پہلے س_ے بھی زی_ادہ دکھی ہ_و گی۔ اس نے جگس_یر ک_و بھی

حوصلہ دیا ۔ جگسیر نے دیکھا کہ جب وہ کوٹھڑی کا دروازہ پھلانگ رہا تھا تو اس نے اپنی پگڑی کے پلو سے

آانکھیں پونچھی تھیں۔

آ�ٹھ

آات__ا سارا دن جگسیر گھر ہی پڑا رہا۔ لیکن دن چھپتے ہی وہ باہر نکلا۔ گاؤں سے باہر نکلنے پر اس__ے من__ڈی س__ے

ہوا بھنتا ملا۔ جگسیر اسے دیکھتے ہی کچھ ٹھٹھکا ۔ ساتھ ہی ساتھ اسے دیکھ بھنتے ک__و دیکھ ک__ر اس کے

آانکھیں جھک_ا ک__ر س_یدھا نک__ل گی_ا۔ اس نے م__ڑ آانکھوں میں شعلے لپکے لیکن وہ آایا تو اس کی رویے کا خیال

کر بھنتے کو نہ دیکھا بھنتا جگسیر کی جھکی ہوئی کمر دیکھ کر مسکرا کر منہ میں بولا "جا رہ__ا ہے بیگھے

کے دسویں حصے کا بائیسواں مالک اپنی اوقات پہچاننے"

جگسیر نے بھنتے کی بات بالکل نہیں سنی وہ ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بان__دھے اپ__نی چ__ال چلت__ا رہ__ا۔ لیکن اس__ے

آانکھیں اس__ے اس آانکھیں دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس کی چبھتی ہوئی بھنتے کی اپنی طرف گھورتی

کی پیٹھ سے ہو کر سارے جسم میں سرایت کرتی محسوس ہوئیں۔

جگسیر ک__و کھیت__وں کے ادھ__ر ہی خاص__ا ان__دھیرا ہ__و گی__ا۔ ان__دھیرے میں درخت__وں اور جھ__اڑیوں کی ش__کلیں اس__ے

ڈرانے لگی۔

76

پگڈنڈی کے دونوں اطراف اونچے ٹیلوں پر رکاوٹوں کی شکل پر خاردار شاخوں کی نوکوں پ__ر س_تارے ٹنگے ہ__وئے

لگتے تھے۔ اس سے پہلے کئی دفعہ جب جگس_یر ان__دھیری رات میں کھیت_وں ک_و پ__انی لگ_انے جات_ا ت__و یہ منظ_ر

اسے خوبصورت لگتا۔ جوانی میں تو وہ ایک دو دفعہ دور سے دوڑ ک_ر پ__انچ پ__انچ ہ__اتھ اونچے ٹیل__وں پ__ر چڑھت__ا اور

خاردار جھاڑیوں کی رکاوٹیں وہ شرط لگا کر توڑتا تھا۔ تب اسے ایس__ا لگت__ا تھ__ا جیس__ے اس نے واقعی ت__ارے ت__وڑ

آاس__مان لیے ہوں۔ اس نے شاعروں کے قصے پڑھنے والوں سے وہ اشعار سنے تھے جس میں موت کے فرش__توں ک__و

سے تارے توڑنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ اس نے بھ__انی ک__و کبھی یہ ب__ات نہیں بت__ائی تھی۔ اس__ے یہ ب__اتیں چھ__وٹی

لگتی تھیں۔ لیکن جب اس ط_رح اونچے کھن__ڈر پ_ر تین تین ہ__اتھ س_ے کیک__ر کی ش_اخوں والی رک__اوٹیں اس__ی نے

اا ہی اس کے دل میں بھانی کے لیے تارے توڑنے کی خ__واہش پی__دا ہ__وئی۔ ایس__ے ت__ارے ج__و نکھ__رے توڑیں تو فور

آانکھ__وں کی ط__رح چمک__تے تھے۔ اور جن کی چم__ک ای__ک پ__ل کے ل__یے آاسمان پر ساری ساری رات بھ__انی کی

آانس__و لگے۔ بے رن__گ اور بے آاج یہ تارے اسے بھی ماند نہیں پڑتی تھی۔ نہ سوتے تھے نہ سونے دیتے تھے لیکن

جان خود رو پودوں کی نوکوں پر اٹکے ہوئے تارے جو نہ گرتے تھے نہ سوکھتے تھے۔

آانس__وؤں کی ط__رف نہ دیکھ س__کا اور پھ__ر نظ__ریں جھک__ائے چلت__ا رہ__ا۔ کھیت پ__ر پہنچ ک__ر اس نے نظ__ر اور وہ ان

اٹھائی اور اپنی ٹاہلی کو پت_وں کے بغ__یر پ_ڑا دیکھ ک_ر اس ک_ا دل دکھ__ا۔ ٹ__اہلی ک_ا تن_ا م_ردے کی ط_رح پ__ڑا تھ__ا۔

کیونکہ باقی کی چھوٹی بڑی شاخیں وہاں سے ہٹا دی گئی تھیں۔ ای__ک پ__ل کے ل__یے اس نے ادھ__ر ادھ__ر ٹیلے پ__ر

آاگے بڑھ گیا۔ کھڑے ہو کر دیکھا اور پھر جیسے وہ ملول ہو گیا اور خاموشی سے

کھیت میں ٹاہلی کے نزدیک جا کر اس نے اس پر ہاتھ پھیرا اور پھر خاصی دیر ت__ک بیل__وں کے جس_م کی ط_رح

اس پر ہاتھ پھیرتا رہا اور مسوستا رہا۔ پھر اس نے ٹاہلی ک_ا چک__ر لگای__ا ۔ اس کی ج__ڑوں میں چ__ار پ__انچ انچ گہ_را

گڑھا پڑا دیکھ کر اسے کچھ حیرانی ہوئی۔ کچھ دیر وہ گڑھے کو دیکھتا رہا اور پھر پورا چکر لگا کر اپنی گندم

کے کھیت میں جا گھسا۔ پورا پانی نہ لگنے سے گندم تو اچھی ط__رح نہ اگی تھی نہ گھ__نی ہ__وئی تھی۔ روکھی

چنچے پودوں کی طرح چھدرے پودوں و روندتا جگسیر کھیت میں ایس_ے چک_ر لگ__انے لگ_ا زمین پر سرکنڈوں کے

جیسے کرموں کے ساتھ کھیت کی پیمائش ک__ر ا رہ__ا ہ__و۔ اس کی ٹھ__وکریں گن__دم کے خش_ک پ__ودوں ک__و کچ__ل

77

آای__ا ہی نہیں تھ__ا کہ یہ آاواز سنائی دے رہی تھی لیکن ابھی اسے یہ خیال رہی تھیں۔ جگسیر کو پتوں کی مدہم

اس کی اپنی گندم تھی۔

آا کر کھڑا ہو گیا۔ قبر جیسے تمام کھیت میں ایک دو چکر لگا کے وہ دوبارہ ٹاہلی کی جڑوں میں پڑے گڑھے پر

آای_ا اور وہ اس میں ات__ر گی__ا۔ گڑھے کی ان__دھیری گہ_رائی میں دیکھ__تے ہی دیکھ__تے اس_ے نیچے کچھ س_فید نظ_ر

جب اس نے یہ چمک دار چیز اٹھ__ائی ت__و معل__وم ہ__وا کہ وہ اس کے ب__اپ کی م__ڑھی کی س_فیدی کی ہ__وئی اینٹ

آایا۔ تھی۔ اسے ہاتھ میں لیے وہ کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر گڑھے سے باہر نکل

آاس پ__اس دیکھ__ا ت__و اس__ے ک__ئی باہر نکل کر اس نے اس اینٹ کے س__اتھ کی کچھ اور این__ٹیں ڈھون__ڈنے کے ل__یے

آائیں۔ اس نے انہیں اکٹھا کیا اور ڈھیری لگا دی۔ مینڈھ پر بیٹھ کر وہ انہیں کچھ دیر اینٹیں زمین پر بکھری نظر

آا رہی ہو لیکن وہ پھ__ر گم س__م ہ__و گی__ا۔ اس نے س__ر دیکھتا رہا ایک بار تو ایسا جھٹکا لگا جیسے کوئی چیز باہر

سے پگڑی اتاری اس کے ایک پلو میں اینٹیں باندھیں اور دوسرے پل__و ک__ا انوںبن_ا ک_ر س__ر پ_ر رکھ لیں۔ کھیس ک_و

کندھے پر لٹکا لیا اور گاؤں کی طرف چلا۔

گاؤں سے تین چار کھیت ادھر ایک پانی والا جلدی جلدی بھاگتا جا رہ__ا تھ__ا ۔ اس نے جگس_یر ک__و دیکھ__ا ت__و

پچاس قدموں کی دوری پر حیران ہو کر اسے دیکھتا رہا جیسے وہ کوئی بھ__وت چڑی__ل ہ__و۔ کن_دھوں س__ے گھٹن__وں

آادمی پگڈنڈی کے ٹیلے کے اوپر تک لٹکتا ہوا کھیس اور سر پر رکھی اینٹوں نے جگسیر کو ڈراؤنا بنا دیا تھا۔ وہ

س_ے ہ_و ک_ردائیں ہ__اتھ چلا گی_ا اور پگڈن_ڈی کی ط_رف ی__وں دیکھت_ا گی_ا جیس_ے اس ک_ا ش_ک پک_ا ہ_و گی_ا ہ_و۔

جگسیر کو اس کا پتہ نہیں چلا وہ ویسے ہی چلتا رہا اس کے بعد اسے کوئی اور نہ ملا۔

آا کر باہر والے دروازے کو دھکا دی_ا ۔ وہ کھ_ل گی_ا۔ نن_دی نے ایس_ے ہی بھ_یڑ دی_ا تھ__ا۔ اس نے جگسیر نے گھر

اینٹیں صحن کے ایک کونے میں رکھ دیں۔ خود بیٹھ گیا اور کتنی دیر اس سے نہ اٹھا گی__ا۔ ٹ__انگیں تھ__ک گ__ئی

تھیں۔ دونوں ہاتوں سے سر کو پکڑ کے اکڑوں بیٹھ گیا اور بار بار اینٹوں کی طرف دیکھتا رہا ان کی گن_تی کرت_ا

رہا۔ کل گیارہ اینٹیں تھیں۔

78

خاصی دیر کے بعد اس نے کوٹھڑی کی طرف نگاہ ڈالی اور تختیوں کے درمیان سے اسے دئیے کی روشنی نظ__ر

آاواز س__نائی دی اور ای__ک بے مقص__د پھیکی س__ی مس__کان اس کے آاہ جیس__ی آائی۔ پھ__ر نن__دی کی "ہے رام "کی

آا گئی۔ گھنی ٹاہلی کی جڑوں میں سے نکالے قبر جیسے ٹکڑے کی خالی مسکان ۔ ہونٹوں پر

جگسیر نے کھیس اتار کے چونکے کی دی__وار پ__ر ڈال دی__ا اور پ__تیلا لے ک__ر ب__اہر نک__ل گی__ا۔ گلی کے درمی__ان میں

آایا۔ پانی سے گارا بنایا اور صحن میں مغرب کی ط__رف ای__ک گڑھ__ا کھ__ود سے اس نے پانی بھرا اور پتیلا اندر لے

کے اینٹوں کی دیسی مڑھی بنا دی جیسے ٹاہلی کے نیچے بنی تھی۔ اینٹیں لگاتے وقت اسے ایک پل کے ل__یے

آایا لیکن پھر وہ اپنے کام میں محو ہو گیا۔ "بھبوتی" کا خیال

آاہستہ سے کوٹھڑی کے دروازے کو دھکا دے کر دیکھا ہڑ کا لگ__ا ہ__وا تھ__ا۔ اس نے ہین__ڈل مڑھی بنا کے اس نے

گھمایا، دروازہ کھل گیا۔ نندی رضائی میں لپٹے تھوری تھوڑی دیر بعد 'ہے رام۔ہے رام' پکارے جا رہی تھی۔ پھر

کھانسی نے اس کی 'ہے رام ' کی لڑی توڑ دی۔ جگسیر دروازہ بن_د ک__ر کے چ__وروں کی ط_رح ان__در گی__ا اور بغ__یر

کچھ نیچے بچونے کے رضائی لے کر چارپائی پر لیٹ گیا۔

آاتا "یہ کیا پچھلی رات تک وہ سیدھا لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ کبھی کبھی اسے بجلی کی چمک جیسا خیال

آائے ہو گیا؟" پھر اگلے لمحے پانی پر لکیر کی طرح سب مٹ جاتا۔ اس کے دماغ میں کبھی ات__نے خی__ال نہیں

آانکھیں کھلی اور تھکی ہوئی لگتی تھیں ۔ وہ زور لگا کے انہیں بن__د کرت__ا لیکن وہ دوب__ارہ کھ__ل تھے۔ اسے اپنی

جاتیں۔

آاج آاتی گونج لگ__تی اور کبھی کبھی یہ الف__اظ بھی س__نائی دی__تے" آاواز کنویں میں سے "ہے رام" اسے نندی کی یہ

کہاں چلا گیا؟ نہ معلوم اسے کیا ہوتا جا رہا ہے۔؟۔۔۔چپ چپ پھرتا ہے۔۔ ہے را۔۔۔۔م۔۔۔تو۔۔۔ہی۔۔۔"

لیکن جگسیر کے اندر کوئی ج__وار بھاٹ__ا نہیں اٹھ رہ__ا تھ_ا۔اس ک_ا س_ارا ب_دن خش_ک لک_ڑی جیس_ا اک_ڑا ہ__وا تھ_ا۔

آانکھیں پتھرگولیاں بن چکی تھیں۔

آانکھیں آانے لگ__ا۔ اس کی آانکھ__وں کے س_امنے ان_دھیرا آاخ__ری پہ_ر جب م__رغے نے اذان دی ت_و اس کی رات کے

آانکھیں کھلی تھیں لیکن اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر اس کا سارا بدن مٹی ک__ا ہ__و گی__ا۔ نہ ج__انے

79

آایا تو تگڑی دھوپ چڑھی ہوئی تھی اور نندی اس__ے لاٹھی کے س__اتھ ٹٹ__ول کے کب بند ہو گئیں جب اسے ہوش

جگا رہی تھی اور کہے جا رہی تھی۔

آا کے سویا ہے۔ تم کہاں گئے تھے؟ بتا کے ت__و جای__ا ک__ر۔۔۔۔۔ پ__ر تمہیں کی__ا معل__وم کہ م__اں کی "پتہ نہیں کب

روح کس طرح بے چین ہو تی ہے۔ مائیں ہی اپنے دلوں کا اندازہ کر سکتی ہیں ۔۔۔۔بیٹے بیٹیوں کو کیا معلوم"

جب نندی ایسے بولتی ہوئی صحن میں گئی تو جگسیر اٹھ کر خاموشی سے باہر کو چل دیا۔

دھرم سنگھ جب جگسیر کے گھر سے واپس ہوا تو اپنے گھر ج__انے کی بج__ائے کھیت کی ط__رف چلا۔ کھیت

میں ٹاہلی کو کاٹتے ہوئے مزدوروں سے اس نے ساری بات پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ بھنتا منڈی کے ش__اہوں کے

آا گیا ۔ سارا راس__تہ وہ گہ__ری س__وچوں میں پ__ڑا رہ__ا۔ آایا تھا۔ دھرم سنگھ خاموشی سے واپس ساتھ اس کا سودا کر

آا کے وہ بیجوں کا ڈھیر باہر لا کر باڑے میں بیٹھ گیا دھنو نے چھوٹی بچی کے ہاتھ اس__ے روٹی بھیجی ت__و گھر

آاپ ک__و س__نبھال لی__ا۔ ہنس آازمائش کے خیال سے ڈر گیا۔ لیکن پھر اس نے اپ__نے آانے والی ایک بڑی دھرم سنگھ

کے چھوٹی بیٹی بھلی سے پوچھا۔

"بیٹا تیری ماں کیا کر رہی ہے؟"

"وہ کٹی کے پیچھے بھاگی جا رہی تھی۔ باپو وہ سارا دن جانوروں کو کیوں مارتی رہتی ہے؟"

دھرم سنگھ کو بچی کی اس معصومیت بھری بات نے اسے فکروں سے ایسے باہر نک__ال لی__ا جیس__ے کن__ویں میں

ڈوبتے ہوئے کو کسی نے رسہ پکڑا دیا ہو۔ اس نے قہقہہ مارا اور بھلی سے روٹیاں لے کر کہا۔

"اگر وہ جانوروں کو نہ مارے تو جانور ٹھیک کیسے ہوں؟"

"لو' کیوں؟" بھلی اپنے باپ کے پاس اکڑوں بیٹھ، گھٹنوں کو بازوؤں سے جکڑ کر ایسے سمجھداروں کی ط__رح

ہاتھ مار کر بولی جیسے اس کے باپ کو ان باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔

آا جاتے ہیں۔ وہ ت__و ب__ڑی آائی ہوں اوروہ پھر گھر "جانوروں کو عقل نہیں ہوتی؟" کئیوں کو کتنی بار باہر چھوڑ کے

سیانی ہے بے بے اسے خواہ مخواہ مارتی رہتی ہے یہ کوئی بات ہوئی۔ کیا اس میں جان نہیں؟"

80

اور دھرم سنگھ لاجواب ہو گیا اور جب اس نے اس کے اتنے س__مجھدار چہ__رے کی ط__رف غ__ور س__ے دیکھ__ا ت__و

اس کے چہرے پر پھر اداسی چھا گئی۔

آاہس__تہ س__ے کہ__ا "باپو تمہیں ایک ب__ا ت بت__اؤں؟" چ__اروں ط__رف ش__ک بھ__ری نظ__روں س__ے دیکھ__تے ہ__وئے بھلی نے

جیسے کوئی بڑا بھید بتانے والی ہو

"بتاؤ بچہ" دھرم سنگھ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

آاہستہ باتیں کر رہے تھے۔۔۔ اور بے بے کہتی ہے کہ ت__و جمین)زمین( لے ک__ر آاہستہ "بے بے اور بھنتا بھائی پرسوں

باپ سے علیحدہ ہو جا۔ ورنہ وہ ساری لوگوں کو کھلا دے گا اور بھنتا بھائی کہتا تھا کہ ہم سارے ایک ط__رف

آاپے)خ__ود ہی( بیٹھ__ا کت__وں ک__و شش__کارتا رہے ہ__و ج__اتے ہیں اور اس__ے ب__اڑے میں ہی کم__رہ چھت دیں گے۔ وہ__اں

گا۔۔۔۔ باپو تو پھر کوٹھے میں رہے گا یہاں باہر والے گھر میں؟"

آا گیا۔بھلی کے ایک ایک فقرے سے اس کے ان__در ک__ئی وسوس__ے جنم لی__نے لگے۔ جب دھرم سنگھ غصے میں

بھلی نے اپنی بات ختم کر لی تو وہ اندیشوں سے ب__ڑی مش__کل س__ے نک__ل س__کا اور بن__اوٹی مس__کراہٹ کے س__اتھ

کہا۔

"لے بیٹے اپنا کیا ہے؟ یہاں پڑے رہیں گے"

"لیکن باپو یہاں اکیلے تو تمہیں ڈر لگے گا"

"میری بیٹی بھلی تو میرے پاس ہو گی"

آا جایا کروں گی۔ "یہ بات بھلی نے اتنے یقین سے کہی کہ سخت وسوس__وں میں ہ__ونے "ہاں ٹھیک ہے۔ پھر میں

آا گئی۔ کے باوجود اسے ہنسی

"اچھا باپو تم روٹی کھا لو میں جگہ صاف کر دیتی ہوں۔ یہاں تو ہر طرف کوڑا ہی کوڑا ہے۔ پتہ نہیں بے بے اور

آا کر کیا کرتی ہیں۔ دیکھ تو سہی کتنا گند بکھرا ہے۔ "بھلی بولتی گئی اور جھاڑو پک__ڑ ک__ر چھ__پڑ بھابھی یہاں

والی جگہ صاف کرنے لگی۔

81

آانکھوں س__ے دو م__وٹے م__وٹے دھرم سنگھ کتنی دیر اپنی اس خدمت گار بیٹی کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس کی

آانسو گر کر اس کی گھنی مونچھوں میں چھپ گئے۔ اس نے روٹی اٹھا کر ایک ط__رف رکھ دی اور نیچی نگ__اہ

کیے بیج نکالتے، گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔

"باپومیں روج )روز( یہاں صفائی ک_ر کے ج__اؤں گی۔ بھلی نے ص_فائی ک_رتے ہ_وئے کہ_ا"پھ__ر ہم دون_وں یہ_اں س_و

جایا کریں گے "اچھا باپو"

"اچھا بیٹا" دھرم سنگھ نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا اور بیج نکالنے لگا۔

آان بیٹھی۔ اس کے س__ارے س__ر میں م__ٹی پ__ڑی تھی اور دھ_ول بھلی صفائی کر کے دوب__ارہ دھ_رم س_نگھ کے پ__اس

س___ے اس کی پلکیں س___فید ہ___و گ___ئی تھیں۔ لیکن بھلی کے چہ___رے پ___ر طم___انیت کی مس___کراہٹ تھی اس نے

مسکراتے ہوئے پوچھا۔

"باپو روٹی کھا۔۔۔۔لی؟"

"نہیں بیٹےابھی بھوک نہیں "

آاپ ک__ام ک__رتی "اچھا میں برتن پھر لے جاؤں گی۔ دیر ہو گ__ئی ت__و بے بے پھ__ر چخ چخ ک__رے گی۔ دیکھ__و ب__اپو

نہیں ی__ا ت__و بھ__ابھی کے س__اتھ ت__نی رہ__تی ہے اور ی__ا مجھے بھنبھ__وڑتی رہ__تی ہے۔ ب__اپو بھلا میں کس وقت س__کول

جاؤں؟ کب کام کروں؟"

"بیٹا خیر ہے۔۔۔۔" دھرم سنگھ نے بے دھیانی سے اسے دلاسہ دیا۔

جب بھلی گھر چلی گئی ت__و دھ__رم س__نگھ کے دل میں س__وچوں کی جن__گ چھ__ڑ گ__ئی۔ یہ وسوس__ے اس__ے ک__الے

آائے جن میں روشنی کی کسی کرن کے نکلنے کی امید نہیں تھی۔ اس ت__اریکی میں دھ__رم بادلوں کی طرح نظر

آاتی تھی۔ سنگھ کی ساری عمر کی خون پسینے کی کمائی اور اس کی خوبصورتی مٹتی نظر

82

ان گہری سوچوں میں ڈوبا وہ شام تک بیرونی گھر میں بیٹھا گرہنے نکالتا رہ__ا اور جب وہ گھ__ر لوٹ__ا ت__و گھ__ر والے

کھا پکا کے سو گئے تھے۔ اس نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹ__ائی ت__و پچھلے کم__رے میں پ__ڑی دھن__و نے لی__ٹے

آاواز لگائی۔ لیتے

"کنڈی اندر ہاتھ ڈال کر کھول لے۔ تمہاری چارپائی یہیں دروازے میں ہے"

یہ ل__وگ ات__نی جل__دی ب__دل ج__ائیں گے، اس نے کبھی یہ س__وچا بھی نہیں تھ__ا۔ اس کی اداس__ی غص_ے میں ب__دل

گئی لیکن پھر وہ کچھ سوچ کر غصہ پی گیا۔

تختوں میں ہاتھ ڈال کر اس نے کنڈی کھولی۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے اندر کچھ دکھائی نہیں دے رہ__ا

تھا اور وہ اندازے سے ٹٹولتے ہوئے اپنی چارپائی تک پہنچا۔

آاواز س_نی لیکن ک_وئی "روٹی کھانی ہو تو چنگیر میں رکھی ہے" پہلے ہی کی ط_رح اس نے ان__در س_ے دھن_و کی

جواب دئیے بغیر وہ چارپائی پر لیٹ گیا۔

آانکھیں آاج ہی یہ سب کیس_ے ب__دل گی_ا؟ دھ_رم س_نگھ نے ب__ڑے دکھ س_ے س__وچا ۔ اس_ے اپن_ا س_ر جک_ڑا ہ__وا اور "

آایا ۔ اگر میں بھنتے کو زمین کا حص__ہ دے ک__ر علیح__دہ ک__ر تھکی ہوئی لگیں۔ ایک لمحے اسے ایک اور خیال

آاتے ہی اسے یہ ب__ات بھی عجیب لگی۔ ل__وگ کی__ا کہیں گے کہ پہلے دوں، لیکن گاؤں میں اپنی عزت کا خیال

آاگے کر دیا اور اب جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ لعنت ہے ایسی گھریلو زندگی پ__ر۔۔۔۔پھ__ر ان وسوس__وں بیٹے کو

آائی۔ وہ جب جب پہلو بدلتا دھن__و کے آادھی رات سے اوپر تک اسے نیند نہ آاپ کو نہ نکال سکا۔ سے وہ اپنے

روکھے بول اس کے پہلوؤں میں پتھر بن کر چبھتے۔

آانکھوں کی دکھن کو بھی آانکھیں بند ہوئیں تو دھرم سنگھ کی ادھر مرغ کی بانگ کےساتھ جب جگسیر کی

آاسمانی رنگوں کو نیند کی نرمی نے کم کر دیا۔ ۔۔۔ لیکن اند رکی ٹیسیںسپنے بن کر ان کے اندر کی دنیا کے

دھندلا کرتی رہی۔

دس

83

آائی تو صحن میں ادھر ادھر جھ__انکتے ہ__وئے اس__ے جگس__یر کی رات صبح سویرے سوہنی نندی سے مل مانگنے

کی بنی مڑھی پر پڑی۔یکبار وہ حیرت سے ٹھٹھر گئی، لیکن پھر بات کو سمجھنے کے لیے مسکرانے لگی۔

"امبو" اس نے کچھ حیرت اور ترنگ سے بات قدرے زور سے پوچھا۔"یہ گھر وندی جیسی کیا ہے؟"

آانکھوں پر ہاتھ سے سایہ کر کے سارے ص__حن میں نگ__اہ ڈال__تے ہ__وئے س__وہنی س__ے کہ__ا "س__وہنی" نندی نے بھی

آا کر سونی بولی تیرے پاؤں چھوتی ہوں امبو!" نندی کی چارپائی کے پاس

"یہ جو ادھر صحن کے کونے میں بنائی گئی ہے"

آاداب کا جواب دیتے ہوئے پھر ح__یرانی س__ے "جیتی رہیں۔ تیرے بھائ جئیں۔۔۔سدا سہاگن۔۔۔نندی نے اس کے

آا رہا کہ تو کیا بات کر رہی ہے؟" کہا"بہو رانی کس کونے میں؟" مجھے تو بھائی کی قسم کچھ سمجھ نہیں

"اٹھ تجھے دکھاؤں" سوہنی نے اس کے بازو پکڑ ک_ر اٹھای__ا اور ک_ونے میں لے ج__ا ک_ر م_ڑھی کے پ_اس کھ_ڑا ک_ر

دیا۔

"یہ دیکھ"

نندی کو قلعی کی گئی اینٹوں کا کچھ اندازہ ہوا تو وہیں بیٹھ گی ایسے جیسے اچانک اس کی ٹانگوں میں دم

آائے گ__ئے۔ س__وہنی نہ رہا ہو۔ پھر وہ مڑھی کو نیچے اوپر ٹٹولتی رہی۔ اس کی جھریاں بھرے چہرے پر کئی رنگ

آانس__و اس نے دیکھے ت__و وہ آانکھوں س__ے گ__رتے ان کا مطلب سمجھے بغیر مسکراتی رہی۔ لیکن جب نندی کی

فکر مند ہو گئی۔

"امب__و ک__وئی ب__ات ت__و بت__اؤ!" نن__دی کے پ__اس بیٹھ ک__ر اس ک__ا کن__دھا ہلاتے ہ__وئے س__وہنی نے ہم__دردی س__ے

پوچھا!"کہیں بابے ٹھولے کی سمدھی تو نہیں بنائی؟"

آاواز میں کہا جیسے سوہنی سے نہیں دھرم س__نگھ آانسو پونچھتے ہوئے یوں کانپنی "تیرا بھلا ہو دھرمیا" نندی نے

سے بات کر رہی ہو۔ "میں نے کل تم سے پوچھا تو نے جھوٹ کا طوفان اٹھا کر اور مجھے ٹھن_ڈا ک_ر کے گھ_ر

84

بھیج دیا اور میرے بیٹے کے ساتھ بھی جھوٹ بولا۔۔۔ جاؤ دونوں کے بارے تیرا کچھ نہ رہے۔ تو نے ساری عمر

کی کمائی کا یہ بدلہ دیا دھرمیا! تیرا کیسے بھلا ہو گا۔۔۔۔۔۔"

آاہستہ روتے ہوئے بین کرنے لگی: آاہستہ آاپ بولتی نندی اور یوں اپنے

"تو نے ساری عمر ان شیطانوں کے لیے محنت کی۔ ان کے لیے کماتے م__رے، ارے ت__و ج__و ہمیں بیچ منجھ__دار

آائے، ارے تو جو بری انا والا تھا۔۔۔۔۔۔۔" چھوڑ گیا یہ تو تیری راکھ بھی اڑانے سے باز نہیں

"اگر سمجھدار ہوتے تو ہمیں کسی رستے لگا کے جاتے اے تو جو بڑی عقل والا تھا۔۔۔۔"

آائی تو تھی س_ل لی_نے کے ل__یے لیکن بی_اہ میں بیچ ک_ا حس_اب دیکھ ک_ر وہ پریش_ان ہ__و گ_ئی۔ نن__دی کے سوہنی

بینوں نے اس کا دماغ چکرا دی_ا اور اس نے نن_دی ک_و گلے لگ_ا ک_ر چپ کراتےہوئےکہ_ا"نہ امب_و! اب رونے س_ے

کیا ملے گا؟ کیوں وچارے)بیچارے( کی روح کو دکھی کرتی ہو۔ اس کا کیا دوس)دوش( ہے۔ وہ تو دیوت__ا تھ__ا۔

اسے معلوم تھا کہ دنیا کے دل اتنے کالے ہیں۔ کچھ نہیں۔ ایسے نادان اپ__نے ک__یے ک__ا بھگ__تیں گے۔۔۔چپ ک__ر

بس"

آاواز میں آانس_و پونچھ__تے ہ_وئے رن_دھی آاخر جب اس کا جی ہلک_ا ہ_وا ت_و لیکن نندی کافی دیر تک چپ نہ ہوئی۔

بولی"ان پاپیوں کی کھاتر)خاطر( اس نے س_اری زن_دگی اپ_نی چم_ڑی ادھ_ڑوائی ج__اتے ہ__وئے بی_ٹے ک_و بھی ان کے

آاج تک اس نے ان کے لیے دن رات ایک کیے رکھا۔ ۔۔۔۔لیکن انہوں نے ہم__ارے س__اتھ یہ کی__ا۔ حوالے کر گیا۔

بہو رانی مجھے معلوم ہوتا تو میں اپنے بیٹے کو ان کے گھر پاؤں بھی نہ رکھنے دیتی"

آاخر س_ونی نے اس_ے دلاس_ہ دے ک_ر چارپ_ائی پ__ر بٹھای_ا اور وہ دھرم سنگھ کو کتنی دیر لعنت ملامت کرتی رہی۔

اور سل لیے بغیر چلی گئی۔

جگسیر جب باہر سے لوٹا تو نندی ابھی تک دھرم سنگھ اور اس کے خاندان کو کوس__ے ج__ا رہی تھی۔ جگس_یر

کو بات معلوم ہو گئی لیکن وہ اس سے بات کیے بغیراندر چلا گیا۔ ابھی تک جگسیر کا جسم سن ہوا ہوا تھا۔

اور اس کے سر میں درد ہو رہا تھا۔

85

آاج روٹی کے وقت تک نندی چارپائ پر بیٹھی اونچا اونچا روتی رہی اور پھر اٹھ کر کوٹھڑی کی طرف چل دی۔

آاج وہ بھی اس__ے نظ__ر وہ بالکل نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ جو چھوٹی موٹی دھوپ چھاؤں وہ پہلے دیکھ لیتی تھی

آا رہی تھی۔ نہیں

"بیٹا تم نے میرے ساتھ جھوٹ کس کی کھاطر)خاطر ( بولا۔ مجھے تو معلوم تھ__ا کہ ان چن__د روپ__وں نے دی__ر ی__ا

سویر بھی ہمارے کیے کا یہی بدلہ دینا ہے۔ بھلا ان جٹ_وں س_ے ، جنہ_وں نے ہمیں کت__وں کی ط_رح دور ہٹ_ا کے

روٹی کا ٹکڑا ڈالنا ہے، کسی کا بھلا ہو س_کتا ہے؟ وہ پہلے ل__وگ تھے ج__و اپن__ا ف__ون دی__تے تھے۔۔۔اب ت__و ۔۔۔"

آا گئی اور اس میں الجھ کر وہ دہلیز پر بیٹھ گئی۔ بولتے ہوئے اسے کھانسی

جگسیر کو نندی کی ان باتوں سے چڑ ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کے سر کو چڑھتے چکراتے اتنا ب__ڑھ رہے تھے

آانکھیں بن__د ک__ر کے رض__ائی س__ے منہ آاہستہ باتیں بھی اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھیں۔ اس نے کہ نندی کی

ڈھانپ لیا اور پھر اسے معلوم خبر نہ رہی کہ نندی کب تک دہلیز پر بیٹھی کھانستی اور باتیں کرتی رہی۔

گیارہ

دوسرے دن سوہنی کے منہ سے نکلی بات سارے احاطے میں پھیل گئی اور پھر سارے گاؤں کی نکمی عورتیں

آائیں کہ کچھ اور انہ__وں نے یہ ب__ات م__ذاق میں اور کتن__وں ک__و بت__ائی۔ ک__ئی خاموش__ی س__ے ج__ا کے دیکھ بھی

آاس__مانی ع__ذاب ک__ا پیش خیمہ س__مجھنے لگے اور ب__ڑی فک__ر من__دی سمجھدار عورتیں اور مرد اس بات کو کسی

یمں ابھاس__ر کے کچھ نہیں کہ__ا سے اس معاملے پر مشورہ کرنے لگے تھے لیکن ابھی تک کس__ی نے اس ب__ارے

تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ اب کے ماروں کو اور مارنا ، سمجھدار لوگوں کو اچھا نہیں لگتا تھا۔

آاٹھ دن چارپائی پر پ__ڑا رہ__ا۔ اس ب__ار اس__ے بخ__ار کے س__اتھ کھانس__ی بھی ہ__و گ__ئی جگسیر اس دن کے بعد سات

آاتے ہی تھی۔ چار پانچ دن نندی اس کی خبر گیری کرتی ریہ لیکن پھر وہ خود بھی چارپائ پر جا پڑی۔ سردیاں

جو دے کا جان لیوا دورا نندی کو پڑت__ا تھ__ا، اس ب__ار وہ اتن__ا ش__دید تھ__ا کہ کبھی کبھی اس ک__ا س__انس بھی رک

آا جاتی تھی۔ آانکھیں ساکت ہو جاتیں اور لمحوں میں جان ہاتھوں پیروں میں جاتا۔

86

اگرچہ جگسیر ابھی اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل ہوا تھا لیکن وہ نن__دی کے ل__یے بخ__ار کے س__اتھ بھی ک__ام

کرنے لگا۔ اس نے رونقی سے لیکر گولیاں کھائیں لیکن ان سے کوئی زیادہ افاقہ نہیں ہوا۔

آاپ کو تندرست س_مجھنے لگ__ا۔ لیکن نن_دی چارپ__ائی آاخر وہ ہمت کر کے چلتا پھرتا رہا اور تیسرے دن وہ اپنے

سے لگ کے رہ گئی۔ جگسیر کو یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ اٹھے گی بھی نہیں!

آائی۔ وہ گھبرا کے اٹھا ۔ چارپائی آانکھ کھلی تو اسے نندی کی چارپائی خالی نظر ایک رات جب جگسیر کی

آایا تو نندی ات__نی س__خت س__ردی میں ہ__اتھوں واقعی خیال تھیا۔ کوٹھڑی کا ایک دروازہ کھلا تھا ۔ وہ اٹھ کے باہر

آاپ ک_و گھس_یٹتی ص_حن میں م_ڑھی کے ق_ریب ج_ا رہی تھی۔ س_انس کی کے س_ہارے اپ_اہجوں کی ط_رح اپ_نے

آاواز جگسیر سن سکتا تھا۔ ایک ب__ار وہ اس_ے جل__دی س__ے پک_ڑنے لگ_ا لیکن کھینچ سے پیداہونے والی سیٹی کی

پھر کچھ سوچ کر دہلیز پر بیٹھ گیا۔

آاؤں گی" مڑھی کے پاس جا کر اسے ٹٹولتے ہوئے وہ ایک دم یوں ب__ولی جیس__ے کس_ی بہ__رے کے "لو اب تو میں

س______اتھ ب______اتیں ک______رنے لگی ہ______و" مجھے۔۔۔۔۔ مجھے اب ک______وئی نموش______ی نہیں۔۔۔۔جب ۔۔۔۔جب تجھے

نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ت______و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس ب______ات

کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگ__ر تم میں ک__وئی زور ہوت__ا ت__و ج__انے س__ے پہلے ہی کچھ ک__ر ج__اتے۔ نہ اب ت__یری ع__زت ہے نہ

م____یری۔۔۔۔دون____وں کی زن____دگی ایس____ی ہی گ____ئی۔ ۔۔۔۔اس ط____رح نہ ت____و۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

او۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تری_____________ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی_____________ا کمی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ_____________نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس کا سانس اکھڑ چکا تھا اور اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی تھی جگس__یر دوڑ ک__ر اس کے پ__اس گی__ا

اور بچوں کی طرح گود میں اٹھا کر اسے کوٹھڑی میں لے گیا۔ نن__دی س__انس کھینچ کھینچ ک__ر لے رہی تھی اور

آانکھیں ٹھہر گئی تھیں۔ اسے چارپائی پر ڈال کر جگس_یر ٹ_وٹے دل کے س_اتھ بھ__اگ ک_ر ہان_ڈی س_ے گ_رم پ__انی

آایا۔ پھر اس نے نندی کو رضائی کی پیالی بھر لایا۔ اسنے کنکنا پانی نندی کے منہ میں ڈالا لیکن اسے ہوش نہ

87

آانکھوں اور کھلے منہ کی طرف دیکھتا رہ__ا۔ ای__ک میں لپیٹ کر اس کے اوپر کھیس ڈال دیا اور اس کی ساکت

آایا کہ جا کے ڈیرے والے سادھو کو بلا لائے لیکن پھر اپنی چارپائی پر بیٹھ کر اس نے کہا: اسے خیال

"اگ__ر اس__ے مرن__ا ہی ہے ت__و اس__ے اور اذیت دے ک__ر کی__وں م__ارتے ہ__و" ۔ اور پھ__ر وہ خ__اموش اور بے دھیان__ا ہ__و ک__ر

چارپائی پر لیٹ ک_ر چھت ک_و دیکھ_نے لگ_ا۔ اس_ے لگ_ا جیس_ے چھت س_ے ک_وئی اس_ے جھان_ک رہ_ا ہ_و۔ اور وہ

آادمی سے باتیں کر رہا ہو: ایسے بولنے لگا جیسے اس

"جہاں کے رکھوالے؟ بھلا ایسے جہنم کے کیڑوں کو انسانوں کا روپ دینے کی تجھے کیا ضرورت ہے؟"

کچھ دیر بعد اسے اپنا جسم پھر گرم ہوتا محسوس ہوا۔ وہ نڈھال ہو کے پڑا رہا۔

آاواز س_نائی دی اور وہ اٹھ ک_ر بیٹھ گی_ا لیکن اس کے اٹھ_تے پھر اس_ے نن_دی کے س_انس کے س_اتھ ای_ک عجیب

آاواز مدہم ہو کر خاموش ہو گئی۔ جب تک وہ نندی کا ہاتھ پکڑ ک__ر اس کی نبض دیکھ__نے لگ__ا تب ت__ک اٹھتے

آانکھوں کا رنگ کریر کے پھل جیسا ہو گیا تھا۔ آا گئی تھیں اور اس کی ادھ کھلی نندی کی نبض کہنیوں تک

ایک گدا اس نے ٹنگنے سے اتار کر جگسیر نے ذہن پر ڈالا اور نندی کو اس پر لٹاتے ہوئے بولا۔

"ل__و تم گنگ__ا ج__ل منہ ک__و لگ__ائے بغ__یر چل__و؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دی__ر بع__د ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی ت__یرے

آا رہا ہوں" پیچھے

اس نے چارپائی سے بسر اٹھا کر ایک طرف رکھ__ا اور چارپ__ائی کی ادوان اوپ__ر ک_ر کے چارپ__ائی کھ_ڑی ک_ر دی۔

اس کے بعد وہ نندی کی نعش کے پاس کھیس کی بکل مارے سکون کے ساتھ بیٹھ کر سامنے والی دیوار کی

طرف دیکھنے گا۔ اور اس کے یوں بیٹھے بیٹھے پو پھٹ گئی۔

جب روشنی دروازے کی درزوں میں سے دکھائی دی جگسیر اٹھ کے ب__اہر گی_ا۔ پہلے اس نے ویہ_ڑے کے ای__ک

دو بزرگوں اور خواتین کو ماں کی موت کی خبر دی پھر دھرم سنگھ سے گھ__ر چ__ل پ__ڑا ۔ دھ__رم س__نگھ ب__اہر والے

گھر چھپڑ کے نیچے سو رہ__ا تھ__ا۔ اس دن کے بع__د اس نے گھ__ر چ__ل پ__ڑا۔ دھ_رم س__نگھ ب__اہر والے گھ_ر چ_پر کے

نیچے سو رہا تھا۔ )اس دن کے بعد اس نے گھر جانا ہی چھوڑ دیا تھا اور باہر والے گھر رہنے لگ گیا تھا

88

"رات بے بے ختم ہو گئی" جگسیر نے جب اس کی چارپائی کے پاس جا کر بیٹھتے ہوئے کہا ت__و دھ__رم س__نگھ

آاہ بھ___رتے ہ___وئے تس___لی دی___تے ہ___وئے کہ___ا : "چل___و ۔۔۔۔ نے ذرا ہی افس___وس ی___ا ح___یرانی کے بغ___یر ای___ک لم___بی

آای__ا۔ جب وہ آاگے اس ک__ا دل بھ__ر آائی تھی۔ ہم__ارے۔۔۔۔" وچاری)بیچاری( کو نجات ملی۔ اچھے ک__ام ک__ر کے

اٹھ کر پگڑی باندھتے ہوئے جوتا پہن رہا تھا تو جگسیر کا مض__بوط دل ہ__ل گی__ا۔ جب اس نے نگ__اہیں جھک__ائیں

آانسو ایسے بہے جیس__ے برس__وں ک__ا اکٹھ__ا پ__انی بہہ نکلا ہ__و اور وہ دھ__اڑیں م__ار کے رونے آانکھوں سے تو اس کی

لگا۔

رب کا نام لو۔ یہی ریت ہے۔ سب نے چلے جانا ہے۔ کوئی چار دن پہلے کوئی بعد۔۔۔"

آاوازمیں جگسیر کو دلاسہ دیا لیکن اس کا دل بڑھاتے بڑھاتے وہ اس سے پہلے بے قابو ہو دھرم سنگھ نے رندھی

گیا اور پھر اس سے کوئی بات نہ کی گئی۔

آانکھیں پونچھیں اور رومال کندھے پر ڈال ک_ر جگس_یر ک__و ب__ازوؤں س__ے اٹھ__اتے ہ__وئے ب__ولا۔ کتنی دیر بعد اس نے

"اتھو۔ اسے ٹھکانے لگائیں۔۔۔۔ اپ__نے دکھ ت__و اپ__نے س__اتھ ہی ختم ہ__و ں گے۔۔۔۔" اور دھ_رم س_نگھ"اپ__نے دکھ"

کہتے ہوئے پھر لرز گیا۔

آائے ، ص__حن میں خاص__ی ع__ورتیں ت اور م__رد اکٹھے ہ__و چکے تھے۔ نن__دی ک__و جب وہ دونوں جگسیر کے گھر

آاواز دے ک__ر ان__در بلا لی_ا اور دھ__رم س__نگھ ص_حن میں م__ردوں کے عورتیں نہلا رہی تھیں۔ سوہنی نے جگسیر ک__و

پاس جا بیٹھا۔

"اوپر ڈالنے کے لیے کوئی کپڑا، لیر" سوہنی نے فکرمندی س__ے جگس__یر س__ے پوچھ__ا۔ اب ت__ک جگس__یر ک__ا ادھ__ر

دھیان نہیں گیا تھا۔ وہ خاموشی سے کوٹھڑی کے پچھلے حصے میں گیا اور لک__ڑی ک__ا ص__ندوق کھول__نے لگ__ا ۔

آالود تالہ دو دفعہ ہلانے س__ے کھ__ل گی__ا۔ ڈھکن__ا کھ__ول کے اس نے ان__در ہ__اتھ ڈالا۔ کھ__در کے ای__ک ک__پڑے زنگ

میں، ایک طرف، ایک چھوٹی گٹھڑی پڑی تھی۔

آائی س__ونی نے جل__دی س__ے ص__ندوق میں جھ__انکتے ہ__وئے "اس گٹھ__ڑی میں س__ب کچھ ہ__و گ__ا" اس کے پیچھے

آایا: کہا۔ جگسیر نے اسے گٹھڑی پکڑا دی۔ جب اس نے گٹھری کھولی اس میں سے سب کچھ نکل

89

تینوں کپڑے۔ ڈوری۔ کفن

"بس سب کچھ ہے" سوہنی نے تسلی کے ساتھ کہا اور گٹھڑی باہر لے گئی۔

جگس__یر کچھ دی__ر ص__ندوق کے پ__اس کھ__ڑا رہ__ا اور پھ__ر جیس__ے اس کے ان__در س__ے ک__وئی ب__ولا: "بے بے م__یرے

کپڑے؟" اور وہ وہیں صندوق کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ ایک رنگا رنگ بھی_د بن گی_ا: ای__ک رن_گ اس کے

آانکھوں میں سوگ اور اداسی کا تھا اور تیس__را رن__گ اس کے ہونٹوں پر اوپری مسکان کا تھا۔ دوسرا رنگ اس کی

آاگے کے اندھیرے کا رنگ۔ اور ان تین__وں رنگ__وں میں آاشیانے کی تیلیوں کی طرح الجھے روکھے چہرے کا تھا۔

جیسے جگسیر کی پچھلی تین پیڑھیوں کے لوگوں کا رنگ اور جیون کا بھید واض_ح ہ_و رہ__ا تھ_ا۔ وہ بھی_د جس_ے

جگسیر کی روح ص_رف محس_وس ک_ر س_کتی تھی۔ اس کی تہہ میں پہنچن_ا ابھی اس کے بس کی ب__ات نہیں

تھی۔

اس کی شکل و صورت، قد کاٹھ ، جون ایک ایس__ا بھی__د بھ__ری تص__ویر تھ__ا جس کی ہ__ر لک__یر میں ص__دیوں کے

رنگ بھرے تھے لیکن اس تصویر کے مٹے م__ٹے رنگ__وں میں کھ__وئے بھی__د ابھی ابھی ، نہ ج__انے کب ت__ک بھی__د

آاپس میں ملتے ہیں تو وہ انس__ان آانکھ کو دھوکہ دیتے۔ دو رنگ جب آاج بھی انسان کی رہیں گے۔ کیونکہ رنگ

آانکھ کو تیسرے رنگ کا دھوکہ دے جاتے ہیں۔ کی

آا کر بیٹھا تو ان میں سے کئی ل__وگ س__ادہ ب__اتیں چھ__وڑ ک__ر نن__دی ک__ا کچھ دیر بعد جب جگسیر باہر مردوں میں

جنازہ نکالنے تک بات لے گئے پھر سیدھی بات کرنے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی۔ بات کرنے والوں نے کس__ی

وقت کی خار نکالنے کے لیے بات چلائی لیکن جگسیر کے ن__رم م__زاج نے ان کی خ__ار کی دھ__ار کن__د ک__ر دی

تھی۔ ایک دو سمجھدار لوگوں نے بات کو دوسرا رخ دے دیا۔

آاس نندی کی چتا کو ٹھکانے لگانے کے بعد گاؤں کے لوگوں کو جیسے جیسے علم ہوا وہ تعزیت ک__رنے گ_ئے۔

پاس کی عورتیں بار ی باری بیٹھتی رہیں۔ لیکن دن ختم ہونے پر سب گھروں ک__و چلے گ__ئے ص__رف جگس__یر اور

آاہ بھ__رتے ہ__وئے دھ__رم س__نگھ بچ گ__ئے۔ جگس__یر نے دھ__رم س__نگھ ک__و گھ__ر ج__انے ک__و کہ__ا لیکن اس نے لم__بی

کہا"جگسیا اب اپنا گھر کہاں؟" پھر کچھ دیر کے بعد وہ یوں بولا جیسے اپنے دل کا بوجھ اتارنا چاہتا ہو۔

90

"تجھے تو ایک ہی غم ہے کہ تو اکیلا رہ گیا لیکن جن کا سب کچھ ہے۔ گھر بار، ب__ال بچے، زمین، جائی_داد

تیرے حساب سے وہ سب سکھی ہیں؟ تم میرے بھائی ہو۔ تم سے کیا پردہ تیری ٹاہلی کاٹنے کے بعد گھر میں

ایسا جھگڑا کھڑا ہوا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے سادھوؤں کی طرح ب__اڑے کے چھ__پڑ میں ج__ا بیٹھ__ا ہ__وں۔

آادمی سوچتا کچھ اور اور ہوتا کچھ اور ہے۔ شائد یہ دنی__ا ب__نی ہی خ__راب لوگ__وں کے ل__یے ہے۔ ان جیس__ے جگسیا

لوگ__وں کے س_اتھ نمٹ_نے کے ل__یے جگس_یا بن_دے کی ک_اٹھی س__ات من ل_وہے والے گ_ڈے جیس_ی مض_بوط ہ__ونی

آادمی ک__و ت__و ل__وگ آادمی کا یہ__اں کی_ا ک_ام؟ کم__زور چاہیے۔ کیکر کے جیسی سخت جان اور متنفر روح۔ کمزور

اچھلتے اونٹ کی طرح بکھیر دیتے ہیں۔

دھرم سنگھ ایک دم خاموش ہ__و گی__ا۔ پھ__ر ای__ک دم گھ__برا کے ب__ولا "جگس_یا پی__ار کے بغ__یر کی_ا دین__ا اور پی__ار اب

آا گ لگ__انی ہے اگ__ر انس__انوں کے دل ہی لوگوں میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جمین، جیدات)زمین، جائداد( کو کی__ا

نہ ملیں۔ جمین ، جیدات تو ہاتھ کا کھیل ہوتی ہے۔ جب انسان میل ہی چ__اٹنے لگے ت__و ت__ف ہے ایس__ی زن__دگی

پر۔۔۔"

آاہ بھری"ہے واہگورو" کہا اور چپکے سے گھ__ر دھرم سنگھ پھر خاموش ہو گیا۔ چند لمحوں بعد اس نے ایک اور

آالود روح کے ب_ارے میں وہ ب_ار ب_ار چلا گیا۔ جگسیر دھرم سنگھ کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ بے ضمیر اور تعزیت

آائے۔ سوچتا۔ پر ایسے باضمیر انسانوں کے چہرے پھر بھی اس کے سامنے واضح ہو کر نہ

آای__ا۔ رات گ__ئے ت__ک وہ دون__وں ب__اتیں سوتے وقت دھرم سنگھ اپ__نی روٹی کھ__ا کے جگس__یر کے ل__یے دو روٹی__اں لے

آادھی رات ک__و جب کرتے رہے۔ دھرم سنگھ نے بھنتے اور س کی ماں کی ساری ب__اتیں جگس__یر ک__و بت__ا دیں اور

وہ سوئے تو دھرم سنگھ کا جی ہلکا ہوا تھا۔ جگسیر چاہے دھرم سنگھ کے ساتھ پہلے بھی بہت پی__ار کرت__ا تھ__ا

آاج اسے دھرم سنگھ کے ساتھ عجیب س_ی ہم__دردی ہ__و رہی تھی۔ پھ_ر جب دھ_رم س_نگھ س_ونے کے ل_یے لیکن

گیا ، جگسیر ابھی جاگ رہا تھا اور اس کے بارے سوچ رہا تھا۔

تیسرے دن دھرم سنگھ، جگسیر کےساتھ پھول چننے گیا ۔ پھر ساری رسمیں پ__وری ک__ر کے جگس__یر س__ے کہ__ا

"کسی بات کا فکر نہ کرن_ا" اب م__یرا دم__اغ بھی ہ__ل گی_ا ہے۔ اگ__ر یہ س__ب ہن تھی_ک ہ__و ج_ائیں ت__و ش_ائد جی_ون

91

آا۔ پھ__ر ہم م__رنے ک_ا س_وچیں گے۔ پیس_ے کی فک_ر نہ کرن__ا۔ ابھی یہ کامیاب ہو جائے۔ تو ہر دور کی یاترا کر کے

لے جا"

آاگے نہ بڑھایا گیا۔ دھرم سنگھ نے جب دس دس کے پانچ نوٹ جگسیر کو پکڑائے تو اس سے ہاتھ

"لے ل__و" دھ__رم س__نگھ نے اس ک__ا ہ__اتھ پک__ڑ ک__ر ن__وٹ اس کی مٹھی میں دی__تے ہ__وئے کہ__ا "میں تم پ__ر ک__وئی

اسان)احسان( نہیں کر رہا۔ وہ دھرم سے میری بھی ماں تھی۔ ت__و دھ__رم ک__ا بھ__ائی ہے۔ اب م__یرا اس دنی_ا میں ہے

ہی کون؟"

آانسو بہہ نکلے۔ آانکھوں سے اور دھرم سنگھ کی

"میں تمہارا قرض کیسے چکاؤں گا بھائی" جگسیر بھی جب بے قابو ہ__و گی__ا ت__و وہ دھ__رم س__نگھ کے گلے ل__گ

کر رونے لگا۔

آات__ا دھرم سنگھ اسے بچوں کی طرح تھپکی دیکر چپ کرات_ا رہ__ا لیکن جگس_یر ک_ا رون__ا ختم ہ__ونے میں ہی نہیں

آاج ہی دھونا چاہتا ہو! تھا۔ جیسے تمام عمر کا اکٹھا ہوا ہو درد وہ

بارہ

نندی کے مرنے پر سارے گاؤں میں اس بات کا چرچا ہوا۔ جگسیر کی چاروں بہنیں اور اس کے ب__اپ کے دور،

آائے۔ ان سب کی جو خدمت جگس_یر نے کی وہ دیکھ ک_ر س_ب ل__وگ ح__یران رہ نزدیک کے کئی رشتہ دار بھی

آائے تھے انہیں بھوک کے وقت یہ دکھان__ا مش__کل ہ__و گ__ئی۔ بہن__وں ک__و گئے جو عزادار ململ کی پگڑیاں لے کے

آاج ت_ک اس نے تین تین قیمتی کپڑے، پانچ پانچ سیر سبزی اور پانچ پانچ روپے نقد دئیے۔ مرنے پر ات_نی خ_دمت

یمں کسی سو گھم_اؤں کے مال_ک نے بھی نہیں کی گی۔ ی_وں لوگ_وں ک_و ب_اتیں ک_رنے ک_ا موق__ع م_ل پورے گاؤں

گیا۔

"کیا خبر سالے نے کوئی خزانہ دبایا ہوا تھا"

"تنا خرچہ تو اچھے اچھے لوگ نہیں کر سکتے"

92

"اب ساری عمر قرضہ اتارتا رہے گا"

"اکیلی جان ہے۔ ساتھ ہی سخت کنجوس تھی۔ ساری عمر کتنا جوڑ گئی!"

لیکن اصل بات دھرم س__نگھ اور جگس_یر ک__و معل__وم تھی اور تیس__رے دھن_و ک__و جس نے اگلے دن ہی بھن__تے ک__و

آای__ا تھ__ا جب آاڑھتیوں کی دکان سے یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ دھرم سنگھ ان سے کتنے پیسے لے کر

آاڑھ__تیوں س_ے س_ات س_و روپے ادھ__ار لای__ا تھ__ا، دھن_و کے شام کو واپسی پر بھنتے نے دھنو کو بتایا دھ_رم س_نگھ

آاگ لگ گئی تھی۔ اس کو اس وقت کا انتظار کرنا پڑا جب جگسیر کےسارے مہمانوں کو الوداع ساتوں کپڑوں

آانے س__ے پہلے وہ دو م__رتبہ چھ__وٹے ل__ڑکے آا بیٹھ__ا۔ اس کے کہہ کر دھرم سنگھ بیرونی گھر کے چھپڑ کے نیچے

آادھی رات کو اس ک__ا پتہ لگ__انے کےل__یے بھیج چکی تھی۔ اس نے ابھی چارپ__ائی پ__ر کم__ر س_یدھی کی تھی کہ

کو ہی بھنتے کو ساتھ لے کر وہ کتیا کی ط_رح دھ_رم س_نگھ ک__و بھنبھ__وڑنے لگی ۔ دو دن دھ_رم س_نگھ جگس_یر

آایا تھا۔ کے پاس رہ کر

آا کر دھنو نے کہا"اگر گھر ہی کو پھونکن__ا "یہ تم نے کیا کام شروع کر لیا؟" دھرم سنگھ کی چارپائی کے پاس

آا گ لگا دو۔ جلدی سیاپا ختم ہو۔۔۔۔یوں لوگوں کو کھلا کھلا کر کیوں اجاڑتے ہو؟" ہے تو تیل ڈال کر

دھنو کا خیال تھا کہ دھرم سنگھ کچھ س__خت ج__واب دے گ__ا او وہ بھنت__ا دل کی پ__وری ک__ر لیں گے لیکن وہ

حیران رہ گئی جب دھرم سنگھ خاموشی سے ایسے پڑا رہا ہے جیسے اسے دھنوں کی کوئی ب__ات س__نائی نہ دے

رہی ہو۔

"اب تو تمہارے گلے میں اینٹ اٹک گئی ہو گی" دھنو نے تنک کے کہا"تمہارے جیسے ب__اپ ہی اولادوں ک__و

جائیدادیں بن_ا کے دے ج_اتے ہیں۔ تمہ_ارے جیس_وں کے بی_ٹے، ہ__وتے ہی بع_د میں گن گ_اتے نہیں تھک_تے۔۔۔"

لیکن دھ__رم س__نگھ ابھی بھی خ__اموش تھ__ا۔ اس کی چپ س__ے دھن__و ک__و مزی__د غص__ہ چ__ڑھ رہ__ا تھ__ا۔ وہ اس کی

آا گئی اور اپنے باہر نکلے کولھوں پر ہاتھ رکھے، پھ__ر ب__ولی" وہ ک__تی ج__ات)ذات( جنہ__وں چارپائی کے اور نزدیک

نے ساری عمر ہمارے جسم پر سے جوں تک نہیں چھوڑی، ان رشتہ داروں کو تو س_ات س__ات س__و لا کے دی__تے

93

ہو۔ وہ بھی ادھار پکڑ کے اور پانے جایوں کی بات نہیں پوچھتے۔۔۔۔اگر تم نے یہی کرتوت کرنے ہیں ت__و دون__وں

بیٹوں کا گلا دبا دو اور مجھے ایک کرتا ور پیالہ لا دے۔ تاکہ در در کی بھیک مانگ سکوں۔

ساتھ تیری بارہ گاؤں تک شہرت بھی ہو جائے گی۔"

سات سو روپے کا بھید اور دھنو اور دھنو کی اس تقریر نے دھ__رم س__نگھ ک__و ان__در س__ے ش__ل ک__ر دی__ا اور اس کی

آائی مچھلی کی طرح تڑپی۔ وہ چیخ کے کہنا چاہت_ا تھ_ا"کتئ_یے ج__ا ت_یری بوٹی_اں ک_ر دوں کی روح پانی سے باہر

گا" لیکن اس کے گلے میں کچھ اٹک سا گیا تھا۔ اس کے ان__در ک_ا درد اس کی نس نس میں س__ما کے ای__ک

بار چبھی اور اس کی اناکو زخمی کر گئی لیکن پھر بھی اس نے زبان نہ کھولی۔

آا جا چلیں اگر اس نے یہی کرنا ہے تو ہم_ارے ل_یے بھی راس_تے کھلے ہیں" پیچھے کھ_ڑا بھنت_ا ب_ولا"اب "بے بے

تک اس کی اجت)عزت( کی ۔ اب اگر یہ ہمارا کچھ نہیں لگتا تو ہمارا اس سے کیا رشتہ؟"

آاواز س__ن ک__ر دھ__رم س__نگھ ک_و اور دھرم سنگھ کو اس س_ے پہلے معل__وم نہ تھ__ا کہ بھنت__ا بھی س__اتھ تھ__ا۔ اس کی

دھکھ ہوا لیکن بولا وہ پھر بھی نہیں۔

آائیگ__ا ک__ریں گے۔ اب اس "ہمارا کچھ لگتا ہوتا تو ایسے کرتا؟" دھن__و نے اور ج__ل کے کہ__ا"ج__و ہم__ارے من میں

شیطان کے سہارے تو نہیں رہیں گے جس نے گھر کو جھونکنے کا ارادہ کر رکھا ہے"

اور جب دھرم سنگھ ابھی بھی کچھ نہ بولا تو دھنو نے اور دباؤ ڈالتے ہوئے کہا " اب ت_و م_ٹر بن گ_ئے ہ_و لیکن

کان کھول کے سن لو اگر یہی کرنا ہے تو بیٹوں کو جمین)زمین( بانٹ دو اور میرا حصہ بھی۔ باقی جو تمہارے

آا گ لگ_ا دین_ا۔ اور پھ__ر اس_ی اون_ترے کے پ__اس ج__ا بیٹھ_ا دون_وں چار گھماؤں بچ جائیں اسے چاہے دوس_رے دن

اکٹھے کھا پکا لینا۔ ساتھ ہی وہ انہیں افیم، شراب اور دوس_رے عیب بھی س_کھائے گ_ا۔ ہنس_وں کی ج_وڑی کی

خوب نبھے گی۔۔۔"

دھرم سنگھ کو اس بات کا پہلے ہی اندازہ تھا لیکن دھنو اسے اس طرح کی گندی اور چبھتی باتیں کرے گی

اس کا اندازہ نہیں تھا۔

94

دھنو سے اگرچہ اس کی پہلے دن سے نہیں بنی تھی، لیکن ہر جھگڑے ک__و خ__ود ک__و جھک__ا ک__ر ، نب__یڑنے کی

عادت نے ، بات کبھی بڑھنے نہیں دی تھی۔ لیکن یہ دکھ والی حالت دھرم سنگھ کے بس سے باہر تھی۔

آانکھیں پتھرائی س__ی لگ__تی تھیں۔ اس آا رہا تھا گلہ بالکل رندھ گیا تھا اور دھرم سنگھ کا سر درد سے پھٹنے کو

کے بعد اسے معلوم نہیں ہوا کہ دھنو نے اور کیا بکڑ بکواس کی اور کب وہ اور بھنتا وہاںسے چلے گئے۔

آایا تو رات کا تیسرا پہر بیت رہا تھا۔ یا سرے چھپر کے نیچے، پ__رانی رض__ائی دھرم سنگھ کو ہوش جب ٹھکانے

آا رہا ہوتی رسوئیوں کی طرح قہر کی چھبتی سردی سے گھٹنوں کادرد بڑھ گیا تھ__ا۔ اس نے رض__ائی س__ے منہ سے

نکالا۔ چھپڑ کے بائیں طرف سرکنڈوں کے لٹکتے پھندوں میں سے دو چمکدار ستارے دکھائی دئ__یے۔ وہ کت__نی

آاہستہ وہ چکتے ستارے ریٹھوں کی طرح دکھائی دینے لگے۔ آاہستہ دیر ان تاروں پر نظریں جمائے، دیکھتا رہا پھر

آاگ لگی ہ_و۔ وہ اٹھ کے بیتھ_ا ت_و س_ینک اور پھر کچھ دیر بعد اسے ایسے لگا جیس_ے اس کی کم_ر میں ک_وئی

بڑھا۔ رضائی کی بکل مار کے کھڑا ہوا اور جوتا پہن کے چل پڑا، سردی سے اس کے گھٹنے چلنے میں مش__کل

پیدا کر رہے تھے لیکن ان کےدرد سے اس کی پیتھ کا درد اور تپش کم ہو گی__ا کہ اب اس ک__ا خی__ال بھی اس__ے

آا رہا تھا۔ وہ ٹانگوں کو گھسیٹتا چھپڑ کے پاس سے ہو کر صحن کی طرف مڑ گیا۔ نہیں

رات سائیں س_ائیں ک__ر رہی تھی۔ ایس__ی گہ__ری خاموش_ی جگس_یر نے اپ__نی پچ__اس س_الہ زن__دگی میں پہلے کبھی

محسوس نہیں کی تھی۔ اس خاموشی میں ایک عجیب اداسی تھی جو اس پوہ کی سردی میں اس کی چھاتی

آات__ا محس__وس ہ__و رہ__ا چسن کر رہی تھی۔ اسے اپنا س__انس بھی رک رک ک__ر میں گھس کے اس کے تمام اعضا کو

تھا۔

صحن میں جا کے وہ ذرا رکا ۔ سر اٹھا کر اس نے سرسری سی نگاہ ان کھوہ جیسے کوٹھوں پر ڈالی۔ پھر نگ_اہ

نیچی کیے وہ مڑھی والی پگڈنڈی کی طرف مڑ گیا۔

تیرہ

95

نندی کے مرنے کے بعد جگسیر جدھر سے گزرتا لوگ اس کا حال پوچھ__تے۔ نن__دی کی بیم__اری اور اس__کے ن__رم

آادمیوں سے اپنی ماں کی اور تعری__ف س__نی ت__و اس__ے ش__رم مزاج اور سمجھ کی تعریفیں کرتے۔ جگسیر نے دو چار

آانے لگی اور وہ دو تین گھر سے ہی نہ نکلا۔

جتنے دن نندی کا ستر بچھا رہا اتنے دن رونقی جگس__یر کے س__اتھ م__ل ک__ر تع__زیت ک__رنے وال__وں کی دیکھ بھ__ال

کرت__ا رہ__ا۔ م__اں ف__اتحے کی رس__وم کے بع__د اس کی طبعیت بھی کچھ ڈھیلی ہ__و گ__ئی تھی اور پھ__ر ای__ک دن وہ

آائیگا۔ شام ت__ک اس نے اس ک__ا چارپائی پر ہی پڑا رہا۔ اگلے دن رونقی کا خیال تھا کہ جگسیر اسے ملنے ضرور

آایا تو رونقی خود ادھر کو چلا۔ انتظار کای لیکن جب وہ نہ

"کیسے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے" رونقی نے پوچھا

آا رونقا" جگسیر جیسے اس کی انتظار میں تھا۔ طبعیت تو ٹھیک ہے۔ ویسے ہی گھر سے نکلنے کو جی نہیں "

کر رہا تھا۔

آاواز میں کہ___ا"جب بی___ل س___ے پھ___ل ٹوٹت___ا ہے تب ہی پ___انی نکلت___ا ہے اور "ہوت___ا ہے" رونقی نے بزرگ___وں جیس___ی

بندہ۔۔۔۔۔" تم ت__و س_یانے ہ_و کبھی ہوت_ا ہے اچھ_ا اس کی رج__ا)رض__ا( اپن_ا ک_وئی ج__ور )زور( ہے اس زور والے کے

آاگے۔۔۔۔۔۔"

جگسیر نے کوئی جواب نہ دیا ۔ تھوڑی دیر دونوں چپ رہے۔ جگسیر نے دیکھا کہ رونقی کا چہرہ اداس ہ__و رہ__ا

تھا۔ اسی لمحے رونقی نے اپنی چوہوں جیسی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "اور وہاں کوئی روئی رائی؟"

"بھوک نہیں ہے"

"یہ کوئی بات ہے ، پاگل" اسے بچوں کی طرح جھڑک کر رونقی نے ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

آاتے ہیں؟ جی_تے جی ت__و کچھ نہیں چھ__وڑا جات__ا جگس_یا۔ "اناج میں طاقت ہوتی ہے۔ اس طرح م_رے ہ__وئے واپس

میں روئی لاتا ہوں خود ہی تو پکانی ہے۔ دو تیری بھی لگا لوں گا"

رونقی کی اس اپنائیت کے بعد جگسیر اسے نہ روک سکا۔

96

آاہستہ سے کہا"بھانی کہتی تھی اسے کہن__ا کبھی "سچ ایک۔۔۔میں تو بھول گیا" چلتے وقت رک کر رونقی نے

کھرے کھڑے چکر لگائے۔ گھبرایا ہوا ہو گا۔اتنے ہی میں طبیعت کچھ بحال ہو جاتی ہے"

آانکھ__وں جیس__ی روش__نی دکھ__ائی آانکھوں سے جگس__یر ک__و بلی کی کچھ دم وہ چپ رہا اس کی چھوٹی چھوٹی

دی۔ تھوری دیر وہ ویسے ہی کھڑا اپنی داڑھی کے چھدرے بالوں میں دائیں ہاتھ سے کنگھی کرت__ا رہ_ا پھ__ر تھ__وڑا

آادھ_ا رہ جات_ا ہے۔ اچھ__ا آانا ۔ ملنے سے انس_ان ک_ا دکھ آاواز میں بولا "ہو آاہستہ جگسیر کی طرف جھک کر بڑی

آایا" میں چلتا ہوں۔ گھر ہی رہنا سمجھو میں روٹی لے کے ابھی

آائی۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو اس__ے جب رونقی چلا گیا تو جگسیر کو کوٹھڑی میں زیادہ تاریکی نظر

آاہس_تہ س_ے اٹھ ک__ر وہ دی__ا جلانے کے ٹنگنے پر ٹکی دو تین پرانی رضائیوں اور بچھون__وں کے س_ائے ڈراؤنے لگے۔

لیے ماچس کی ڈبیہ ڈھونڈنے لگا لیکن اسے ماچس نہ ملی۔ جگسیر نے کوٹھڑی سے باہر نکل ک__ر دیکھ__ا ابھی

آاگے کھ__ڑا اندھیرا نیہں ہوا تھا۔ مغ__رب کی ط__رف ہلکی ہلکی روش__نی جھل__ک رہیتھی۔ کچھ دی__ر وہ دروازے کے

آایا۔ رہا اور پھر باہر کو چل پڑا۔ اسے دروازہ بھیڑنے کا خیال بھی نہ

گاؤں سے ب_اہر من_ڈی والے رس_تے پ_ر س_ے وہ چھ_پڑی کے پ_اس پہنچ_ا ت_و اچان_ک ایس_ے رک گی_ا جیس_ے پیچھے

آایا ہو۔ پیچھے دیکھا تو اندھیرے کی وجہ سے گاؤں کے کوٹھے چھیتوں جیس__ے لگے۔ ب__ائیں ط__رف کچھ بھول

چھڑی تھی اور دائیں طرف برما والوں کی گندم۔ کمر تک اونچی ہ__وئی ی__وں ہم__وار لگ__تی تھی جیس__ے ااس__ے اوپ__ر

سے قینچی سے کاٹ دی ہو۔ جگسیر نے گندم کے اوپ__ر س__ے دور ت__ک نگ__اہ دوڑائی اور پھ__ر چھ__پڑی کی ط__رف

دیکھنے لگا چھپڑی میں نیچے نیچے تھوڑا سا پانی تھا۔ جیسے پیاسا میں تلچھٹ ۔ پ__انی ل__گ رہ__ا تھ__ا اور اس

چدکھ رہی تھیں۔ میں تاروں کی پرچھائیاں

آائے جیس_ے جگسیر کو یہ سب اجنبی لگا۔ یہاں کھڑے کھڑے لمح_ون میں اس کے ذہن میں ک_ئی ات_ار چڑھ__اؤ

آاتا تو سانس اوپر کو کھینچتا اوپر جاتا تو اس کی چھاتی بھ__اری ہ__و ج__اتی۔ پھ__ر وہ چنڈال دل پر کھڑا ہو۔ نیچے

وہ خاموشی سے گاؤں کی طرف مڑ گیا۔ دل میں اٹھتے جوار بھاٹا سے اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔

97

آا ک__ر آا کر وہ چکی کے پاس سے ہو کر دھرم سنگھ کے ب__یرونی گھ__ر کی ط__رف چلا۔ نزدی__ک گاؤں کے نزدیک

اس نے نیچی باڑ سے نگاہ دوڑائی تو اس_ے وہ_اں ک_وئی دکھ_ائی نہ دی__ا۔ای_ک ب_ار اس ک_ا دل دھڑک_ا لیکن پھ_ر وہ

آاگے چل پڑا۔ گاؤں کے اوپر ہو کر وہ نکے کی گلی میں جا پہنچا۔ ان کے دروازے پ__ر ج__ا ک__ر نگاہ نیچی کیے

اس کے پاؤں خود بخود رک گئے۔ لیکن گلی کے درمیان سے دروازے تک کا فاصلہ اس نے کافی دیر میں طے

کیا۔

احتیاط سے پاؤں رکھتا وہ دروازے کے نزدیک یوں ہوا جیسے راکھ پر قدم رکھ رہا ہو۔

دروازے کے نزدیک ہو کر اسے درزوں سے روشنی اور بچوں کا شور سنائی دیا۔

آائی اور پھر لمبا سانس لے کر چھوڑا تو ساتھ ہی اس کے چہ__رے ک__ا رن__گ اس کے ہونٹوں پر ایک لمحہ مسکان

بدل گیا۔

"کڑے نکے کی بیوی۔ میلو کی ماں"

آاواز جگس__یر ک__و س__نائی دی۔ اورپھ__ر اس کے آاواز س__ے پک__ارتی نکے کے ہمس__ائے ک__اکے کی بی__وی کی اونچی

چہرے کا رنگ گرہن شدہ چان__د کے چہ__رے کی ط__رح دھن__دلا گی__ا۔ وہ دروازے کے بالک__ل پ__اس س__ے ی__وں م__ڑا

آا گیا۔ آا گئے ہوں۔ اور وہ وہاں سے سیدھا گھر جیسے اس کے پاؤں کے نیچے انگارے

"تم س__ارا دروازہ کھلا چھ__وڑ ک__ر کہ__اں چلے گ__ئے تھے؟" ک__وٹھڑی میں دی__ا جلا کے بیٹھے، اس__ے دروازے میں

داخل ہوتے دیکھ کر رونقی نے پوچھا "میں ایک پہر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

لیکن جگسیر بغیر کچھ بولے چارپائی پر بیٹھ گیا۔

"لو پہلے روٹی کھالو" روئیوں والا رومال رونقی اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا"پھر ساری رات اپنی ہے"

آاہستہ سے کہا اور چارپائ پر لیٹ گیا۔ "رونقی یار روٹی کی تو بھوک نہیں" جگسیرنے

"دیکھ تو" رونقی نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا" بھیریا کیسی بچوں والی ب__ات ک__رتے ہ__و۔ اس ط__رح

روٹی چھوڑنے سے نقصان پورے ہوتے ہیں بھلا؟"

98

جگسیر بے بسی سے اٹھ بیٹھا۔ رونقی روٹیاں اس کے س_امنے رکھ ک__ر ب_اہر س_ے پی_الے میں پ_انی لی_نے چلا گی_ا۔

تھوڑی دیر جگسیر کچی پکی روٹیاں دیکھتا رہا۔ پھر بڑے بڑے نوالے توڑ کر منہ میں ڈالنے لگ__ا۔ س__ر نیچ__ا ک__یے

جب اس نے ایک روٹی پانی سے نگل لی تو باقی کی روٹیاں اس نے رومال میں لپیٹ کر دئ__یے کے پیچھے ب__نے

طاقچے میں رکھتے ہوئے کہا"یہ صبح کھا لوں گا" ابھی تو پہلی بھی۔۔۔۔۔۔"

"واہ بھی واہ" کچھ غصے اور کچھ روٹھتے ہوئے ، رونقی نے اس کی بات ٹوک دی"

تو تو بچوں سے بھی بڑھ گیا ہے۔

آاج تو ادھ__ر ہی س__و ج__ا۔ لیکن جگسیر نے اس کی بات کا دھاین کیے بغیر ، چارپائی پر لیٹے ہوئے کہا " رونقا

باتیں کریں گے"

"لو یہیں سو لوں گا۔ وہاں کیا خزانہ دبا ہوا ہے کہ اس کی رکھوالی کرنی ہے"

آاج برس_وں کے رونقی نے جواب دیا اور کونے میں کھڑی چارپائی بچھ_ا ک_ر اس پ_ر بیٹھ گی_ا۔ رونقی کے دل ک_و

بعد خوشی حاصل ہوئی تھی۔ بنتو کے جانے کے بعد اسے ایسی تسلی والی خوشی نصیب نہیں ہو ئی تھی۔

"جگسیا بندہ ہی بنے کا دارو ہوتا ہے" وہ ٹنگنے پر سے ایک بچھونا اتار کر چارپ__ائی پ__ر ڈال__تے ہ__وئے کہ__ا" اکیلا

تو گھبرا کے ہی مر جاتا ہے"

"ہ__ونہہ" جگس__یر نے رونقی کی ہ__اں میں ہ__اں ملائی۔ اور جب رونقی بچھون__ا لے ک__ر لیٹ__ا ت__و جگس__یر نے پوچھ__ا

آاتی ہے؟" "رونقا اب کبھی بنتو یاد

رونقی کچھ دیر خاموش رہ کر اچانک بولا "جاد)یاد( کبھی کبھی تو۔۔۔۔" بولتے بول__تے وہ تھ__وڑا س__ا رک__ا اور اس

آائی" س_نتو کے کی__ا کی__ا دکھ کے بعد یوں جلدی جلدی بولنے لگا کہ جگس_یر ک__و اس کی ب__ات س__مجھ ہی نہ

کردیتے ہو جگسیا مار کے چھوڑ گئی ہے۔ تباہ کر کے چھوڑ گئی بدمعاش نے ککھ نہیں چھ__وڑا۔ اس کے ہج__ر

نے میرا جگر ہی جلا دیا۔۔۔۔۔اس نے میرا کچھ نہیں رہ__نے دی__ا۔۔۔۔جگس__یر ک__و لگ__ا جیس__ے اس نے رونقی کے

اندر پھوڑے میں سوئی چبھو دی ہو۔ اس کا خیال تھا کہ معمول کی طرح وہ اس ب__ات ک__و م__ذاق میں ٹ__ال دے

گا لیکن جب اس نے رونقی کی طرف غور سے دیکھا تو اسے اس کی مونچھیں پھڑکتی ہوئی دکھائی دیں اور

99

اس کی چھ__دری داڑھی میں بھ__رتی انگلی__اں دئ__یے کی ل__و کی ط__رح ک__انپ رہی تھیں۔ جگس__یر اس کی ط__رف

کچھ دیر دیکھتا رہا جیسے وہ اس کے اندر کا چھالہ پھوڑ کر پچھتا رہا ہو۔

"جگسیا کبھی کبھی تو میں یوں سوچتا ہوں" رونقی اداس چہرے کے ساتھ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بولا

"اگرچہ ہمارے جیسے لوگوں کے ساتھ رب نے یہی کچھ کرنا تھا تو کسی جنور)جانور( کی جون پیدا کرتا۔

آازادی کیس__ے م__ل آای__ا۔ ات__نی آاب__اد زن__دگیوں کی خ__واہش ک__رتے رونقی یہ ب__ڑا س__خت خی__ال اور چڑی__ا، ج__انوروں کی

آارزو اولے کی طرح مٹی پر جا پرے گی۔ وہ خاموش ہو گیا۔ سکتی ہے؟ اور ساتھ ہی اس کی

جگسیر نے یہ بات رونقی ک__و ب__اتوں میں لگ__انے ک__و کی تھی۔ وہ اس کی ب__اتوں میں اپ__نے دل کی الجھن__وں ک__و

بھولن__ا چاہت__ا تھ__ا ۔ لیکن جب اس نے دیکھ__ا کہ رونقی اس کی مانن__د اپ__نی رو میں بہہ چلا تھ__ا ت__و پہلے والی

اداسی نے پھر اسے جکڑ لیا۔

آاپ ہی جگسیر کی طرف دیکھے "بندیا تیری دس بیٹیاں۔ ایک کا ہوا بیاہ۔ نو گئی کہاں" لیٹے لیٹے رونقی اپنے

بنا بولنے لگا۔

"ای_ک تیلی نے س_اری عم__ر کولھ__و کے س_اتھ چل__تے چل_تے گ_ذار لی۔ وہ ب_ڑوں س_ے س_نا کرت_ا تھ__ا کہ انس_ان کی

قسمت زندگی میں دس بار ب__دلتی ہے۔ س__اتھ ہی یہ بھی کہ__تے ہیں کہ ب__ارہ ب__رس بع__د ت__و ک__وڑے کی بھی س__نی

آادمی کی کیوں نہیں سنی جاتی؟ لیکن ک__وئی ہم__ارے مق__در والے جیس_ا ونی ایس__ا تھ__ا ج__و گ_رم جاتی ہے تو پھر

آانکھوں پ__ر ان__دھی عین__ک لگ__ائے اس نے بیل__وں پ__ر چڑھ__ائی رکھی اور تیل کڑاہی میں ڈالتا رہا۔ بیلوں کے ساتھ ہی

اس کی بے حسی نے اس پر۔

جگسیا کہتے ہیں جب وہ پچاس سال کا ہوا تو تب وہ کولھو کے ساتھ چک_ر لگ_اتے یہی بولت_ا تھ_ا "بن_دیا ت_یری

دس بیٹیاں۔ ایک کا ہوا بیاہ۔ باقی گئیں کہاں" ایک دن درگاہ میں ڈنکا بجا۔ ایک سوداگر کھچروں)خچروں( پر

دولت لادے جا رہا تھا ۔ وہ رات کاٹنے کے ل_یے تیلی کے ش_ہر میں رہ گی_ا۔ رات ک_و ای_ک کھچ_ر)خچ_ر(تیلی

آا کھڑا ہوا۔ تیلی نے خچر کو اندر لا کے اس پر سے دولت اتار لی ۔ کھچر)خچر( کو دو ڈنڈے کے دروازے پر

مار کر باہر بھگا دیا۔

100

آائے تو کھڑے ہو کر کان ہلائے" رونقی تھوڑی دی__ر اس کے بعد وہ تیلی یوں بولنے لگا " بندیا جب تمہاری یاد

خاموش رہا اور پھر جگسیر کے پوچھنے کا انتظار کیے بغ_یر، چھت ک__و گھ__ورتے ہ__وئے ب__ولا"دھن ب__ڑی توفی_ق والا

ہوتا ہے یہ بھی ان کی تقدیر ب__دل دیت__ا ہے۔ کہ__تے ہیں جس کی ک__وٹھڑی میں دانے اس کے کملے بھی س__یانے۔

جگسیا اب تو دنیا پیسے ہی کی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔پیسے بغیر"

رونقی پھر خاموش ہو گیا۔ لگتا تھا اس کی سانس رک گئی ہے۔

آائے گھڑے ہو کے کان ہلائے۔" ایک پل بعد وہ ایک دم یوں بولا کہ جگس__یر ڈر گی__ا۔ لیکن "جب تمہاری باری

ہماری تو پہلی بھی سسر نے چھین لی"

ساتھ ہی ساتھ اس نے اتنی زور کا قہقہہ مارا کہ جگس__یر نے جل__دی س__ے اٹھ ک__ر اس کی ط__رف دیکھ__ا جیس_ے

سچ مچ اسے کچھ ہو گیا ہو لیکن رونقی اپنی چھدری داڑھی میں دائیں ہاتھ کی ٹیڑھی انگلیاں پھیرتے اور بائیں

آائی ہوئی مونچھیں آانسو پونچھے جا رہا تھا اور اس کی بانچھوں کے نیچے آانکھوں سے ہاتھ سے چھوٹی چھوٹی

ایسی بکھری تھیں جیسے وہ ابھی بھی ہنس رہا ہو۔

"کیا بات تھی رونقا" جگسیر نے حیران ہو کر پوچھا۔

"کچھ نہیں" اس نے بھی حیران ہ__و کے جگس__یر کی ط_رف دیکھ__تے ہ__وئے کہ__ا "مجھے کی__ا ہون__ا تھ__ا ۔ میں ت__و

تمہیں ایک بات سنا رہا تھا"

اور اس نے دوب__ارہ چھت کی ط__رف ٹکٹکی بان__دھ لی اور ویس__ے ہی داڑھی کے ب__الوں میں انگلی__اں پھ__یرتے ای__ک

آاہ بھری " اس سے اور زیادہ ہمارے ساتھ کیا ہو گی جگسیا۔۔۔۔؟ اور کوئی کسر ہے اور ہماری دم مروڑی گہری

جا سکتی ہے تو وہ بھی میرے سسر کا باپ توڑ لے"

آاہ بھر کے کہی تھی لیکن اس کی بات میں مزاح دیکھ کر جگسیر بھی ہنس پڑا۔ رونقی نے بات اگرچہ

پھر کافی رات تک رونقی جگسیر کو روپ بسنت، جانی چو، ن__ل دھی__نی اور پ__ورن بھگت کے قص__وں میں س__ے

ٹ__وٹکے س__ناتا رہ__ا۔ جگس__یر ک__و لگ__ا جیس__ے رونقی اس__ے کس__ی چک__ر س__ے نک__ال ک__ر اوپ__ر کی دنی__ا میں لے گی__ا

101

تھ__ا۔ ۔۔۔۔بہت اوپ__ر ۔ خوبص__ورت دنی__ا میں۔ جب وہ اس رات س__وئے، جگس__یر کی ط__بیعت کچھ س__نبھل گ__ئی

تھی۔

چودہ

صبح سویرے اٹھ کر جب رونقی اپنی ک_وٹھڑی کی ط__رف ج__انے لگ__ا ت__و اس نےجگس__یر س__ے کہ__ا"میں چ__ل ک__ر

آا جانا" تھوڑا رک کے اس نے پوچھا"دوائی ہے کہ ختم ہو گئی؟" چائے بناتا ہوں تو میرے گھر

"دو گولیاں ہوں گی" جگسیر نے چارپائی پر پڑے ۔ رونقی ای__ک ہ__اتھ س_ے اپ_نی پگ_ڑی س_ر پ_ر ل_پیٹ رہ_ا تھ_ا اور

دوسرا ہاتھ جیب میں ڈالا ہوا تھا۔

اس نے اپنی ٹیڑھی ٹانگیں یوں چوڑی کی ہوئی تھیں جیسے پتلی_وں کے تماش_ے میں رانی خ_ان ک_ا س_الا۔ یہ رانی

آا گئی۔ یہ یاد کر کے اس کی ہنسی نکل گئی اور اس خاں کے سالے والی بات نہ جانے جگسیر کو کیسے یاد

آا گ_ئی اور اس نے ت__یری آای_ا تھ__ا ج__انی ت_یری س_نتو نے مسکراتے ہوئے کہا "رونقا رات مجھے سپھنا )خ__واب( میں

پکڑی جوتے کے ساتھ باندھ کر تجھے چھت کے ساتھ لٹکا دیا ہے۔ اس وقت بھی تیرا ہاتھ جیب میں تھا"

"جگسیر اب تو اپ_نی ج_ان اس ڈبیہ میں رہ گ_ئی ہے" رونقی نے اس کی ب_ات کی ط_رف دھی_ان دئ_یے بغ_یر ال_ٹی

سیدھی پگڑی باندھ کر جیب میں سے ڈبیا نک_التے ہ__وئے کہ_ا "ابھی ت_و اچھی خاص_ی ہے پ_انچ س_ات دن نک_ل

جائیں گے"

آانکھ__وں س__ے رونقی نے افی__ون کی ای__ک گ__ولی منہ میں ڈال ک__ر ڈبی_ا جیب میں ڈالی ت__و اس کی چھ__وٹی چھ__وٹی

آاہس__تہ۔ اس__ے س__کون ظ__اہر تھ__ا لیکن ک__وٹھری س__ے ب__اہر نکل__تے ہی اس کی ٹ__انگیں اور ٹ__یڑھی ہ__و گ__ئیں اور چ__ال

آایا۔ جگسیر کی بات کا اب خیال

رونقی کے جانے کے بعد جگسیر کو اپنے اندر پھر خلا سا محسوس ہ__وا۔ وہ اٹھ کے بیٹھ گی__ا ۔ وہ کس__ی ب__ات

سے گھبرا گیا تھا۔ شائد کام کی وجہ سے ۔ وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہ__وا۔ اور ب__رتن میں س__ے ک__ئی دن__وں ک_ا پ__ڑا یخ

پانی سے منہ دھونے لگا۔ اور بع__د میں ہ__اتھ کے براب__ر دس__تے والا بیلچہ لے ک__ر وہ ب__اہر ک__و چلا۔ لیکن گھ__ر س__ے

102

آا گ__ئی اس نے کھیس کی بک__ل ک__و کس لی__ا اور اپن__ا منہ آایا اور اسے جھرجھ__ری نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

کھیس کے پلو سے لپیٹ لیا۔ لیکن اس کی کپکپی نہیں اتری۔

آایا اور وہ اندر آاگ دیکھ کر اس کو سکینے کا خیال آایا تو اندر جلتی ہوئی جب وہ رونقی کی کوٹھڑی کے پاس

آا گ جلا رہ__ا تھ__ا ۔ ک__وٹھڑی چلا گیا۔ رونقی نے اینٹوں کے چولہے پر پانی کا پتیلا رکھے نیچے کاٹھ کباڑ س_ے

میں دھواں بھرا ہوا تھا۔ جگسیر اندر گیا تو رونقی ک_و پتہ نہ چلا اور گیلی لکڑی__وں ک_و گالی_اں نک_التے ہ__وئے اپ__نے

آاپ ہی بول رہا تھا۔ "رونقا رات سامنے چھتیر )شہتیر( پر تجھے سنتو نے لٹکایا ہوا تھا" جگسیر نے دھویں میں

سے اندازے کے ساتھ رونقی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

آانکھوں کو ملتے ہوئے کہا رونقی قدرے گھبرایا پھر دھوئیں بھری

"چاہے کسی چیز کے س__اتھ لٹک_ا دے اس کی م__رجی)مرض__ی( ہے ۔۔۔۔۔ دو تین س_ال ہ__و چکے پ__ر ہ__ر وقت ہی

لٹکائے رکھتی ہے۔ سپھنے )سپنے ( میں لٹکا لیا تو کیا ہوا"؟

رونقی کی بے پرواہی نے جگسیر کو سنتو کے پیار کا ایسا تاثر ملا جس سے اسے تسلی ہو گئی کہ رونقی مرتے

دم تک سنتو کو نہیں بھولے گا"۔

"کیسی خراب ہو گئی ہے یہ زندگی جون بیلیا۔

قدرت نے ڈار سے علیحدہ کر دی مون بیلیا!

آاہس__تہ س__ے رات ک__و قص__ے میں س__نایا رونقی ک__ا یہ بن_د دہرای__ا پھ__ر س__اتھ ہی س__اتھ رونقی کی دھ__واں جگسیر نے

آاگ کی روشنی میں چمکیں۔ آانکھیں کھائی

"ہاں" رونقی نے اپنی لہر میں کہا"کاہے علیحدہ کی مون پاپیا ، کا ہے علیحدہ کی مون۔۔۔۔"

آا آانکھ_وں میں پھ_ر نمی پل کے پل میں رونقی کا جھریوں بھرا چہ_رہ دھ_وئیں میں اور بھی س_یاہ ہ_و گی_ا۔ اس کی

گئی اور وہ دونوں ہتھیلیوں سے انہیں ملنے لگا۔

103

جگسیر نے محسوس کیا کہ اس نے رونقی کے سامنے بنتو کی بات دوبارہ چھیڑ کر اچھا نہیں کیا تھ__ا۔ ی__وں وہ

اور کچھ نہ ب__ولا۔ رونقی نے چ__ولھے پ__ر رکھی پ__تیلی میں گ__ڑ ک__ا دھیلا اور مٹھی بھ__ر چ__ائے ڈال دی ت__و نس__واری

رنگ کا پانی ابل کر پتیلی کے کنارے سے باہر نکلنے لگ_ا۔ کس_ی کے گھ_ر س_ے مانگ_ا ہ_وا دودھ اس میں ڈالا

اور ابلتا گاڑھا پانی اتر گیا۔

"جگسیا جب بندہ چائے کی طرح ہکتا ہو تو بیوی کچے دودھ کی ط__رح اس میں م__ل ک_ر اس_ے بٹھ__ا دی_تی ہے"

رونقی نے کہا۔

آاگ کی روشنی سے چم__ک رہی تھیں۔ آانکھیں نم ، جلتی بجھتی جگسیر نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی

رونقی کی یہ بدلتی حالت جگسیر کو سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ایک ہی وقت میں رونقی کو اس کے غم

اور دکھ نے اسے عجیب شکل دے دی تھی۔

"اگر کسی کے پاس دودھ دینے والا جانور نہ ہو اور چائے بھی پینی ہو تو؟"جگسیرنے مسکرا کر کہا

"پھر ہماری طرح کسی کی بکری دوہ لائے! دودھ کے بغیر چائے کیسی؟"

رونقی بولا۔ خالی چائے تو بندے کا پتہ ہی ختم کر دیتی ہے۔ شائد اسی لیے کنوارے جل__دی م_ر ج_اتے ہیں۔ وہ

کالی چائے کی طرح پک_تے رہ__تے ہیں ۔ پھ_ر س_ے دودھ پ_ڑے ت_و ٹھی_ک چ__ائے ب__نے ۔ پک_ائے ج__اتے ہیں۔ پک_ائے

جاتے ہیں ۔ اور جب پک پک کر اندر خشک ہو جاتے ہیں تو پتیلی کھالی)خالی(۔۔۔!"

اس بار رونقی نے بری دلچسپ بات کی تھی۔ جگسیر پھر مخمخے میں پڑ گیا۔ 'ہونہہ' کہکر اور سر ہلا ک__ر وہ

چپ کر گیا۔

چائے پی کر جگسیر کھیت کی طرف چلا۔ چائے کے ساتھ اس نے افی__ون کی ای__ک گ__ولی بھی کھ__ا لی تھی۔

جب وہ گاؤں سے ب__اہر نکلا، س__ورج طل__وع ہ__و چک__ا تھ__ا۔ کچھ دھ__وپ اور کچھ افی__ون کی گ__رمی س__ے اس کے

اعضانے گرمائش محسوس کی تھی۔

گاؤں سے نکل کر جگسیر نے سوچا کہ دھرم سنگھ کے گھر س__ے ہ__و ج__ائے لیکن "اپ__نے کھیت" دیکھ__نے کی

اسے اتنی خواہش تھی کہ وہ سب کچھ بھول گیا۔ اور وہ کھیت تک پہنچنے کے لیے اور تیز قدم ہو گیا۔

104

کھیت پر جا کر وہ ادھر والی مینڈھ پر جہاں اس رات ایک کالا سانپ اس کے جسم پ__ر پھرت__ا رہ__ا تھ__ا

آانکھ__وں س__ے اپ__نے کھیت کے ای__ک ک__ونے س__ے بیلچے کے دستے کا سہارا لے کر بیٹھ گی_ا اور پھ__ر اپ__نی ڈوب__تی

دوسرے کونے تک ایک ایک بوئے کو یوں دیکھنے لگا، جیسے ہر بوئے کا مرجھایا پیلا ہوت__ا ہ__وا بے ج__ان پتہ ان

آاخر تک کھیت کوڑھی کے جس__م میں چبھتا ہو۔جگہ جگہ سے جانوروں نے بوٹے اوپر سے کھائے ہوئے تھے اور

پر داغوں کی طرح دکھ رہا تھا۔ مینڈھوں پر اگا گھاس بھی خشک سردی کی وجہ سے ختم ہو رہا تھا۔

آاور جگسیر نے جب نگ__اہ ای__ک ط__رف ڈالی ت__و س__اتھ کے کھیت__وں میں ہ__ری کچھ__ار گن__دم دیکھ ک__ر ان کے ق__د

پودوں کے پتے کی نوکیں اپنی گندم کے جملے پ__ودوں س__ے زی__ادہ کھٹک__نے لگیں اور وہ زی__ادہ دی__ر ادھ__ر نہ دیکھ

سکا۔

آانکھ! پھر جب ادھر نگاہ ہٹا کر نیچی کی تو اسے ایک گہرا گڑھا دکھائی دیا۔ نیا گڑھا جیسے دھرتی کی نئی

ا سکے اطراف پڑی م__ٹی گہ_ری پلک_وں کی ، گہ_رے گ_ڑھے کے س_اتھ بہت بدص_ورت ل_گ رہی تھی۔ جگس_یر

آاکر مٹی ڈالنے لگ گیا۔ سے یہ گڑھا نہ دیکھا گیا۔ وہ بیلچہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور گڑھے کے پاس

آا رہ__ا تھ__ا۔ اس کے اس کے بعد روتی کے وقت تک ، سر جھکائے ، وہ گڑھا بھرتا رہا لیکن وہ بھ__رنے میں نہیں

چھوٹے سے پھاوڑے سے بہت تھوڑی مٹی پ__ڑ رہی تھی۔ جگس__یر نے کبھی ات__نے چھ__وٹے ک__ام پ__ر اتن__ا زی__ادہ وقت

آاج وہ اکت__اب بھی نہیں رہ__ا تھ__ا۔ جب نہیں لگایا تھا۔ اسے کام پر ضرورت سے زیادہ وقت اکتا دیت__ا تھ__ا۔ لیکن

اس نے گڑھا بھر لیا تب بھی وہ وہاں بیٹھا موٹے موٹے ڈھیلے ت__وڑ ت__وڑ ک__ر م__ٹی براب__ر کرت__ا رہ__ا۔ جب وہ وہ__اں س__ے

آایا تھا۔ مٹی ہموار کر کے اٹھا تو سورج خاصا چڑھ

آائے۔ وہ کچھ دی__ر ی__ونہی اٹھ کر جگس__یر نے دور ت__ک نظ__ر دوڑائی۔ راجب_اہ پ__ر تھ__وڑے ہی ل__وگ اس__ے چل__تے نظ_ر

چاروں طرف دیکھتا رہا پھر پھاوڑا کندھے پر رکھے وہ ٹیلے کی ط__رف چلا۔ اس کے پیٹ میں بے چی__نی ہ__و رہی

تھی۔ کمر میں بہت درد ہو رہا تھا اور ٹانگوں سے جیسے جان ہی نکل گئی ہو۔

105

آاس پ_اس س_ردی س_ے مرجھ__ائے پ__ودوں کے آای_ا۔ گ_ڑھے کے ٹیلے پر جا کر وہ کچھ کھڑا رہ_ا پھ_ر وہ_اں س_ے پلٹ

درمیان اسے کچھ نظر پڑا۔ وہاں وہ بیٹھ گیا اور اسے اپنی پگ__ڑی کے پل__و میں رکھ__نے لگ__ا۔ یہ اس کی ٹ__اہلی کی

کھال تھی۔

کچھ دیر بعد جب جگسیر گاؤں کی طرف جا رہا تھا تو پگڑی کے پل__و کی گٹھ__ڑی س__ر پہ رکھے اور بے ت__رتیب

چال دیکھ کر جگسیر کے پاس سے گزرتے وساکھیے نے کہا"یہ کیا ہے؟ کریلے توڑ کے لائے ہو تلنے کو؟"

لیکن جگسیر خاموشی سے ایسا چلتا رہا جیسے اس نے وساکھے کی بات نہ سنی ہو۔

"سالا کالا کمین بڑا رانی کھاں)خان( کا باپ بن کے جا رہا ہے"

آادمی سے بات ہی نہیں کرتے! بوڑھی کیا مری یہ ماش کی دال کی طرح اینٹھا کس__ی س__ے ب__ات ہی ہم تو کالے

نہیں کرتا۔!"

آانکھ__وں میں گن__دم کے آاہستہ بولے لفظ اسے پیچھے سے سنتے رہے۔ وہ پھر بھی کچھ نہ بولا)ی__وں وساکھے کے

پتوں کی نوکس اور زیادہ تکلیف دینے لگیں(

پندرہ

آاتے ہی جگسیر چارپائی ص__حن میں ڈال ک__ر لیٹ گی__ا۔ اس کے ان__در ایس__ی بے چی__نی ہ__و رہی تھی جیس__ے گھر

کلیجہ کٹ رہا ہو۔ اس نے کھدر کے کپڑے کے ساتھ کمر کو کس کے باندھا اور گھٹ__نے چھ__اتی س__ے لگ__ائے

وہ پڑا رہا۔ لیکن اضطراب ابھی بھی نہیں ختم ہو رہا تھا۔

کھیس میں منہ سر ڈھانپ کر اس نے اپنی سوچوں کو دفع ک__رنے کی بہت کوش__ش کی مگ__ر بے چی__نی اور ب__ڑھ

آاخر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک گھٹنوں اور کہنیوں ک__و پیٹ س__ے لگ_ائے رکھ__ا اور پھ__ر اٹھ ک_ر چ__ل گئی۔

دیا۔ چلتے وقت کلیجے سے ایک ٹیس اٹھ کے اس کے سر تک گئی اور پھر وہ ستون کا سہارا لے ک__ر کھ__ڑا ہ__و

آاپ کو س__نبھالتے ہ__وئے دوب__ارہ چل__نے آایا اندھیرا کم ہونا شروع ہوا اور وہ اپنے آاگے آانکھوں کے گیا۔ کچھ دیر بعد

لگا۔

106

آاہستہ دھرم سنگھ کے گھر تک پہنچا ۔ گلی میں س__ے نگ_اہ ڈال_تے ہ__وئے اس نے آاہستہ دن چھپ چلا تھا ۔ و ہ

آاٹ__ا گون__دھ رہی تھی۔ پہلے وہ تھ__وڑا جھجھک__ا دیکھا، پچھلے کمرے کے سامنے ، رسوئی میں بھنتے کی بی__وی

آانکھ چمک_تی دکھ__ائی دی اور س__اتھ ہی س__اتھ س__بز بی__ل پھر بڑے تخ__تے کی جھ__ری میں س__ے اس__ے ای__ک م__وٹی

ڈکارا۔ جگسیر کے اندر جیسے چاقو اتر گیا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اسے کوئی چیز پگھلتی اور ڈھ__ل کے اس کے

جسم میں اترتی محسوس ہوئی دوسرے لمحے کوئی اسے اندر کھینچ کر لے گیا۔

آاٹا گون__دھتے دیکھ__ا۔ اس ک__ا دھی__ان اپ__نے ک__ام میں تھ__ا۔ جب جگس__یر اندر جاتے ہی اس نے بھنتے کی بہو کو

دروازے میں داخل ہوئے تو دونوں بیل پھر ڈکارے۔ ان__در داخ__ل ہ__و ک_ر جگس_یر دون__وں بیل__وں کے درمی__ان کھ__ڑا ہ__و

آاپ ہی بول__نے لگ__ا یگا۔ پاگلوں کی طرح وہ انہیں تھپکتا ، انکے جسم پر ہ__اتھ پھیرت__ا، ان کے ک__ان ٹٹولت__ا، اپ__نے

"سو ہریو تم تو بہت کمزور ہو رہے ہ__و۔ لگت_ا ہے تمہیں کس_ی نے ط_ریقے س_ے چ_ارہ بھی نہیں ڈالا۔ تمہ_ارا پیٹ

بھی خالی ہے بھولیو! دیکھ تو کیسے ساری پسلیاں جدا جدا دکھ رہی ہیں۔ جب تمہیں پالنے والا چھوڑ گیا تو

اور کون خیال کرے گا؟۔۔۔۔کسی کو کیا پڑی۔۔۔۔لوگوں کو کام چاہیے۔۔۔۔ہے ناں ۔۔۔۔نری ہ__ڈیاں ہی رہ گ__ئی

ہیں۔۔۔۔!

آانکھیں بیل اس کے ہاتھ ، بازو اس طرح چ_اٹ رہے تھے جیس_ے اپ_نی بھ_وک مٹ_ا رہے ہ__وں۔ ان کی م_وٹی ن_روئی

ایک ایسی قوت برداشت تھی جو صرف جگسیر جیسا شخص ہی سمجھ سکتا تھا۔ جس نے انہیں بچپن س__ے

دودھ پلا پلا کے بڑا کیا تھ__ا۔ ان کے گلے میں گھنٹی_اں ڈال ک__ر اور نرخ__رے س_ے ان کے جس_م ک_و رگ__ڑ ک_ر اور

کپڑے سے صاف کر کے، ان کی جلد مخمل جیسی بنائی تھی۔ ان کے سینگوں ک__و تی__ل م__ل ک__ر س__انپوں کی

طرح چمکایا تھا۔س_ردی کی رات_وں میں اٹھ اٹھ ک_ر ان کے نیچے س_ے گ_وبر ہٹ_ا ک_ر نیچے م__ٹی بچھ_ائی تھی اور

جس نے ان سے کبھی زیادہ کام نہیں لیا تھا اور نہ کبھی زور س_ے چھ_ڑی م__اری تھی۔ ان دون_وں بیل__وں نے اس_ے

اپنے درمیان ایسا بند کر لیا کہ جیسے اب وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔

آانکھوں میں دیکھتا۔ ان کے منہ اور ماتھے مسوستا، ان کے ستاتھ باتیں ک_یے ج__ا رہ__ا تھ__ا۔ اس__ے جگسیر ان کی

اپنا سارا دکھ بھول گیا، جیسے اسے ساری دنیا ہی بھول گئی تھی۔

107

"جو کچھ تم سے ہوا تم نے کر لیا اب انہیں بھی لے جانا چاہتے ہو؟"

جگسیر کے سر میں جیس__ے کس__ی نے اینٹ م__ار دی ہ__و۔ اس نے م__ڑ ک__ر دیکھ__ا۔ چھوٹ__ا س__ا گھ__ونگھٹ نک__الے

بھنتے کی بہو دروازے کے پاس کھڑی تھی دھنو ہی کی طرح اس نے ایک ہ__اتھ س__ے گھ__ونگھٹ پک__ڑا ہ__وا تھ__ا

اور دوسرا ہاتھ اس کے کولھے پر تھا۔ جگسیر نے اس کے طرف دیکھ کر یوں نگاہیں جھکا لیں جیس__ے وہ س__چ

آایا ہو۔ اس نے نگ__اہ نیچے ک__یے ، ملزم__وں کی ط__رح کہ_ا"ک__وئی نہیں بچہ! مچ بیل چوری کرنے کے ارادے سے

میں دھرم سیوں کو۔۔۔۔۔"

"کچھ لگتا۔۔۔۔۔سیوں کا؟" اس کی بات ٹوک کر بھنتے کی بہ_و ب__ولی"تمہ__اری ج_ان کے ع__ذابوں نے اس_ے نہ

جانے کس کنویں ، ٹوبے جوہڑ میں دھکیل دیا ہے۔ چار دن ہو گئے پورے خاندان کی دوڑ بھاگ لگی ہے اور یہ

آایا ہے۔ بڑے پیار والا! ان کے منہ چاٹ رہے ہو۔ جس ک__ا س__اری عم__ر کھای__ا ہے اس__ے بڑا سردار ابھی صلح کرنے

ڈھونڈ کے لاؤ؟ اپنے بوڑھی کا مرنا تو کرا لیا، لوگ__وں س__ے واہ واہ ک_را لی اور ہم__ارا گھ__ر اج__اڑ دی__ا۔ ت__یرے جیس_ے

بھی ہ__وتے ہیں! اگ__ر تمہ__اری س__وچ ص__حیح ہ__وتی ت__و ہم__ارے س__اتھ ایس__ا نہ ک__رتے۔ اپ__نی دو دن کی واہ واہ کی

کھاتر)خاطر( تو نے ہمیں جیتے جی سولی پر چڑھا دیا۔۔۔۔"

بھنتے کی بہو ایک ہی سانس میں کہے جا رہی تھی۔ جگس__یر بے س__دھ ہ__و کے س__ن رہ__ا تھ__ا۔ ان دو پل__وں میں

آانکھوں میں ح__یرت جگ__انے آائے اور مٹ گئے۔ بھنتے کی بہو کا ہر لفظ اس کی اس کے چہرے پر کتنے رنگ

کے لیے ک_افی تھ_ا۔ ک_وئی اس کے س_ر میں پتھ__ر کی ط_رح لگت_ا اور ک_وئی اس کے س_ینے میں س_وئے کی ط_رح

دھنس کے اس کے اندر تڑپاہٹ پیدا کر دیتا۔

یہ دو پل اس کے لیے اتنے لمبے ہو گئے تھے جیسے وہ دو برسوں سے ان بیل__وں کے بیچ میں کھ__ڑا ہ__و۔ اس کے

پاؤں یوں ساکت تھے جیسے زمین میں دھنس گئے ہ_وں۔ جیس_ے وہ ای_ک ایس_ا درخت ہ_و جس_ے ہ__وا کے جھک_ڑ

موڑ توڑ کر زمین کے ساتھ پٹک رہے ہوں پر وہ جڑوں سے ابھی بھی نہ اکھڑ رہا ہو۔

108

آاواز اور بھ_نے آایا ہے؟" جیسے سپنے میں سنائی دی_نے والی کس_ی بھ_وت کی "یہ گجات)بد ذات( یہاں کیا لینے

آاواز اس_ے س_نائی دی۔ جب اس نے س__ر اٹھ__ا ک_ر دیکھ__ا ت_و س_امنے ش_یطان کی بہو سے زیادہ سخت اور کرخت

آانکھوں کے سامنے اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔ صورت کھڑی دھنو کو دیکھ کر اس کی

"اگر انسان کی اولاد ہو تو ابھی یہاں سے نکل جاؤ نہیں تو تیری بوٹیاں کھا جاؤں گی۔"

آاواز پہلے س__ے زی__ادہ ص__اف س__نائی دی۔ دھنو نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا لیکن اس بار جگسیر ک__و اس کی

آائے ہ__و؟ ج__اؤ آاگ لگ__ا ک__ر اوپ__ر س__ے پھ__ونکیں م__ارنے "اگ لائی ڈبو کندھ تے ہمارے گھر کو اپنے ہ__اتھوں س__ے

آاج کے بعد اگر میں نے سنا کہ تم کھیت میں گئے ہوتو میں وہیں تمہ__اری ٹ__انگیں میرے گھر سے نکل جاؤ اور

توڑ دوں گی۔

ہمسارا کھا کے۔۔۔۔کچھ لگتے کھیتوں کے۔۔۔۔۔۔تم کھیت کے سالے لگتے ہو۔

جیسے باپ کی کمائی کا کھریدا)خریدا( ہوتا ہے۔ اس پاگل کے س__ر میں وہ راکھ ڈال ک__ر اس پھپھے کٹ__نی نے

ساری عمر نوچ نوچ کے کھ_ا لی_ا۔ وہ جی_تی ہ_وتی ت_و میں اس کے س_ر ک_ا ای_ک ای_ک ب_ال نوچ_تی جیس_ے تم نے

ہمارے ساتھ کیا ہے۔ رہتی کسر تم نے گھر کو نکھیڑ کر پوری کر لی۔ اپنے پتندر کو ہ__اتھوں میں ک__ر کے اس__ی

س__ے ادھ__ار اٹھ__وا لی__ا۔ بگ__انے)بیگ__انے، پ__رائے( دھن س__ے م__رنے ک__ا انتظ__ام ک__را کے اس ڈائن کی بہ__تری نہیں

ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔میرے گھر سے نکل جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوبارہ اس گلی سے گذرے تو تجھے پی

جاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"میرے )جگسیر( پی جاؤں گی" دھنو نے اور زور لگاتے ہوئے چیخ کر کہا اور جگسیر کو لگا جیسے کسی نے

سوتے میں اس کے سر پر لاٹھی دے ماری ہ__و۔ دھن__و نے اس کے علاوہ ج__و کچھ کہ__ا وہ جگس__یر پ__وری ط__رح

سنتا گیا اور "سیرے پی جاؤں گی " تک سنتے سنتے اس کی روح اجڑ ہی گئی۔

اور جب جگسیر نے اپنا بایاں پاؤں اٹھای__ا ت__و اس__ے اتن_ا زور لگان__ا پ__ڑا جیس_ے دون__وں ہ__اتھوں س__ے گھ__یرا ڈال ک__ر وہ

کیکر کو جڑ سے اکھاڑ نا چاہتا ہو۔ پ_وہ کے مہی_نے میں وہ پس_ینے میں نہ_ا گی_ا۔ اس_ی ط_رح اس نے دای_اں پ__اؤں

اٹھایا۔ پھر اتنی ہلکی پھلکی جان کے نیچے اس کی ٹانگیں ایسے کانپنے لگیں جیس__ے اس کے س__ر پ__ر بھ__اری

109

آای__ا، کس__ی نے اس س__ے کی__ا وزن ہ__و۔ پیچھے دھن__وں اور کی__ا کچھ کہ__تی رہی، گلی میں اس کے س__امنے ک__ون

پوچھا اور کیا کہا۔۔۔۔۔ اسے کسی بات کا علم نہیں تھا۔

آایا اور منہ سر لپیٹ کر لیٹ گیا۔ آا کر وہ کوٹھڑی میں گھر

سولہ

آا اس بات کے کچھ دنوں بعد ، ایک دن جب جگسیر ص__حن میں دھ__وپ س__ینک رہ__ا تھ__ا رونقی اس کے پ__اس

آاج ای_ک اور ب__ات س_نی ہے" لیکن جب جگس_یر نے اس کی ب__ات کی آاہستہ سے کہ_ا"جگس_یا میں نے بیٹھا اور

آاواز میں بولا"سنا ہے دھرم سیوں کئی دنوں س__ے گھ__ر ہی طرف دھیان نہ دیا تو وہ ادھر ادھر دیکھ کر بھید بھری

آایا؟" نہیں

جگسیر کو کھانسی کا دورہ پڑا تو اس نے گھٹنوں میں سر دے کر منہ کو کھیس میں چھپا لیا۔ اگ__رچہ اس کی

پوری توجہ رونقی کی بات میں نہیں تھی لیکن اس کو بولتا ہوا رونقی سنائی دیتا رہا۔

"کوئی کچھ کہتا ہے اور ک_وئی کچھ لیکن جگس_یر وہ انس_ان نہیں فرش_تہ تھ_ا۔ نہ ج_انے بدمعاش_وں نے ان_در ہی

اندر اس کے ساتھ کیا برتاؤ کی_ا۔ گ_وہ جیس_ی اس کی بی_وی دیکھ__نے میں ہی نی_ک لگ_تی ہے۔ ویس_ے ہے س_الی

ڈائن ۔ کوئی کہتا ہے اس نے اور بھنتے نے اسے پیٹ کر گھ__ر س__ے نک__ال دی__ا ہے ک__وئی کہت__ا ہے دکھی ہ__و ک__ر

خود کہیں چلا گیا ہے۔ جتنی منہ اتنی باتیں۔ کیا پتہ چلتا ہے۔ رب کی رب ج__انے۔ لیکن اس جیس__ے ل__وگ ب__ار

بار پیدا نہیں ہوتے جگسیا! رب بھی ایسوں سے بدلے لیت_ا ہے ۔ ج_و س_الے دن رات کنج_ر کھ__انے)خ__انے( ک_رتے

ہیں، جھوٹ کا طوفان اٹھاتے ہیں ان ک__و وہ بھی کچھ نہیں کہت__ا۔ ان ایک__ڑوں س__ے ت__و وہ بھی ڈرت__ا ہے۔ نزدی__ک

کیسے جاتے۔۔۔۔۔۔۔؟"

رونقی کیا کچھ بول گیا ۔ جگسیر کا ادھر دھیان نہیں تھا۔ اسے ساری بات کا تب ہی پتہ چ__ل گی__ا تھ__ا۔ جب

بھنتے کی بہو نے اسے چیخ ک_ر گھ_ر س_ے نک__الا تھ__ا۔ اس دن س_ے وہ کم__رے میں پ__ڑا س_ادھوؤں کی ط_رح اس

بارے سوچتا رہتا تھا۔ دھرم سنگھ گھر سے کیوں چلا گیا؟ میں نے اس سے پیس__ے کی__وں ل__یے؟ ش__ائد اس__ی ل__یے

اسے گھر سے نکلنا پڑا! یہ کیا ہو گیا؟ اب کیا ہو گا؟ جب اسے کسی سوال کا ج__واب نہ ملت__ا ت__و وہ ن__ڈھال ہ__و

110

کے چارپائی پر جا گرتا۔ ساتھ ہی اسے کھانسی چھڑ جاتی۔ جسم تپنے لگتا اور سر اتنا بھاری ہو جاتا کہ گردن

نہ ہلائی جاتی۔ سیدھے لیٹے وہ چھت کو گھورتا رہتا۔

جگس__یر کے ل__یے اب ای__ک ہی س__ہارا رونقی رہ گی__ا تھ__ا۔ وہ کبھی کبھی اس__ے روٹی اور اچ__ار دے جات__ا تھ__ا اور

آاتے جاتے لوگ کبھی اس سے کی__ا ح__ال ہے پ__وچھ ک__ر اس کوئی اس کی خبر گیری نہیں کرتا تھا۔ احاطے کے

کے اندر کے درد جگا جاتے تھے لیکن جب سے وہ یوں چارپوئی پر پڑا تھا اس کی س__وچ بھی عجیب ہ__و گ__ئی

تھی۔ اس کا دن بدن ان لوگوں پر اعتبار ختم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ تو خ__ود مجھ س__ے زی__ادہ تن__گ ہیں ۔ م__یرے ل__یے

کیا کریں۔ وہ اپنے دل کو سمجھا کے خاموش ہو جاتا اور پھر اس کے دکھوں کی چبھن کچھ کم ہو جاتی۔

آاہستہ جگسیر نے روٹی بھی چھوڑ دی۔ رونقی اس کے لیے کوئی دوائی لاتا ت__و وہ نہ کھات__ا۔ اب وہ رونقی آاہستہ

آا ک__ر اس__ے آاتیں اور وہ تن__گ سے بات بھی کم کرتا تھا۔ جب بات کرتا تو اوپری سی۔ جو رونقی ک__و س__مجھ نہ

چپ کرانے کے لیے کہتا "کچھ نہیں اب تم خاموشی سے لیٹ جاؤ۔ کل باتیں کریں گے"۔

"رونقا مجھے رات سے ڈر لگتا ہے۔ تو یہیں سو جای__ا ک__ر"۔ ای__ک دن بیم__اری س__ے اٹھے ض__دی بچے کی ط__رح

اس نے کہا۔

اس دن کے بعد رونقی وہیں سونے لگا۔ رونقی کے پاس کئی پرانے قصے تھے ان کو پڑھنے لائق پنجابی اس نے

آادھی رات ت_ک قص_ے س_ناتا رہت_ا۔ جب وہ آادھی ڈیرے والے سادھو سے بچپن میں سیکھی تھی۔ وہ جگسیر کو

قصے کا طربیہ پہلو پڑھتا تو جگسیر کو اپنے سینے اندر کچھ تمازت محسوس ہوتی لیکن جب ک__وئی دکھ کی

آاگے بڑھ__و رون__ق" ۔ دو تین دن کے بع__د رونقی ک__و جگس__یر کی آاتی تو وہ جلدی سے کہتا "یہ چھ__وڑ دو۔ بات

اس عادت کا علم ہوا تو وہ دکھ والا حصہ خود ہی چھوڑ دیتا۔ لیکن ی__وں قص__ے کی ل__ڑی ٹ__وٹ ج__اتی اور رونقی

قصے کو اس کے ساتھ نہ پڑھ سکتا تھ__ا جس س_ے قص_ے ک__ا تسلس_ل ق__ائم رہ س_کتا اور وہ اس_ے روانی س__ے پ__ڑھ

سکتا۔ جگسیر کو یہ ٹوٹی لڑی یوں لگتی جیسے قصے کے کردار چلتے چلتے کھالے پر س_ے چھلان_گ لگ_ا ک_ر

دوبارہ چلنے لگ_تے ت_و کس_ی ک_ا ک_وئی ج_وڑ ات_ر جات_ا اور گھٹ_نے کی چپ_ٹی ات_رنے پ_ر ان کی چ_ال بے ت_رتیب ہ_و

111

جاتی۔ ) ان کی بے ترتیب چال سے بھی( جگسیر گھبرا جاتا اور ک__ئی دفعہ وہ رونقی ک__و قص__ہ چھ__وڑ ک__ر ب__اتیں

کرنے کو کہتا۔

"باتیں کیا کریں تم تو اب پاگل پنے کی باتیں کرنے لگے ہو" رونقی ایک دن مذاق میں کہہ بیٹھ__ا۔ اس دن کے

بعد جگسیر نے اسے باتوں کے لیے بھی نہ کہا۔

رونقی یہ کہہ کر بہت پچھتایا لیکن اس نے جو کہا تھا بات سچ تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اندر کی جو

بیماری نے اس کے جسم کو دن بدن کھا رہی تھی، وہیں اس کا دم__اغ بھی اپ__نی جگہ پ__ر نہیں تھ__ا۔ وہ ایس__ے

آاتے وہ اکتا جاتا۔ کبھی کبھی پوچھتا"رونقی اگ__ر انس__ان پی__دا نہ بے سروپا سوال کرتا جو رونقی کو سمجھ ہی نہ

ہو تو کیا ہو۔۔۔۔ کہتے ہیں چوراسی لاکھ جیون کاٹ کر جی کو انسان کا جامہ ملتا ہے۔ لیکن اگر بندہ کہے

کہ میں نے انسان کے جامے میں پڑن__ا ہی نہیں، مجھے دوب__ارہ کس__ی ج__انور کے جس_م مین پہن__ا دو ت__و پھ__ر کی__ا

دھرم راج)بھگوان( اسے زبردستی انسان کا جامہ پہنائے گا؟"

کبھی کبھی وہ ایسے سوال کرتا ، جو رونقی بھی پوچھنا چاہتا۔ پل دو پل تو وہ ٹھہر جاتا لیکن پھر اسے غص__ہ

آات__ا تھ__ا۔ تب وہ جگس__یر کی ب__ات نہ کاٹت__ا اور اس کے آانے لگتا کیونکہ اسے ان میں سے کسی کا ج__واب نہیں

سوالوں کو غور سے سنتا۔ جگسیر بھی جواب کا انتظار کیے بغیر سوال کیے جاتا۔

آاگا پیچھا تو پھر وہ کس لیے جیتا ہے؟" "رونقا اگربندے کا کچھ نہ ہو۔۔۔۔۔۔نہ گھر گھاٹ ، نہ بال بچہ، نہ

"جن کے پ__اس زمین ہے، اچھ__ا گھ__ر ب__ار ہے، گہم__ا گہمی ہے، ب__ال بچے ہیں ، انہ__وں نے پچھلی زن__دگی میں

اچھے کام کیے ہوتے ہیں، رونقا؟"

آات__ا ہے کہ اس زن__دگی میں "یہ دھرم، کرم، کرم، کرم رونقا کیا ہوتا ہے۔ صرف پچھلے جم میں کچھ کیا ہوا کام

کیے ہوئے کام؟

آای__ا ہے؟ ک__تی ج__ات )ذات( ایس__ے ہی آات__ا ہے کہ وہ پچھلے جنم میں کی__ا ک__ر کے کس__ی ک__و کی__ا س__فنا)س__پنا(

بھونکتی ہے"

112

آاتا ہے یا دینے ک__ا حس__اب "رونقا جب اگلے جہاں بندے کا لیکھا)حساب( ہوتا ہے اس وقت صرف لینا ہی نظر

بھی ہوتا ہے؟ دینے کا کیا کرتے ہیں؟ جب یہاں رہنے والوں نے کیا کرن__ا ہے۔ رونق__ا، ل__وگ اس حس__اب میں پ__ڑتے

آاتے۔ ہی کیوں ہیں بھلا؟" اور اس کے یہ الجھا دینے والےسوال ختم ہونے میں نہ

جب رونقی دن کے وقت بھٹی کے لیے ایندھن چننے کے لیے نکلتا تو جگسیر اکیلا پ__ڑا ایس__ے ہی س__وچتا رہت__ا۔

آاتے کہ وہ خ__ود بھی ح_یران ہ__و جات__ا۔ ایس_ے وقت اس_ے بچپن س_ے کئی بار تو اسے اتنے اوپرے اور عجیب خیال

آاتا جیسے یہ بھی ایک قصہ ہو لیکن اس قصے میں جگس__یر رونقی لے کر اب تک کا اپنا جیون یوں واضح نظر

کے قصوں کی طرح، جگسیر کا قصہ بے ترتیب تھا۔ نہ اس وزن تھا نہ لے۔ اس__ے یہ قص__ہ کھیت__وں کی پگڈن__ڈی

جیسا لگتا۔ راستے میں کھالے، کہیں جنگلی گھاس، کہیں بیجی ہوئی فصل، کہیں پودوں کےسخت تنے، ت__و

کہیں کچرے کے ڈھیر۔

"رونقا اگر ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔نکے کی بیوی کو بلا کر ۔۔۔۔"

جگسیر کے نکے کی بہو کے ذکر پر رونقی بات پوری ہونے سے پہلے ہنس دیا۔ لیکن پھر ایس__ے اداس ہ__و گی__ا

آادمی کو اچانک بغیر وجہ کے گالی دی ہو۔۔۔۔۔۔ جیسے کسی نیک

آایا اور جب وہ لوٹا تو اس ک_ا جھری_وں والا چہ_رہ ات__را ہ_وا تھ_ا۔ یہ ب__ات بت_انے کی اس اگلی رات رونقی دیر تک نہ

میں ہمت نہیں تھی کہ نکے کی بی__وی ، ک__ئی دن__وں س__ے بھ__ائی کے بی__اہ میں میکے گ__ئی ہ__و ئی تھی۔ تب وہ

قصہ بھی نہ پڑھ سکا اور اونچی اونچی واہگرو)واہگرو( واہگرو کرتے ک_رتے چارپ_ائی پ_ر لیٹ گی_ا۔ ی_وں جیس_ے وہ

آانے س__ے روک رہ__ا ہ__و۔ کبھی کبھی ت__و "ہے واہگ__رو" لمب__ا کہ__نے کی آاڑ میں ان__در کی کس__ی ب__ات ک__و ب__اہر اس

بجائے اسے اتنی جلدی اور اونچی چیخ سے کہتا جیسے سانپ دیکھ کے ڈر گیا ہو۔

جگسیر نے رونقی کو دروازے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا اور پھر چھت کی طرف ی__وں دیکھ__نے لگ__ا جیس__ے وہ

آا آاس پاس کی ہر چیز ایس__ے نظ__ر آانکھوں کو ٹیڑھی میڑھی کڑیوں میں گاڑ دینا چاہتا ہو۔ یوں پڑے ہوئے اسے اپنے

آائینہ لگ__ا ہ__و اور اس میں س_ے ہ_ر چ_یز ک_ا عکس دکھ رہ__ا ہ__و۔ رہی تھی جیسے ٹ__یڑھی کڑی__وں س_ر کی میں ک__وئی

تختے اور دھول جمے پیالے اور ہانڈیاں۔ پھتے پ__رانے اور بچھ__ونے ۔ اس کی بے بے ک__ا ص__ندوق اور ٹ__وٹے پھ__وتے

113

کھیتی باڑی کے اوزار جو اس کے نہیں دھرم س__نگھ کے تھے۔ یہ ک__وٹھڑی ج__و اس کی س__مجھ کی عم__ر س__ے

پہلے کی تھی، اور جس کی کھڑکی__وں میں س__ے پ__انی پ__ڑنے س__ے نالی__اں بن ک__ر ، دی__واروں پ__ر ک__ئی عجیب س__ی

شکلیں بن گئی تھیں! اور ان عجیب ڈراؤنی ش__کلوں میں س__ے ک__ئی قس__م کی تص__ویر بن ک__ر دوب__ارہ ان کھوہ__وں

کی مٹی میں گم ہو جاتیں لیکن کسی تصویر کے خطوط واضح نہیں ہوتے تھے

"رونقا دھرم سیوں کا کچھ پتہ چلا؟" جگسیر نے اچانک پوچھا۔

"نہیں" رونقی نے مختصر جواب دیا اور پھر اس_ی ط_رح "واہگ__رو" کہہ ک_ر چپ ہ__و گی__ا۔ جگس_یرپہلے کی ط_رح

چھت پر ٹکٹکی باندھے رہا پھر بولا نکے کی بیوی کو کہن__ا کہ م__یری م__ڑھی پ__ر ض__رور پوج__ا لگ__ائے۔ ورنہ تم ت__و

لگاؤ گے ہی۔۔۔۔" رونقی نے اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے پھ__ر چیخ م__ار کے "واہگ__رو" کہ__ا لیکن

آانکھوں اور گلے میں رکاوٹ کو نہ روک سکا۔ اب وہ اپنی

"کیوں مرے کو مارتے ہ_و؟ م_یرے جیس_ے دون_وں جہ_انوں کے دھتک_ارے ک_ا اور ک_ون ہے؟ ای_ک ت_و تھ_ا، ت_و بھی

آانس_وؤں کی دو دھ__اریں گہ__رے آاواز س__ے رونقی نے کہ__ا اور ایسی ب__اتیں ک__رنے لگ__ا ہے۔۔۔۔" دکھ بھ__ری رن__دھی

آانکھوں میں سے بہہ نکلی تھیں۔ گڑھوں کی جیسی اس کی چھوٹی

اس دن کے بع__د رونقی نے ک__وئی ب__ات جگس__یر کے منہ س__ے نہ س__نی اور نہ ہی اس کی نگ__اہ چھت س__ے ہ__ٹی۔

آانکھیں کھلی کی کھلی رہیں اور پ_انچویں دن ان کی م__دھم سیدھا پڑا وہ کڑیوں کی طرف دیکھتا رہتا۔ اس کی

آانکھوں کے ریٹھوں کی طرح ہو گئے۔ ہوتی ہوئی روشنی ختم ہو گئی۔

آاخری وصیت کے مطابق اس کی مڑھی بنا دی آا کر رونقی نے اس کی اور جگسیر پر پھول ڈالنے کے بعد واپس

آائی تھی مڑھی پوج__نے ک__و کہ__نے کی ہمت نہ ک__ر س__کا۔ لیکن بھانی کو جو اپنے بھائی کے بیاہ کے بعد واپس

اس کی پکی، چنی ہوئی اینٹیں ایک دن ویس__ی کی ویس_ی ہی رہیں لیکن دوس__رے دن جب وہ ش__ام ک__و قبرس__تان

سے گذرا تو نئی پوچھی مڑھی میں جلتا دیا دیکھ کر وہ رکا۔ وہ کتنی دیر دئیے کی ئی لو کی طرف دیکھتا رہ__ا

یہ لو ہوا سے کانپ کر دو ہا جاتی ۔ پھر ٹھہر کر ایک نہ ڈولنے والی روشنی بن کر اور اونچی ہو جاتی۔

114

پھر اچانک رونقی کو قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اس نے اوپ__ر دیکھ_ا ۔ س_امنے والی پگڈن_ڈی ، س_فید ک_پڑوں

میں اسے ایک خاتون جاتے دکھی۔ مڑھی کے دئیے کی لو کی طرح ک__انپ کے دو ہ__وتی اور پھ__ر نہ ڈول__نے والی

روشنی بن کر اونچی ہوتی ہوئی !

"تم تو دلاسہ دے کے چلے گئے

جگ سے اپنا سیر)حصہ ( ختم ہوا!"

آانکھیں پونچھتے ہوئے اس ع__وت کے پیچھے پیچھے گ__اؤں آاہستہ سے کہا اور صافے کے پلو سے اپنی رونقی نے

کی طرف چل دیا۔

115

40-A

آاتے ہی ٹاہلی کے نزدیک مینڈھ پر کھڑے ہو ک__ر اپ__نے کی__اروں پ__ر ای__ک نظ__ر ڈالی اور اس جگسیر نے کھیت میں

آا گئی۔ دور تک پھیلے کھیتوں کی نکر پر اس کا کیارا ہری چنی پر ش__وق س__ے کش__یدہ آانکھوں میں ٹھنڈک کی

کی ہوئی بوٹی لگتا تھا۔ وہ خاس_ی دی_ر ٹس_بری کے پھول__وں کی ط_رح چھ_وٹے چھ_وٹے پ_ودوں ک_و دیکھت_ا رہ_ا۔ ہ_ر

آانکھوں میں عجیب سا نش__ہ تھ__ا۔ پودے کی شاخیں اسے اپنے جسم کے اعضاء کی طرح لگتی تھیں۔ اس کی

اور انگ میں ایسا لطف کہ اس کا ایسے کھڑاہونا بھنتے کو اچھا نہیں لگا تھا۔

آاؤ اب ٹھنڈے ٹھنڈے کام کر لیں۔ بہت ہو گئی۔ ایسے دیکھنے سے اسے لعل نہیں لگیں گے۔ "

گندم کے دانے ہی!"

جگسیر کا جیسے سپنا ٹوٹ گیا۔ وہ خاموشی سے بھنتے کے پیچھے چلا اور دونوں کھالا ٹھیک کرنے لگے۔

آائے تو جگسیر نے پانی کاٹنے س__ے ذرا پہلے اپ__نے کھیت کی پھر اگلی رات جب جگسیر اور بھنتا پانی لگانے

طرف لپکے سماجت کی اور کہا "پہلے اس کا کام ختم کر لیتے"

"یہ کہیں بھاگا جا رہا ہے؟" بھنتے نے ٹوکتے ہوئے کہا "بعد میں پانی لگنے سے ٹمپیلی نہیں ہوتی"

آاج ت_ک دھ_رم س_نگھ اور وہ جب جگسیر چپ ہو گیا اس کی عمر میں پہلے بار ایسی بے تکی ب__ات ہ_وئی تھی

آاگے ی_ا آاتے ت_و جگس_یر کی_اروں ک__و پہلے پ__انی لگ_ا ک_ر پھ__ر دوس_ری ط_رف م_وڑتے۔ ویس_ے ت__و بھی پانی لگانے

پیچھے پانی لگنے سے جگسیر کو ایسا فرق بھی نہیں پڑتا تھا تاہم بھن__تے کے دن بہ دن روکھے وط__یرے س__ے وہ

ضرور دکھی ہوا تھا۔ پچھلے دو تین سالوں سے بھنتے کے رنگ ڈھنگ ہی اور ہوتے جا تے تھے۔ اگرچہ جگس__یر

کو معلوم ہو چک_ا تھ__ا کہ دھ_رم س_نگھ کے بع_د اس کی بھن_تے کے س__اتھ نہیں نبھے لیکن اب بھنت_ا ج__و ک_ڑوا

میٹھا بولتا رہتا جگسیر سے برداشت ہونا مشکل تھا۔ اس نے جس سلوک سے دھرم سنگھ کے ساتھ دن گ__ذارے

تھے وہ چاہتا تھا کہ اس کی باقی زندگی بھی اسی طرح گزر ج__ائے لیکن اس ک__و یہ ب__ات پ__وری ہ__وتی نظ__ر نہیں

آاتی تھی۔